Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں ڈبونے پر کمربستہ معافیا

 
چھٹولنے پن میں ہم جانتے تھے کہ فلالین کیا ہے، ٹسر کیا، شنیل کیا ہے ، کھدر کیا
شہزاد اعظم
چھٹولنے پن میں بہت سی باتیں تو ہمارے لئے بالکل عام سی ہوتی تھیں۔ ان پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوتی تھی مثال کے طور پر ہم جانتے تھے کہ فلالین کیا ہے، ٹسر کیا، شنیل کیا ہے ، کھدر کیا، لنڈا کس بازار کو کہا جاتا ہے،وڈیرہ کون ہوتا ہے اور”جنابِ کمی“کا خطاب کیسی شخصیت کو ملتا ہے۔ اَپو کون ہے اور آپا کہہ کر کس کو پکارنا چاہئے۔عم کون اور عمزاد سے کیا مراد ہے،ماسٹر کون ہوتا ہے اور وہ کسی ٹیڑھے کو گز کیسے کرتا ہے۔ ان سب باتوں سے ہم بخوبی آگاہ تھے کیونکہ یہ ہمارے روز مرہ واقعات و مشاہدات اور معمولات وحالات کا حصہ تھیںلیکن بعض باتیں ایسی تھیں جن سے ہماری سماعت یا نطق بالکل بھی آشنا نہیں تھے۔ ان ہی میں سے ایک ”اَپولو11“ بھی تھا۔ یہ ”جملہ“ سنتے ہی ہمارے ذہن میں پہلا سوال یہ وارد ہوا کہ ”اَپو “سے یہی کیوں کہنا ہے کہ ”لو 11“، اُن سے یہ کیوں نہیں کہا جا سکتا کہ ”اَپو! یہ لو 12 یا یہ لو 120“ وغیرہ؟ہم اسکول گئے تو ہر بچہ یہی استفسار کر رہا تھا کہ آخر یہ ”اَپولو گیارہ“ کیا ہے۔ پھر ہمیں حقیقت پتا چل گئی کہ یہ وہ خلائی جہاز ہے جو چاند کی سطح پر اترنے والا ہے۔ اس کے بعد یہ اصطلاح اتنی زباں زدِ عام جھام ہوگئی کہ ہم نے تیز رفتاری کے باعث ہونے والی لڑائی میں لوگوں کو کہتے سنا کہ ”توں گڈی چلاوندا پیا ایں کہ اَپولو گیاراں؟“ 
ایسے کتنے ہی الفظ ہیں جو پہلے پہل تو ہمارے لئے اچنبھا ثابت ہوئے اور بعد ازاں” گلیاری لغت“ کا حصہ بن گئے۔ایسا ہی ایک لفظ ”مافیا“ تھا۔ 70ءکی دہائی میں جب یہ لفظ اہالیانِ پاکستان میں متعارف کرایا گیا تو اسے بہت اہم ، خطرناک، خوفناک اور پر اسرار قسم کی اہمیت حاصل تھی۔اُس زمانے میں خرکاروں کا مافیا تھا جو کمسنوں اور نوجوانوں کو اغوا کر لیا کرتا تھا اور ان سے کارخانوں یا کھیتوں وغیرہ میں گدھوں کی طرح کام لیا کرتا تھا۔اسی لئے انہیں خرکار کہاجاتا تھا۔ اس مافیا کے منصہ¿ شہود پر نمودار ہونے کی خبروں کے ساتھ ہی عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور قیام امن کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ادارے حرکت میں آگئے۔آپ یہ سن کرنہ صرف حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوں گے بلکہ شاید ہمیں دنیا کا سب سے بڑا دروغ گو اور لپاٹیا سمجھنے پر خود کو مجبور ہوتا محسوس کریں گے کہ اُس وقت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا کام ”پولیس“ کیا کرتی تھی چنانچہ پولیس نے اس مافیا کی سرکوبی کا بیڑا اٹھایا اورکچھ ہی عرصے میں اس نے اس کا گلا دبا دیا۔اُس دور میں اگر کوئی کسی کو بہت ہی بڑی گالی دینا چاہتا تو وہ کہتا تھا کہ ”تم تو شکل سے ہی کسی مافیا کے سرغنہ لگتے ہو۔“ عموماًیہ گالی سننے والے کی نفسیات تباہ ہوجاتی تھی اور وہ ہر روز آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو غور سے دیکھتا اور سوچتا تھا کہ میں تو شکل سے ہی معاشرے کا ناسور لگتاہوں، مجھے جینے کا حق نہیں۔
وقت گزرتا گیاپھر اس نے ہمیں وہ دن بھی دکھا دیئے جب ہمارے معاشرے میں متعدد مافیے پیدا ہوگئے۔ ان میں ٹرانسپورٹ مافیا،رشوت مافیا، میڈیسن مافیا، ٹوئیشن مافیا،ٹیچر مافیا، ڈاکٹر مافیا، پولیس مافیا، ٹی ٹی مافیا،ریلوے مافیا، ڈاکو مافیا،وکیل مافیا،سود خور مافیا، ہیروئن مافیا،اغوا مافیا، تاوان مافیا، قتل مافیا،دہشتگرد مافیا، اراضی مافیا، بلڈر مافیا، جیل مافیا، مریض مافیا، اطائی مافیا، غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی اچھے یا برے شعبے کا نام چنئے اور اس کے ساتھ مافیا کا لفظ جوڑ دیجئے تو اس عنوان سے ایک ”بااختیار ٹولہ“ آپ کو وطن میں دندناتا ضرور نظر آئے گا۔ماضی میںکہاں ایک مافیا کے خلاف درجنوں ادارے حرکت میں آتے تھے اور کہاں اب درجنوں مافیاوں کے خلاف کوئی ایک ادارہ بھی متحرک نہیں ہوتا۔گزشتہ دنوںہم نے یہی سوال اپنے اُس استادِ محترم سے کیا جنہوں نے ہمیں کچی جماعت میں ”د ، ھ کی بنی دھے“ رٹایا تھا۔وہ سوال سنتے ہی لال پیلے ہوگئے اور گویا ہوئے کہ ”نالائق!آج بھی اگر کہیںمافیاموجود ہو تو اس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہوتی ہے۔ تم نے اپنے سوال میں جن جن کا نام لیا وہ ”مافیا“ نہیں بلکہ ”معافیا“ ہیں۔ انہیں سب کچھ معاف ہے۔ مافیا وہ بیروز گار ہوتا ہے جو پان سگریٹ کا کھوکھا لگانے کے لئے بینک سے 10ہزار کا قرضہ لیتا ہے ۔ جب واپس نہیں کر سکتا توبینک اسے پولیس سے پٹواتا ہے اورپھر جیل بھجوا دیتا ہے۔ ”معافیا“ وہ ہے جو کئی ارب کا قرضہ لے کر بیرون ملک منتقل کر دیتا ہے اور واپس نہیں کرتا۔ بینک اس کو ”معاف“ کر دیتا ہے۔قومی ایئر لائنز اورریلوے برباد ہوتی ہے اور ذمہ دار کو ”معاف“ کر دیاجاتا ہے۔ سمجھے میاں، یہ معافیا ہی ہمارے وطن کوڈبونے پر کمر بستہ ہے۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: