Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہیدِ مصلائے رسولﷺ ،سیدنا عمر فاروق ؓ

ان کا دستور ِحکمرانی قلمروئے اسلامی کیلئے ماضی میں بھی کامیاب تھا ،آج بھی قابل فخر ہے، ریاست کی حدود 22لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئیں
* * * * مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ۔پاکستان* * * *
خلیفہ راشد ،شہیدِ محراب ومنبر حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی ’’عمر‘‘والد کانام خطاب، قبیلہ قریش بنی عدی ،والدہ کانام ختمہ بنت ہشام ، ان کا تعلق قریش کے قبیلہ مخزوم سے تھا۔حضرت سیدنا عمر ابن خطاب رضی آ عنہ کی کنیت ابوالحفص (ابوالاسد) اور لقب ’’فاروق‘‘تھا۔وہ تاریخ اسلام کی اتنی ولولہ انگیز اور ہمہ جہت شخصیت تھے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت ،اوصاف ، کردار ،بلند حوصلے ،خداداد شجاعت ،غیر معمولی فراست اور کارناموں کو اختصار سے بیان کرنا ممکن نہیں۔
روایات ِثقہ اس معروضی حقیقت کی تائید کرتی ہیں کہ امام عادل مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد سیدنا فاروق اعظمؓ کو رب ذوالجلال نے یہ بارعب وجاہت ،تواناحوصلہ ،بے مثال معاملہ فہمی ، بلند آہنگی ، مضبوط قوت بازو اورظرف نگاہی دین حق کی فصیلیں مستحکم کرنے کیلئے خصوصی طور پر عطا کی تھیں۔ اگر بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے تو ان سوالوں کے جواب ہمیں یکے بعد دیگرے بعثت نبویکے بعد شروع ہونے والے عہد رسالتسے جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام تک ،پھر مکہ کے قریش مخالفین مشرکین کے سامنے خطاب کے لخت جگر فاروق اعظمؓ کے شمشیر بکف ہونے اور مدینے میں اسلام کی فلاحی ریاست معرض وجود میں لانے کے مسائل میں بھر پور کرداراداکرنے سے مل جاتا ہے۔ اگرچہ یہ سرکار دوعالمکے حسن انتخاب کا کمال ہے اور مشیت ایزدی کہ دور اندیشی اور معنی خیز حکمت عملی کا انعام بھی کہ خلیفہ راشد فاروق اعظمؓ فخر کونین صاحب قاب قوسین نبی کریم کی آرزوئے صادق قرار پائے۔تبریک وتحسین واجب ہے عالم انسانیت پر کہ عرش اور فرش کہاں تک علوم مرتبہ ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی پسندیدگی اور مدحت کے پرچم نہیں لہرائے۔انعامات الٰہی اور دربارِ رسالت سے اعزازات گویا ان کے منتظر رہتے تھے ،چنانچہ عشرہ مبشرہ میں ہم ان کا اسم گرامی موجود پاتے ہیں۔گویا اُن ناقابل رشک رفیع الشان10 صحابہ کرامؓ میں وہ بھی شامل ہیں جن کو مولائے کائنات رب ذوالجلال کی رضا پاکر احمد مختار محمد مصطفینے جنت کی بشارت عطا فرمادی تھی۔
عمر بن الخطابؓ ننھیال ،ددھیال دونوں طرف کے شجرہ ہائے نسب میں حضور نبی کریم کے اپنے قرابت دار ہیں اور جب شمشیر بکف فاروق اعظم ؓ اپنی ہمشیرہ اور بہنوئی کے گھر قرآن کریم کی تلاوت سنتے ہیں تومشرکین مکہ کے کذب افتراء کا طوفان اپنا رْخ موڑ لیتا ہے اور تیز قدم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں باریاب ہونے کیلئے دارِ ارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں اوررضائے الٰہی کے مطابق ہر اعتبار سے دین ِحق کا مضبوط قلعہ بن جاتے ہیں اور اسلام کا بازوئے شمشیر زن کہلاتے ہیں حتیٰ کہ خانہ کعبہ میں کفار اورمشرکین کی نظروں کے سامنے مسلمان برملا اور بے خطر نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں ،کسی میں جسار ت نہیں ہوتی کہ جو فرزندان توحید کل تک گھروں میں وادیوں میں چھپ کراللہ وحدہ لاشریک لہ کے حضور رکوع وسجود کرتے تھے انہیں بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے روکا جاسکے یا کوئی مشرک سردار اور غلام تعرض کرے۔ جناب نافع رضی آ عنہ نے ابن عمرؓ سے روایت حاصل کی اور ابن عمرؓ حضورانورکے حوالے سے بیان کرتے ہیں : ’’پیغمبر اسلام نے حضرت عمرکیلئے دعا مانگی تھی:یا اللہ ! ابن ہشام اور عمر بن الخطاب دونوں میں جسے تو زیادہ عزیز رکھتا ہو اس کے ذریعے اسلام کی دستگیری فرما۔‘‘ حالات کا رْخ ایسی جہت پر تھا کہ قریشِ مکہ جمع ہوکر ظہور اسلام کے نتیجے میں پھیلنے والی توحید ورسالت کی روشنی کو عرب معاشرے میں روکنے کیلئے خیالی منصوبے بنا رہے تھے حتیٰ کہ شدت غضب اور جذبۂ عناد سے مغلوب ہوکر حضور نبی مکرمکے قتل کے ناپاک ارادے تک بات پہنچ گئی تھی۔ اْدھر اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر قرآن کریم کی مکی سورت طٰہٰ کی آیات مبارک کی تلاوت سن کر حضرت عمر فاروقؓ کیلئے رسول کریم کی دشمنی کی دھوپ اللہ کی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بدل گئی۔یہ سحر خیز معجزہ نما کلام پہلے کبھی نہ سنا تھا۔
محمد بن سعد نے داؤد بن الحصین اورامام زہری دونوں سے یہ روایت منسوب کی ہے کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو شوکت اسلام میں اضافہ کا غلغلہ عرش تک بلند ہوا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ مژدہ لے کر آئے : ’’اے محمد صلی اللہ آسمانوں کے مکینوں کو عمرؓ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کا بڑاشدید انتظار تھا۔ ‘‘ یہاںاللہ رب العزت کے کلام ِمقدس کی آفاقی صداقت ،تاثیر معانی ، لامحدود حکمت آفرینی اور معجز نما دل میں اتر جانے والی وقیع موعظت کا اندازہ بھی بخوبی ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اللہ مالک ومختار نے اپنے محبوب پیغمبر ختمی مرتبت رسول صادق کی آرزو کس کمالِ حسن انتخاب سے پوری فرمادی یعنی سیدنا عمرؒ کودین حق اسلام مل گیا اور اسلام کو جری اور جانثار ِرسول عمر سراپا اوصاف و کمالات اسلام دشمنوں کے بچھائے ہوئے کانٹوں کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوا آملا۔ مستدرک حاکم جلد ۳ ،فضائل عمر رضی اللہ عنہ میں مذکور ہے : ’’ان خدماتِ اسلام کے باعث بارگاہ نبوی میں جوقرب حضرت عمر ؓ کو حاصل تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ کسی صحابی کو نہ تھا۔ ‘‘ آقائے دوجہاں نبی رحمت کا ارشاد گرامی ہے : ’’اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ؓ ہوتے‘‘(مستدرک حاکم )۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کی ولادت مکہ مکرمہ میں حرب فجار اعظم سے 4 سال پہلے قبیلہ عدی کے سپہ سالار کی دختر ختمہ کے بطن سے ہوئی۔ جناب عبد اللہ ابن وہب نے مالک کی یہ روایت بیان کی : ’’ایک رات عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو خطاب کے مکان میں روشنیاں سی نظر آئیں، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ خطاب بن نفیل کے گھر لڑکا پید اہوا ہے۔ ‘‘ یہی لڑکا عمر بن خطابؓ تھا۔یہ ہجرت نبوی سے 40سال قبل کا دورانیہ تھا (حیاتِ فاروق اعظم ابن جوزی )۔
اپنے والد کی طرف سے حضرت عمر ؓکا شجرہ یوں چلتا ہے :خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبدآ بن ورط بن رزاح بن عدی بن کعب۔ والدہ کی جانب سے ہاشم بن المغیرہ بن عبدآ بن عمر بن مخدوم بن نفیل۔ جناب عمر ؓ کوئی 26یا 27برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔حضرت عمر ؓ نہایت گورے ،بہت بلند قامت اور لحیم شحیم نظر آنے والے شخص تھے۔بائیں ہاتھ سے بھی دائیں ہاتھ کی طرح کام لے سکتے تھے ، دوڑتے ہوئے گھوڑے پراچک کر بیٹھ جاتے تھے۔ابوجاؤ العطاردی کہتے ہیں حضرت عمر ؓدراز قامت جسیم ،کم مو ، سفید فام ،آنکھوں میں بے حد سرک ڈورے پڑے ہوئے ،مونڈھوں میں آگے کی جانب خفیف سا جھکاؤ ، بازؤں پر بالوں کی کثرت جو نقاط کے ساتھ سرخی مائل تھی۔سراپا پُر وقار ، رویہ متین ، غیر ضروری ہنسنے ہنسانے سے گریز فرماتے تھے۔ جناب عمر بن خطاب ؓ جسمانی طور پر طاقتور اور تنو مند تھے اسلئے زور آور بھی خوب ہوگئے لیکن ہجوم کے درمیان کھڑے ہوتے یا گفتگو کرتے جاتے تو صاف نظرا ٓجاتے کہ وہ خطاب کے فرزند عمر آرہے ہیں۔
آواز بھی گرجدار ،لہجہ بھی پاٹ دار ، کبھی غصہ کا ماحول بن جائے توان کی شخصیت گویا اور شعلہ فشاں بن جاتے۔انہیں پڑھنا لکھنا ان کے والد بزرگوار جناب خطاب ؓ نے بچپن میں ہی سکھادیا تھا۔ لڑکپن میں شہ سواری اورپہلوانی کا شوق از خود ہوگیا۔ عکاظ کے میلے کے دنگل میں کشتی بھی لڑا کرتے تھے ۔ زرقانی میں مذکور ہے کہ جب سرور عالم صلی نے مکہ کے مسلمانوں کو ہجرت مدینہ کی اجازت دے دی تو ابوحفص عمر رضی ؓ نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔نماز ادا کی ،پھر مشرکین مکہ کو مخاطب کرکے اپنے سفر ہجرت کا برملا اعلان کیا۔ ابن اسحاق سیدنا براء بن عازب ؓ کے ذریعے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جناب مصعب بن عمیر ؓ اور مکتوم ؓ سب سے پہلے مدینہ پہنچے۔ان کے بعد حضرت بلال بن رباح ؓ ، حضرت سعد اور عماربن یاسر ؓ شہر میں داخل ہوئے۔پھر 20مہاجرین کا ایک چھوٹا سا قافلہ حضرت عمر فاروق ؓ کی رہنمائی میں مدینہ پہنچ گیا۔ اپنے آقا احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کی قیادت میں سیدنا عمر فاروق ؓ نے متعدد غزوات میں حصہ لیا۔عہدرسالت میں ہی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے دورِ خلافت میں وہ ان کے دست راست اور مدینے کے قاضی بھی رہے۔مسلمانوں کی اچھی اخلاقی تربیت کے باعث کئی کئی ماہ کوئی مقدمہ عدالت میں نہ آتا تھا۔
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی طبعی وفات کے بعد بار خلافت سیدنا عمر فاروق ؓنے 24 جمادی الثانی سن 13ھ کو سنبھالا۔ ان کا دستور ِحکمرانی پوری قلم روئے اسلامی کیلئے ماضی میں بھی کامیاب تھا ،آج بھی قابل ہے۔عہد فاروقی میں اسلامی ریاست کی حدود 22لاکھ مربع میل تک فتوحات کے باعث وسیع ہوگئیں۔خلیفۂ عادل ساڑھے10 سال منصب ِ خلافت پر رہے۔23ہجری کے ایام ِآخر میں مسجد نبوی شریف میں نماز کی امامت کرتے ہوئے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔سیدنا فاروق اعظم ؓ نے یکم محرم الحرام 24ہجری کو جام شہادت نوش کیا۔حضرت صہیب رومی ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔رحمت اللعالمین کے پہلو میں دفن کئے گئے۔

شیئر: