Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشتے خون کے یا دل کے،کیا سب دھوکہ ہے.....

ذمہ داری، ضرورت اور مصلحت کی بے شمار زنجیریں انسان کو جکڑ لیتی ہیں اور چاہ کر بھی ان کی قید سے آزاد نہیں ہوا جا سکتا
* * * دانیال احمد۔ دوحہ، قطر* * * *
اس کی سانسیں اب اکھڑنے لگی تھیں۔ وینٹیلیٹر جیسے اس کی آخری ساعتیں گن رہا تھا۔ دھڑکن کی کم ہوتی ہو ئی رفتار اسکرین پر نمودار ہونے والی لہروں کی صورت میں چراغ زندگی کے گل ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔ اس کے ذہن میں بس ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ ' کیا کھویا اور کیا پایا'۔ آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی اور دل میں بلا کا اضطراب تھا۔ ایئرپورٹ کے ارائیول کے باہر بہت بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کوئی اپنے پیاروں کا گرم جوشی سے استقبال کر رہا تھا تو کوئی محو انتظار تھا۔
کلیم بتائے گئے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ایئرپورٹ پہنچ چکا تھا اور ہر آنے والے شخص کو اس امید پر غور سے دیکھتا کہ کہیں یہی تو نہیں جس کا اسے انتظار ہے۔ وہ بے چینی سے ادھر ادھر چہل قدمی کرتے کرتے اس ہجوم پر نظریں دوڑا رہا تھا کہ اچانک اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ دوڑ کر آگے کی طرف بڑھا۔ " میری پیاری بہن،،،" کلیم کی زبان سے بے اختیار نکلا۔ " بھا ئی جان،،،، کیسے ہیں آپ؟ میں بتا نہیں سکتی مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے آپ کو دیکھ کر۔" وہ خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی۔ " اتنا ہی پیار ہوتا بھائی سے تو 7 سال بعد ملنے آتیں کیا؟" کلیم نے محبت بھرے لہجے میں شکوہ کیا۔ " بس بھائی جان،،، کیا بتائوں آپ کو پردیس جا کر انسان کتنا مجبور ہو جاتا ہے۔ ذمہ داری، ضرورت اور مصلحت کی بے شمار زنجیریں انسان کو جکڑ لیتی ہیں اور چاہ کر بھی ان کی قید سے آزاد نہیں ہوا جا سکتا۔" اس نے سنجیدہ سے لہجے میں یہ سب کہہ دیا۔
" ارے واہ آمنہ! تم اتنی عقلمندکب سے ہو گئیں کہ اتنی بڑی بڑی باتیں کرنی آ گئیں تمہیں؟" کلیم نے بات کو مذاق میں ٹالتے ہوئے کہا۔ آمنہ بھی ہنس پڑی، " لیکن آپ نہیں بدلے بھائی۔ " مہوش جو کہ ابھی تک خاموش کھڑی سب کچھ سن رہی تھی اب کہنے لگی، " ہیلو!!! ماموں جان میری امی اکیلی نہیں آئی ہیں میں بھی آئی ہوں ان کے ساتھ۔" کلیم نے شفقت سے مہوش کے سر پہ ہاتھ رکھا، " ارے میرا بچہ! تمہیں بھلا کیسے بھول سکتے ہیں ہم۔ ماشاء اللہ کتنی بڑی ہو گئی ہے میری بیٹی۔" کلیم نے ان دونوں کا سامان گاڑی میں رکھوایا اور انہیں گھر لے آیا۔ آمنہ کے میاں لندن میں کاروبار کرتے تھے۔
شادی کے بعد وہ آمنہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لندن جانے کے بعد 22 سالوں میں آمنہ صرف 3 مرتبہ پاکستان آئی تھیں۔ والدین کے انتقال کے بعد اپنے ملک میں آمنہ کا واحد ٹھکانا اس کے بڑے بھائی کلیم کا گھر تھا۔ وہ بڑی محبت اور ارمانوں سے یہاں آئی تھی۔ شروع کے کچھ دن تو آمنہ اور مہوش کی خوب خدمتیں ہوئیں۔ بھائی، بھابی اور بھتیجا مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ حالات بھی بدلتے گئے۔ ٍ " کلیم ا یہ آمنہ کا کب تک پاکستان میں رکنے کا ارادہ ہے؟" اس نے کچھ پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ کلیم نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا، " مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ اس نے اپنی واپسی کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا مجھ سے،،، لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟" وہ کچھ گھبرائی، " نہیں،،، بس یوں ہی،،، مجھے بھلا کیا مسئلہ ہوگا آمنہ سے۔
لوگ اگر باتیں بناتے ہیں تو شوق سے بنائیں، ہمیں کیا،،،" کلیم اس کی باتوں سے چڑنے لگا، " کیا مطلب ہے تمہارا صبا ،،، کھل کر کہو آخر کہنا کیا چاہتی ہو تم" صبا اسی انداز میں بولی، " کلیم،،، وہ دراصل،،، آمنہ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ دن یہاں رکی ہے اور مہوش کو بھی ساتھ لائی ہے تو خاندان والے طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔" کلیم دو ٹوک انداز میں کہنے لگا، " دیکھو صبا ! آمنہ میری بہن ہے اور میرے گھر میں رکی ہے۔ مہوش بھی بیٹی ہے میری، اگر خاندان والوں کو ان کے میرے یہاں رکنے سے کوئی مسئلہ ہے تو ہوا کرے مجھے کوئی پروا نہیں اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہیئے۔" صبا نے بات بدل دی، " ہاں،،، ٹھیک ہے آپ کی بات بھی۔ چلیں آپ اب آرام کریں۔" وہ کمرے کی لائٹ آف کر کے چلی گئی۔
مہوش لا ئونج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ شہزاد اس کے ساتھ آ کر صوفے پہ بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ " مہوش تم جب سے آئی ہو کہیں گھومنے پھرنے نہیں گئیں نا،،، چلو آج ہم آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔" شہزاد نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
مہوش خوشی سے بولی، " ہاں ضرور کیوں نہیں، لیکن ماموں ممانی سے اجازت ضرور لے لینا۔" شہزاد کہنے لگا، " وہ کونسا منع کر دیں گے۔ ہم بس جا رہے ہیں تم تیار رہنا۔" اتنے میں صبا کمرے میں داخل ہوئی، " نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں بھی جانے کی۔ شہر کے حالات بھی کچھ ٹھیک نہیں اور یہ مہوش ویسے بھی یہاں کے ماحول اور لوگوں سے واقف نہیں ہے۔ ایسے میں ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے۔ گھر بیٹھو تم دونوں۔" صبا نے بڑی بیزاری سے کہا۔ مہوش کو ممانی کی باتیں اورلہجہ بہت ناگوار گزرا اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ شہزاد بھی ناگواری کا اظہار کرنے لگا، " امی کیا کرتی ہیں آپ بھی،،، بیکار میں اس بیچاری کو ناراض کر دیا۔" ۔۔۔(باقی آئندہ)
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(نوٹ:محترم قارئین :اس ہفتے سے ہم نے نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’میرابچپن‘‘۔ہر انسان کا بچپن سہانا ہوتا ہے کچھ تلخ یادیں بھی ہوسکتی ہیں مگر بچپن کی معصومیت ان پر حاوی ہوجاتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج کے بچے اور نوجوان آپ کے بچپن کی شرارتیں،تہذیب اور عزت سے اپنے لئے کچھ سیکھ سکیں لہٰذا آپ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجائیں اور ہمیں اپنے بچپن کے واقعات لکھ بھیجیں ۔زبان اور الفاظ کی بے ترتیبی ہم خود ہی سنوار لینگے۔تصاویر بھی ہوں تو زیادہ اچھا ہوگا۔----ہم سے رابطہ کریں----- [email protected]یا 00923212699629)

شیئر: