Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نظام

* * * * محمد مبشر انوار* * * *
زمانہ جاہلیت میں بھی حکمرانِ وقت گو کہ مختار کل تصور ہوتا تھا اور اس کا فرمان ہی قانون کا درجہ رکھتا تھا لیکن اس فرمان کے پیچھے بھی درحقیقت مشیران کی مشاورت موجود ہوتی تھی،مراد یہ کہ کسی بھی دور میں مشاورت کے بغیر کاروبارِ حکومت نہیں چلائے گئے۔ مشاورت کے اس نظام کو محدود جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں جس میں حکمرانِ وقت اپنے حلقہ احباب میں نابغہ روزگار ساتھیوں کو رکھتا جو امور مملکت چلانے کیلئے حکمران وقت کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے اور حکمران ان آراء کی بنیاد پر امور سلطنت کو نپٹاتا۔ بعد از اسلام محدود طرز کی یہ جمہوریت مزید نکھر گئی کہ سرکار دوعالم محمد مصطفی بذات خود اور آپ کے صحابہ کرامؓنے ،خدمتِ انسانیت کے لئے اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ایسے ایسے قوانین وضع کئے اور صدق دل سے نہ صرف ان پر خود عمل کیا بلکہ اپنے عمال کو بھی ان قوانین سے مبرا نہ رکھا۔یہی وجہ ہے کہ تا قیامت آنے والی تمام اقوام،جو بھی ان اصولوں کو صدق دل سے اپناتی ہیں یا اپنائیں گی ،عروج ان کا مقدر ٹھہرے گا اور جو اقوام ان قوانین ،ان اصولوں سے روگردانی کریں گی،پستی و زوال ان کا نصیب ہو گا کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔ نظام حکومت کی بنیادی تقسیم پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ اس وقت عالمی برادری میں 2 طرح کے نظامِ حکومت نافذ العمل ہیں :
ایک پارلیمانی جمہوریت اور دوسرا صدارتی نظام ،جبکہ ان دونوں نظام حکومت کی اساس جمہوریت ہی ہے ،جس میں ہر رائے دہندہ کا شمار کیا جاتا ہے کہ وہ کس امیدوار کا ساتھ دیتا ہے۔ پارلیمانی نظام ِ حکومت میں ایک گروہ ،سیاسی جماعت اور اس کے منشورکو منتخب کیا جاتا ہے تو صدارتی نظام میں ایک سیاسی جماعت کے امیدوار کو بطور صدارتی امیدوار،سیاسی جماعت کے منشورکو بذریعہ ووٹ تقویت دی جاتی ہے لیکن درحقیقت صدارتی نظام ،جو بظاہر ایک شخص کو طاقتور ظاہر کرتا ہے،بھی دیگر 2 منتخب اراکین کے اداروں کا محتاج ہے کہ کسی بھی پالیسی کے نفاذ میں ان 2اداروں کی منظوری بہر طور ضروری ہے وگرنہ بحیثیت صدر جاری کوئی بھی فرمان قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا جبکہ تیسرا نظام جو درحقیقت ان نظاموں کی بنیاد ہے،اسلامی طرز حکومت ہے ،جس کے متعلق ہمارے علمائے دین کی کاوشیںکم اور خواہشیں تو بہت زیادہ نظر آتی ہیں مگر عملاً صورت ایسی ہے کہ جو دین امت کو اکٹھا کرنے کیلئے آیا ،اس کے ماننے والے آپس میں ایسے تفرقے بازی کا شکار ہیں کہ ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں ۔
امامت کے معاملات پر ان کی یکسوئی نہیں،فروعی معاملات ان کی نظر میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیںجبکہ اصل اساس سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ اب تو ایسی انتہا پسندی عود آئی ہے کہ اللہ کی پناہ ،صرف اپنے مسلک اور فرقے کی بالا دستی کی خاطر غیروں سے مدد لینے میں بھی عار نہیں سمجھتے لیکن یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ جن سے مدد مانگ رہے ہیں،درحقیقت وہی عناصر مسلم اتحاد کے دشمن ہیں اور دوست بن کر باہمی اتحاد کو نفاق میں بدل رہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان کسی صورت غلط نہیں ہو سکتا اور ہمارے علمائے کرام منبران پر بیٹھ کر اس فرمان کو کثرت کے ساتھ بیان بھی کرتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے مگر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کیخلاف ان سے مدد بھی حاصل کر رہے ہیں،اس کھلے تضاد کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلم اتحاد مضبوط ہو سکے،بدقسمتی سے ایسے علمائے کرام کے پیروکاروں کی حالت بھی ایسی ہے کہ کسی کو نہ یہ توفیق ہے کہ علمائے کرام سے پوچھ سکیں کہ حضور جن آیات کی آپ تلاوت فرما رہے ہیں وہ تو اتحاد المسلمین پر زور دیتا ہے جبکہ دوسرے ہی لمحے جناب دوسرے کلمہ گوفرقے کو واجب القتل بھی قرار دیتے ہیں اور عوام کے جوشِ ایمانی کو للکارتے بھی ہیں۔
نظام مصطفی کی بات کرنے والے اور ان کے پیروکار بھول جاتے ہیں کہ کن مواقع پر ان علمائے دین نے نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا،ان کی سادہ لوحی یا ڈالروں کی برسات میں اس نعرے کا انجام کیا ہوا،اس کا براہ راست اور بالواسطہ فائدہ کس نے اٹھایا اور امت یا قوم کو اس کا کتنا نقصان ہوا؟اس کا تخمینہ لگانے والا کوئی سر پھرا نہیں اور اگر کوئی ہے بھی تو اس کی آواز نقار خانے میں طوطی سے زیادہ نہیں یا ایسی آواز کو ویسے ہی خاموش کر دیا جاتا ہے۔ آج کے مغربی نظام ِحکومت کو بغور دیکھیں تو ایک حقیقت بڑی واضح نظر آتی ہے کہ خواہ کوئی بھی نظام ِحکومت ہو ،مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں اس وقت 2سیاسی جماعت انتہائی کامیابی کے ساتھ چل ر ہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین بات یہ کہ مہذب معاشرے ایک تسلسل کے ساتھ اپنے نظام میں موجود سقم کو اجتماعی طور پر دور کرتے رہتے ہیں تا کہ دور حاضر کی ضروریات سے عہدہ برآ ہوا جا سکے۔
پاکستان جیسے ملک میں بھی90 کی دہائی میں2سیاسی جماعت کا نظام ،جو بنیادی طور پر نظریات سے وجود میں آتا ہے،وجود میں آ رہا تھا مگر بد قسمتی سے آمروں نے ایک بار پھر اس عمل کو روک دیا گو کہ 2سیاسی جماعت نظریات کی بجائے شخصیت پرستی کی بنیاد پر وجود میں آ رہے تھے لیکن یہی عمل مستقبل میں اس کو نظریات کی جانب موڑ بھی سکتا تھا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مختلف شناختوں کے حامل لوگ بستے ہیں، وہاں یہ انتہائی مشکل ہے کہ2 جماعتی نظام وجود میں آئے لیکن اس کے باوجود یہ نا ممکن قطعاً نہیں ،ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ پاکستان کے علاقائی ،لسانی و مسلکی رہنما اپنے ان محدود مفادات سے اوپر اٹھیں اور ملکی مفادات کے حوالے سے سوچیں اور قومی سطح پر قریب ترین سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملکی ترقی کے لئے کام کریں۔
آج ملکی سطح پر ایک بار پھر نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی باتیںتکرار سے ہو رہی ہیں۔سیاسی رہنما ،پس پردہ قوتیںاور ذرائع ابلاغ کے نمائندے نہ جانے کس کے کہنے پر ایک بار پھر یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام کی بجائے صدارتی نظام حکومت رائج کیا جائے اورنئے سرے سے عمرانی معاہدہ کیا جائے۔ کیا یہ اتنا آسان ہے کہ آج ایک بار پھر سے نیا عمرانی معاہدہ نہ صرف تحریر کیا جائے بلکہ اس پر تمام اکائیوں اور سیاسی جماعتوں کی مہر تصدیق ثبت کروائی جائے؟کیا پس پردہ مقتدرہ قوتیں اس صدارتی نظام کی آڑ میں پھر آمریت کا ڈول ڈالنا چاہتی ہیں کہ الا ماشاء اللہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کا کردار کسی آمر ،کسی شہنشاہ سے کم نہیں کہ آج بھی صورتحال وہی ہے کہ عالم پناہ کا ارشاد ہی قانون کا درجہ رکھتا ہے اور لاکھوں کے نمائندے ہاتھ باندھے شہنشاہ معظم کے ارشاد کو قانون تسلیم کرکے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
کیا پارلیمانی جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ عوامی نمائندے اپنی سوچ تک کو گروی رکھ کر شہنشاہ معظم کی خوشنودی حاصل کرتے رہیں؟کیا پارلیمانی جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اگر شہنشاہ معظم کرپشن میں ملوث ہیں تو بجائے اس کا ہاتھ روکنے کے،اس کا مواخذہ کرنے کے خودبھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے میں مشغول ہو جائیں؟نظام حکومت کوئی بھی ہو اصل کامیابی اس نظام پر عملدرآمد کرنے اور کروانے والوں کی ہے، اگر نظام پر عملدرآمد کرنے والے اور عمل کروانے والے مخلص نہیں تو کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا،وہ خواہ پارلیمانی ہو،صدارتی ہو یا اسلامی۔ آج پاکستان میں آئین پر عملدرآمد کی ابتدا ہوتی نظر آ رہی ہے، اگر عملاً یہ ہو گئی تو اسی نظام حکومت میں ہی عوام کی بہبودو ترقی ممکن ہے وگرنہ نظام کوئی بھی ہو،عوامی بہبود و ترقی ممکن نہیں ہو گی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں