Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کبھی ہم بھی تھے توجہ، محبت و التفات کے قابل

 
 پرانی چیزوں کو تو جہ کے لائق نہ سمجھنے کا وتیرا خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
ہم اگر اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جو شخص بھی بزرگوں کی عزت و احترام کرتا ہے اس کو دنیا کی تمام نعمتیں ملتی ہیں۔ ادب ہی کی بنا پر وہ دنیا میں کامیابی کی منازل طے کرتا ہے اور جو ان سے محروم ہے وہ حقیقتاً ایسا شخص ہے جو دنیا کی ہر نعمت سے محروم ہے۔ شاید اسی لئے دانش ور کہہ گئے ہیں کہ باادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب۔ الغرض اپنے بزرگوں کا ادب کرنا ہی ایسی صفت ہے کہ جو کسی انسان کو ممتاز بناتی ہے۔ دوسرے لوگوں سے جس طرح ریت کے ذرے موتیوںکی مانند ہمیشہ اپنی چمک دمک قائم رکھتے ہیں اسی طرح مودب شخص کبھی بھی لوگوں کے دلوں سے اپنی عزت و احترام نہیں کھوتا ۔ دنیا میں لوگ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ بوڑھے والدین کی فضیلت اپنے گھر میں بہت ہوتی ہے۔ہمارے بڑوں نے اپنے بزرگوںکو کتنی اہمیت دے رکھی ہے اس کے باوجود آج کی نسل نو اپنے بزرگوں کا خیال نہیں کرتی ہے۔ دین اسلام ایک ایسا پاکیزہ مذہب ہے جو بوڑھوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچاتا ہے مگر نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے ضعیف ماں باپ کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔
آج کے بچے والدین کو بات بات پر ڈانتے ، جھڑکتے ہیں او رپھر بآواز بلند ان کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، ان کو ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ والدین اپنے بچوں سے کسی چیز کے متعلق دو سے تین مرتبہ پوچھ لیں تو بچوں کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں، ابروتن جاتے ہیں۔ وہ والدین کے آگے صرف دو وقت کی روٹی رکھ کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرائض پورے کر دیئے جبکہ والدین ان کی پرورش پ کے لئے اپنی زندگی ختم کر دیتے ہیں صرف یہ سوچ کر کہ یہ ان کا سرمایہ ہےں۔
ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ادب وا خلاق پر زور دینا چاہئے کیونکہ بچوں کی زندگی میں ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی عافیت ہے۔ حسن اخلاق اور ادب کو جو نہ اپنائے، اس کو معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بحیثیت والدین اپنے بچے کو شروع سے ہی اس طرف توجہ دلائیں اور اس پر کڑی نگاہ رکھیں کہ ہمارا بچہ کسی کے ساتھ کیسا سلوک کررہا ہے او راس کو یہ بتائیں کہ بڑوں کی کوئی بات ناگوار بھی گزرے تو بداخلاقی سے ان کے ساتھ پیش نہیں آنا اور بڑوں ، چھوٹوں کا لحاظ رکھنا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے ساتھ جیساسلوک روا رکھیں گے ویسا ہی سلوک ہمارے بچے بھی اپنے بزرگوں کے ساتھ کریں گے کیونکہ بچے وہی کچھ کرتے ہیں جو ہم اپنے بزرگوں کے ساتھ کر تے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ادب و آداب اورحسن اخلاق ہر معاشرے او رہر قوم کا وقار اور پہچان ہے ۔جو قومیں اخلاق و کردار سے عاری ہوتی ہیں وہ زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ اس لئے یہ قوموں کی بنیاد تصورکی جاتی ہے اور بنیاد جس قدر مضبوط ہو گی ،عمارت اسی قدر شاندار ہو گی۔ اس لئے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جس نے بھی اپنے بزرگوں کی عزت و احترام نہیں کیا ،ان کی آنے والی نسلیں بھی ان کوعزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں ۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ والدین جب بوڑھے ہو جائیں تو انہیں اف تک نہیں کہنا چاہئے۔ والدین اپنے بچوں کی ہر خواہش کا احترام کرتے ہیں ان کا ہر کہا مانتے ہیں اور ان کی ہر ضد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے بچوں کا بھی فرض ہے کہ ان کی ہرخواہش کا احترام کریں اور ان کا حکم مانیں۔صرف والدین نہیں بلکہ کوئی بھی بزرگ ہو سب کی عزت و احترام ہمارے اوپر لازم ہے ۔خواہ وہ ہمسایہ ہو یا کوئی اور ۔
بزرگوں کی دعاوں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اپنے والدین ، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام کیا، کامیابی نے اس کے قدم چومے ۔اس کو زندگی کے ہر موڑ پرخوشیاںنصیب ہوئیں۔ قدرت ایسے لوگوں کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دورکر دیتی ہے کیونکہ بزرگوں کی دعائیں ان رکاوٹوں اور مصیبتوں کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ہمیں والدین کی خدمت کرنی چاہئے ۔ان کی دعائیںلینی چاہئےں، انکے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ شہر لاہورکی ہے جہاں ایک معروف علاقے کی دیوار پر ایک لیٹر بکس نصب ہے جو ہر راہگیر کو اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے کہ کبھی ہم بھی لوگوں کی توجہ، محبت والتفات کے قابل ہوا کرتے تھے لیکن پھرسائنس نے ترقی کیا کی، گزرے زمانے کی ہر شے اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھی اور لوگوں کی زندگی سے نکل کر بھولی بسری داستاں بن گئی، ماصی کا واقعہ ،  قصہ¿ پارینہ بن گئی ۔ جدید اشیاءسے محبت اور پرانی چیزوں کو توجہ و نظرِ عنایت کے لائق نہ سمجھنے کا وتیرا خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے۔ نئی نسل میں ایسا ہی احساس اپنے بوڑھے والدین کے لئے بھی پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس رجحان کی بیخ کنی ہمارا معاشرتی فریضہ ہے ورنہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اولاد کی نظر میں بڑھاپے کو پہنچنے والے والدین کی حیثیت اک خاموش داستان بن کر رہ جائے ۔ آج ایسے نوجوان موجود ہیں جن کی خاصی تعداد اپنے والدین کو کسی بے کار شے سے کم نہیں سمجھتی ۔ 
حقیقت ہے کہ یہ زندگی کا اصول ہے کہ ہر نئی آنے والی چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ نئی چیزیں پرانی چیزوں کی جگہ لے لیتی ہےں۔ لیٹر بکس اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا، لیٹر بکس قصہ پارینہ بن کر رہ گیا۔ شاید یہ ابتداءسے ہی قدرت کا قانون ہے، کوئی نئی بات نہیں یعنی جب بھی ہم اس لیٹر بکس کو دیکھتے ہیں، ہمیں ماضی کی یاد آتی ہے۔
آج سائنس نے اتنی ترقی کر لی کہ لیٹر بکس کی وہ وقعت ہی نہیں رہی جیسی پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ پہلے کیمرے ہوا کرتے تھے ،اب ان کی جگہ موبائل کیمرے اوروڈیوکلپس نے لے لی ہے۔ان کی جگہ آئندہ کیا چیز لے گی، یہ ہمیں معلوم نہیں کیونکہ ماضی میں بھی کتنی ہی ایجادات آئیں اور پھر آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئیں، ان کی ایک مثال وڈیو کیمرا اور وی سی آر وغیرہ ہیں۔بلا شبہ پرانی چیزوں کا موازنہ ہمیں والدین سے ہر گز نہیں کرنا چاہئے۔ والدین تو انمول گوہر ہیں ۔ جہاں یہ نہ ہوں، ان کی جھولی خالی ہوتی ہے۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جن کے والدین بقیدِحیات ہوں۔انہیں والدین کی خوب خدمت کرنی چاہئے او ان کی دعائیں سمیٹنی چاہئےں۔ گو کہ والدین وہ لوگ ہوتے ہیں جو نئی نسل کی پرورش کرتے ہیں مگر بالآخر وہ گزری ہوئی نسل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ 
ہر گھر میںماں باپ کا اپنا مخصوص مقام ہوتا ہے ۔ اس میں کسی طور پر کمی نہیں آنی چاہئے ۔ان کی دعائیں او ران کی قربانیاں ہمیشہ بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل بھی گزشتہ نسل کی نمائندہ کہلانے لگتی ہے ۔والدین کی حیثیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ اگر ان کی حیثیت کم ہو گی تو یہ بڑی کم نصیبی کی بات ہو گی۔ان کا سایہ، رحمت کا سایہ ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہوتا ہے۔ ان کی موجودگی بچوں کے لئے ایک بہت بڑی ڈھارس ہوتی ہے۔ والدین کی نیک تمنائیں ، خواہشات اور دعائیں ہی بچوں کے لئے کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہوتی ہیں کیونکہ اس دنیا میں جتنے بھی خونی رشتے ہیں، ان میں والدین کی اہمیت او رقدر و منزلت سب سے زیادہ ہے۔ اولاد کو دنیا کی ہر چیز میسر آسکتی ہے مگر والدین کی شفقت و محبت کسی قیمت پر نہیں مل سکتی۔ یہ بات واضح ہے کہ اولاد کے لئے سب سے مقدم حق والدین کا ہے ۔اولاد کو اپنے والدین کا مطیع ، خدمت گزار اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور ان کے ادب و احترام اور ان کے حقوق کی نگہداشت میں ذرا بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ اسی میں ہمارے لئے دین و دنیا کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ 
 
 
 

شیئر: