Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی کی مدد کرکے ہی حقیقی سکون ملتا ہے، اصغر قریشی

بھٹوازم سوچ کا نام ہے، نظریات کبھی ختم نہیں ہوتے،بھٹو وژن کوچلنے دیا ہوتا تو ملک کب کا ایشین ٹائیگر بن گیا ہوتا
 
ریاض میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور ورکرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔،محمد اصغر قریشی کا نام پیپلزپارٹی کے اُن رہنماؤں میں ہوتا ہے جو عرصہ دراز سے پارٹی کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ ایک کامیاب بزنس میں بھی ہیں۔اردو نیوز کے نمائندہ خصوصی ذکاء اللہ محسن نے ان کی زندگی کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر انٹرویو کیا ہے:

 

*  قریشی صاحب، کیا بھٹو ازم ابھی زندہ ہے؟
۔  اگر پاکستانی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات تمام تر شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں عملی سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔پیپلزپارٹی کے قیام سے قبل مسلم لیگ اور ایک آدھ اور پارٹی ہوا کرتی تھی جو کہ زیادہ فعال نہ تھیں۔ رہی مسلم لیگ کی بات تو وہ ایک مخصوص طبقے کی پارٹی تھی جس پر نوابوں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری تھی۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی بنائی جو ایک نظریاتی پارٹی تھی جس نے مزدور کی بات کی، کسان کی بات کی اور ایک عام آدمی سیاسی عمل میں شامل ہوا۔ پیپلز پارٹی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گلی اور محلوں تک لانا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں ایسا جادو تھا کہ لوگ بہت جلد انکی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ بھٹو نے لوگوں کو زبان دی، دیکھتے ہی دیکھتے ایک مزدور سرمایہ دار سے اپنا حق مانگنے لگا۔ بھٹو شاعروں اور ادیبوں کا بھی رہنما بنے اور یوں بڑے بڑے دانشور بھٹو ازم کا شکار ہوگئے۔بھٹوازم ایک سوچ کا نام ہے جس کو ہر کارکن اور ہر جیالے نے اپنایا۔ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا تو اس کے ساتھ نظریات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کو ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے اپنایا اور بھٹو ازم کو آگے بڑھایا۔ یہ کسی صورت نہیں کہا جا سکتا کہ بھٹو ازم اب نہیں رہا۔ بھٹو کا جو وژن تھا، اگر اس کو چلنے دیا ہوتا تو ملک کب کا ایشین ٹائیگر بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہوتا۔ پارٹی کے عقیدت مند آج بھی بھٹوازم میںمبتلا ہیں۔ انہیں آج بھی بھٹو خاندان کی قربانیاں یاد ہیں۔ ان میں آج بھی وہی جذبہ موجود ہے جو ایم آر ڈی کی تحریک میں موجود تھا۔

 

*  قریشی صاحب! 2018 الیکشن کا سال ہے۔کیا دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی دوبارہ برسراقتدار آ سکے گی ؟
  ۔  جہاں تک 2013 کے الیکشن کی بات ہے تو ہمیں واپس 2008 میں جانا ہوگا جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی۔اس سے قبل ایک فوجی ڈکٹیٹر 9 سال گزار چکا تھا۔ ہر طرف سے ملکی حالات بدتر ہو چکے تھے۔ دہشتگردی کا دور تھا۔ ملکی اقتصادی حالت انتہائی بدتر تھی۔ مشرف نے اپنے 9 سالہ دور حکومت میں ایک یونٹ بجلی کا اضافہ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی جب آئی تو اس کے سامنے یہ تمام بڑے چیلنجز تھے۔ آئے روز بم دھماکوں نے بیرونی سرمایہ کاری کو روکے رکھا، لوڈشیدنگ پر قابو پانا آسان نہ تھا پھر بھی پیپلزپارٹی نے مسائل پر قابو پانے کی ہمت کی۔آصف علی زرداری نے این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبائی خود مختاری دی، کشمیر کاز کو اجاگر کیا، پاک چین تعلقات کو مستحکم کیا جس کی بدولت آج سی پیک جیسے منصوبے بن رہے ہیں۔رہا 2018 کا الیکشن تو جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں سندھ میں دوبارہ پیپلزپارٹی حکومت قائم کرے گی کیونکہ وزیراعلیٰ سندھ بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں جس سے عوامی مسائل حل ہو رہے ہیں۔ صوبائی ادارے مضبوط ہو رہے ہیں اور اندورن سندھ عوامی فلاح و بہبود کے کام ہو رہے ہیں۔ اسکے علاوہ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کے بہت زیادہ جیتنے کے چانس ہیں۔اندرون پنجاب بھی بہت سی سیٹیں پیپلزپارٹی کے امیدوار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس مرتبہ وفاق میں کوئی ایک اکثریتی پارٹی نہیں بلکہ دو3 پارٹیاں ملکر حکومت بنائیں گی۔
 
*  سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کو نااہل قرار دے دیاہے، آپ اس فیصلے پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
۔  میری رائے بھی اُن افراد جیسی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب نے جلاوطنی کاٹنے کے باوجود سیاست نہیں سیکھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تیسری بار موقع دیا مگر انہوں نے وہی موروثی سیاست کو فروغ دیا اور اپنا پورا خاندان ملک کے اہم عہدوں پر فائز کر دیا۔ میاں نواز شریف جب بھی برسراقتدار آئے انہوں نے عوامی خدمت کم اور قانونی راستوں کو اختیار کرتے ہوئے کرپشن زیادہ کی اور ملک کو معاشی لحاظ سے نقصان پہنچایا۔ میاں صاحب کو سوچنا چاہئے تھا کہ آج کے دور میں ایسی طرز حکمرانی نہیں چلا کرتی۔میں سمجھتا ہوں سپریم کورٹ نے ایک اچھا فیصلہ دیا ہے۔ احتساب ہونا چاہئے اور اس عمل کو روکنا نہیں چاہئے۔

 

*  کیا پاکستان میں کبھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہو سکتا ہے؟
۔  بالکل نہیں کیونکہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہو چکی ہے۔اس کا رول کبھی پیپلزپارٹی نے تو نہیں مانا جس کی وجہ سے بہت مرتبہ اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑامگر میں سمجھتا ہوں پہلے یہی اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو غلط راستے پر چلنے پر مجبور کرتی ہے، کرپشن کا راستہ ہماری بیوروکریسی دکھاتی ہے اورسیاست دان اس میں پھنس جاتا ہے۔ پاکستان میں سبھی سیاست دان کرپٹ نہیں بلکہ آج بھی بہت سے لوگ ہیں جو عوامی خدمت کو ہی اپنا شعار سمجھتے ہیں۔ اگر سیاست دان کرپشن نہ کریں تو اسٹیبلشمنٹ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
 
*  عمران خان پاکستانی سیاست میں ابھر کر سامنے آئے ہیں، کیا وہ وزیراعظم بن پائیں گے؟
۔  پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ ایک صوبے میں ان کی حکومت بھی ہے مگر جس طرح نیا پاکستان بنانے کا ان کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا، وہ ابھی ممکن نہیں ہو پایا۔خیبر پختونخوا میں ایسے کون سے میگا پروجیکٹ ہیں جو عوام کیلئے ہیں۔وہی خیبر پختونخوا ہے ،اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔2013 میں ان کو جو چانس ملا تھا، ان کو چاہئے تھا کہ جہاں انکی حکومت تھی وہاں وہ اچھی پرفارمنس دیتے مگر وہ شارٹ کٹ سے مرکز میں آنا چاہتے ہیں۔ مرکز میں حکومت بنانا آسان کام نہیں۔عمران خان بہت مقبول ہو چکے ہوں گے مگر وفاقی حکومت بنانے کے لئے ڈور کسی اور جگہ سے ہلائی جاتی ہے۔

 

*  آپ اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے ممبر بھی رہے ہیں، اس میں آپ نے کیا دیکھا؟ بہت فعال پلیٹ فارم ہے یا خانہ پوری کی گئی ہے؟
۔ اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن( او پی ایف) ایک اچھا پلیٹ فارم ہے۔ اگر وہ اچھے انداز سے کام کرے تو او پی ایف 1979 میں جب وجود میں آیا تو اس کے اغراض و مقاصد بہت شاندار تھے، لگتا تھا او پی ایف میں امریکہ ،یورپ اور دیگر ممالک کے ممبرز ہیں مگر مڈل ایسٹ سے ممبر نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی کے دورے حکومت میں مجھے نامزد کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اوورسیرز پاکستانیوں کیلئے یہ بورڈ انتہائی مفید ہے تو میں نے دلچسپی لینا شروع کی،اس کے اجلاسوں میں بھرپور شرکت کی۔ اس دوران میں نے الحمدللہ کبھی بھی کوئی مراعات حاصل نہیں کی۔میں کوئی 7سال او پی ایف کا ممبر رہا ۔جب میں نے محسوس کیا کہ یہ اب سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور اس سے سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل بہتر انداز میں حل نہیں ہو رہے تو میں نے مستعفی ہونا بہتر سمجھا۔ اب سنا ہے اس میں اوورسیز پنجاب ایڈوائزری کونسل کا نیا اضافہ کیا گیا ہے۔اس سے کم از کم یہ فائدہ ہوگا کہ بیرون ممالک میں مقیم ورکرز کے مسائل حل نہ بھی ہوئے تو ان کی نشاندہی بہتر انداز میں ہو جائے گی۔

 

*  آپ انویسٹر فورم کے صدر بھی ہیں، اس کو بنانے کے پیچھے کیا مقصد تھا؟
۔  سعودی فرمانروا شاہ فہد کے دور میں اُس وقت کے کرائون پرنس شاہ عبداللہ نے غیر ملکیوں کو سرمایہ کاری کرنے کیلئے کمپنی بنانے کی اجازت دی جس پر بہت سے لوگوں نے مجھ سمیت سعودی گورنمنٹ کی اجازت سے لائسنس حاصل کئے۔ میری کمپنی ’’قریشی ٹیلی کام‘‘ کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی۔ اس دوران ہم بہت سے لائسنس ہولڈر دوستوں نے یہ انویسٹر فورم بنایا تاکہ ہم ملکر بزنس میں درپیش آنے والے مسائل کا حل نکال سکیں۔ اس سے ہمیں بڑی کامیابی ملی۔ اس میں ایک دوسرے کے تجربات کو دیکھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملا۔

 

*  آپ کا ایک سماجی کردار بھی ہے، اس کے متعلق کچھ بتائیں؟
۔  میرے پاس آج جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے، اس نے مجھے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے۔میں نے آزاد کشمیر میں اپنے آبائی علاقے کوٹلی میں اپنی والدہ کے نام پر’’ جنت میموریل ‘‘کے نام سے ایک ٹرسٹ بنایا ہے جو غریب اور نادار بچیوں کی شادیاں کروانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر مستحق افراد کے لئے بھی کام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے افراد ہیں جن کو اللہ کریم نے بے پناہ دولت سے نوازا ہے۔ اگر سب لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور ضرورت مندوں کے کام آئیں تو اس سے معاشرے میں کافی فرق پڑے گا۔ کروڑوں روپے کماکربھی وہ سکون نہیں ملتا جو کسی کی مدد کرکے ملتا ہے۔

 

*  آپ سعودی عرب کب آئے اور یہاں کی سعودی کمیونٹی اور پاکستانی کمیونٹی کو کیسا پایا۔
۔ میں الحمدللہ1984 میں مملکت آیا، اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ان کی کمپنی میں کام کرنے لگا۔سعودی عرب اب اپنا دوسرا گھر محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ سعودی شہریوں سے بہت اچھی دوستی بھی ہے اور میں نے جو سب سے زیادہ چیز ان میں دیکھی وہ ایثار اور قربانی ہے۔ اس سے میں کافی متاثر بھی ہوا ہوں جبکہ ریاض میں جو پاکستانی کمیونٹی ہے،ایسی کمیونٹی نہ تو آپ کو جدہ میں ملے گی اور نہ ہی دمام میں۔ یہاں ہمارے پاکستانی بھائی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
 
 

شیئر: