Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا سی پیک رکے بغیر گزر جائے گا ؟

آسمان سے تارے توڑنے کا دعوی دل خوش کن ضرور لیکن یہ سب ہوگا کیسے ؟
 
* * * * تحریر۔وسعت اللہ خان * * * *
گزشتہ ہفتے شمالی علاقہ جات جانا ہوا۔وہاں جو گفتگو سنی اس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ گوادر تا کاشغر لگ بھگ تین ہزار کلومیٹر چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور ( سی پیک ) کا بیس فیصد یعنی سوا چھ سو کلومیٹر سڑک گلگت بلتستان سے گذرے گی۔مگر کیا یہ یہاں رکے گی بھی ؟ جو پارلیمانی کمیٹی پاک چائنا اکنامک کاریڈور منصوبے پر منصفانہ اور شفاف عمل درآمد کی نگرانی کر رہی ہے اس میں گلگت بلتستان کی کوئی نمائندگی نہیں کیونکہ اس علاقے کی پاکستانی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں۔اور جو علاقائی اسمبلی گلگت بلتستان کی نمائندہ کہی جا سکتی ہے اس کے پاس اتنے بھی اختیارات نہیں جتنے کسی عام سی بلدیاتی کونسل کے ہوتے ہیں۔ اس منتخب علاقائی اسمبلی کے اوپر ایک نامزد گلگت بلتستان کونسل بیٹھی ہے جس کا سربراہ پاکستانی وزیرِ اعظم ہے۔پاکستان کے وزیرِ امورِ کشمیر ، وفاق کے نامزد گلگت بلتستان ریجن کے گورنر بھی اس کمیٹی کے بربنائے عہدہ رکن ہیں۔جو اختیارات منتخب اسمبلی کے پاس ہونے چاہئیں وہ سب اہم اختیارات وفاق کی نامزد اس کونسل کے پاس ہیں۔
چنانچہ جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ وفاق کے نمائندہ پانچ ووٹوں کی اکثریت سے ہوتا ہے جبکہ کونسل میں گلگت بلتستان کے منتخب نمائندے یعنی وزیرِ اعلی کا صرف ایک ووٹ ہے۔ ان حالات میں گلگت بلتستان اسمبلی کی گنجی کیا نہائے کیا نچوڑے ؟ اس پس منظر میں یاد کرنے کی بات یہ ہے کہ جب 1963ئمیں موجودہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کی پیشرو شاہراہِ ریشم کی تعمیر کے خواب کو عملی تعبیر کی شکل دی جانے لگی تو سب ہی خوش تھے۔چین اس لئے کہ اسے مغرب کی جانب ایک دروازہ مل رہا تھا۔پاکستان اس لئے کہ اسے سڑک کے راستے چینی دوستی کے فوائد نظر آ رہے تھے اور ہنزہ ، گلگت اور بلتستان والے یوں خوش تھے کہ شاہراہِ قراقرم انہیں بلند و بالا پہاڑوں سے گھری جغرافیائی جیل سے نجات دلا سکتی تھی۔وہ دو دو ہفتے کے پا پیادہ و دشوار گذار سفر کو ہمیشہ کے لئے خیرآباد کہہ کر صرف چوبیس گھنٹے میں اسلام آباد اور دو دن میں کراچی پہنچ سکتے تھے۔ جب1979ء میں شاہراہِ ریشم باقاعدہ ٹریفک کے لئے کھولی گئی تو واقعی انقلاب آگیا۔علم کی پیاسی نئی پود کراچی تک پہنچ گئی۔کراچی یونیورسٹی گلگتی بلتستانی نوجوانوں کا گڑھ بن گئی۔پنجاب اور خیبر پختون خوا سے اشیائے خوردونوش کی آسان ترسیل نے محرومی اور بھک مری کے منحوس چکر کو توڑا۔لوگ باہر نکلے تو ان پر سیاسی و سماجی شعور کے نت نئے دروازے بھی کھلتے چلے گئے۔ پر ظلم یہ ہوا کہ شعور تو بڑھ گیا لیکن جاری سرکاری نظام شعور کی ہم قدمی نہ کر پایا۔جس طرح گلگت بلتستان1948ء ریاست کشمیر کا دم چھلہ تھا وہی صورت بعد میں بھی رہی۔69 برس پہلے ڈوگرہ راج سے اپنے زورِ بازو پر آزاد ہو کر پاکستان میں اپنی مرضی سے شمولیت کرنے والے اس خطے کی خواہشِ اختیار آج بھی پنڈولم بنی اسی کے سر پر لٹک رہی ہے۔
جب نذیر صابر دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرتا ہے تو فخرِ پاکستان کہلاتا ہے لیکن جب اسی نذیر صابر کے ہم وطن گلگتی و بلتستانی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی وہی حقوق دو جو پاکستان کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔بھلے غیر رسمی طور پر ہی دے دو۔ تو ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ آپ پاکستان کا باقاعدہ حصہ نہیں بلکہ تنازع کشمیر کا حصہ ہیں۔ جب دادا مریں گے تب بیل بٹیں گے۔فی الحال تو آپ محدود بلدیاتی نظام جیسی خودمختاری کا لالی پاپ چوستے رہیں۔ اگر تو گلگت بلتستان میں خواندگی کا تناسب اتنا زیادہ نہ ہوتا تو اس طرح کے انتظامی لالی پاپس سے جنتا کو بہلانا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ روٹی کا شعور تو مل گیا پر روٹی کہاں ہے ؟ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے تعلق سے گلگت بلتستان ریجن کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچے گا اس بابت کسی ٹھوس فیزیبلٹی کی نقاب کشائی کے بجائے محض باتوں کی ٹافیاں بانٹنے کے سبب مقامی باشندوں میں بے یقینی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ رہی ہے۔مثلاً یہی ٹافی کہ پاک چائنا کاریڈور سے علاقے کی ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، یہاں بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔
شاہراہ کے آس پاس گوادر تا سست بارہ اکنامک زونز میں سے دو گلگت بلتستان میں بنیں گے۔ان میں خوب سرمایہ کاری ہوگی ، صنعت کاری ہوگی ، علاقے میں چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے گا۔سیاحت کو فروغ دیا جائے گا ، یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا مگر کیسے ؟ مقامی باشندے کہتے ہیں کہ جب اکنامک کاریڈور کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا تب سے یہ وعدے سنتے سنتے کان پک چکے ہیں۔آسمان سے تارے توڑنے کا دعوی دل خوش کن ضرور لیکن یہ سب ہوگا کیسے ؟ تارے توڑ کے لانے والا اپنے پاس کتنے رکھے گا اور بانٹے گا کتنے ؟ آخر بدگمانی کیوں نہ ہو ؟ جب مشرف دور میں شاہراہ قراقرم کی توسیع کا کام شروع ہوا تو وعدہ کیا گیا کہ شاہراہ سے متصل ہر پہاڑی ضلع میں ڈرائی فروٹس محفوظ کرنے کے گودام بنائے جائیں گے۔شاہراہ ریشم تو چوڑی ہوگئی مگر وعدہ اپنی جگہ ٹس سے مس نہ ہوا۔تو کیا یہ بے شناخت خطہ اس بار بھی غوغا مچا کے خاموش ہوجائے گا اور حسرت سے نئی شاہراہ پر دیوہیکل ٹرالروں کی پہلے سے لمبی قطاروں کو دھواں چھوڑتے دیکھتا رہے گا ؟ ہاں یہ گیم چینجر منصوبہ ہے۔مگر گلگت بلتستان والے کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پرانی گیم نئی چینج کے ساتھ۔۔۔ ہو سکتا ہے اہلِ گلگت بلتستان کے یہ تمام خدشات غلط ہوں۔مگر گرم گرم دودھ کے جلوں کو کون بتائے کہ اس بار واقعی ان کے لئے ٹھنڈی چھاچھ راستے میں ہے۔۔۔اور کچھ نہیں تو ٹکنیکل ٹریننگ سنٹرز ہی قائم کر دیجئے یا یہی بتا دیجئے کہ اس عظیم الشان منصوبے میں روزگاری کھپت کے لئے کس کس مہارت کی ضرورت ہے۔تاکہ یہاں کے نوجوان کم ازکم اپنی مدد آپ کے تحت ہی آنے والے وقت کے لئے اہلیت بڑھا سکیں۔

شیئر: