Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”اپلائیڈ فار رجسٹریشن“

 
شہزاد اعظم
للو،ہمارے بچپن کا ساتھی تھا۔پانچویں جماعت تک اس نے ہمارے ساتھ ہی ”ٹاٹ اسکول“میں الف ،بے،پے اور اے بی سی ڈی یاد کیا کرتا تھا۔ٹاٹ اسکول میں پہاڑے بھی یاد کرائے جاتے۔آخری پیریڈ میں ماسٹر صاحب تختہ سیاہ پر 2کا پہاڑا لکھ دیتے اور پھر مویشیوں کو ہانکنے کے کام آنیوالالکڑی کا موٹا ڈنڈا کسی بے رحم تھانیدار کی طرح ہاتھ میں تھامے کرسی پر بیٹھ جاتے اور کسی ایک بچے سے کہتے کہ تختہ سیاہ پر لکھا ہوا پہاڑا تمام ہم جماعتوں کو زور زور سے پڑھ کر یاد کراو۔وہ بچہ کم آواز سے بولتا تو اتالیق محترم اس نکی پشت پر پوری قوت سے ڈنڈا مارتے اور کہتے ”اُچی بول،ماپے تینوں روٹی نئیں کھواندے؟“ڈنڈے کا اتنا خوف ہوتا تھا کہ جس بچے کو بھی پہاڑا پڑھنے کے لئے بلایا جاتا وہ خود بخود ہی پورا منہ اور گلا پھاڑ کر بولتا،”ایک دونی دونی“۔اس کی تقلید میں تمام بچے چلاتے۔پھر وہ کہتا ”دو دونی چار اے،تِن دونی چھے،چار دونی اَٹھ اے“۔
للو کے حوالے سے مزید احوال بیان کرنے سے قبل ایک عجیب بات کا انکشاف ضروری ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات میں کراچی سے ہمارے عمزادگان سیر و تفریح پر لاہور آتے تھے۔انکے بڑے اکثر و بیشتر تمام بچوں کو اکٹھا کر کے تعلیمی کھیل کھلایا کرتے تھے۔اس دوران کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ہمیں 2کا پہاڑا سنانے کے لئے کہا جاتا ۔ہم پہاڑا سنانا شروع کرتے کہ ”اک دونی دونی،دو دونی چار،تِن دونی چھے ۔۔۔۔“ اس دوران ایسا لگتا کہ ہم انہیں پہاڑا نہیں بلکہ فکاہیہ سنا رہے ہیں کیونکہ بڑے اور بچے سب کے سب لوٹ پوٹ ہو جاتے۔جب ہمارے کسی عمزاد سے کہا جاتا کہ آپ 2کا پہاڑا سنائیں تو وہ کہتا”دو اکم دو،دو دونی چار،دو تیا چھے، دو چوکے آٹھ۔۔۔۔“ اس کا پہاڑا سن کر ہم حیران ہوتے کہ غلط پڑھ رہا ہے مگر ”مجمع“میں کوئی نہ ہنستا۔اس ”امتیازی رویے“کا اصل سبب ہمیں میٹرک میں پہنچ کر پتہ چلا۔بہر حال۔۔۔
للو کے والدین کسی گاوں سے آکر لاہور شہر میں آباد ہوگئے تھے۔اس کے والد دن بھر مزدوری کیا کرتے اور والدہ کسی فیکٹری میں سلائی کا کام کیا کرتی تھیں۔ان کا ایک ہی خواب تھا کہ للو میٹرک کر کے کسی سرکاری محکمے میں کلرک بھرتی ہو جائے اور کسی شہری لڑکی سے اس کی شادی کر دی جائے مگر ان کا آدھا خواب پورا نہیں ہو سکا کیونکہ للو نے پانچویں جماعت سے ہی پڑھائی ترک کردی اور موٹر مکینک کے ہاں ”چھوٹے“کی حیثیت سے نوکری کرنے لگا۔فرق یہ تھا کہ اب وہ استاد کے ڈنڈے کی بجائے ”استاد جی“کی گالیاں سنتا اور جوتے کھایا کرتا تھا۔پانچویں جماعت کے بعد سے ہمارا اور للو کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
برسوں بعد زندگی کی ”پت جھڑ“کے دنوں میں چند ماہ قبل ہم بسیں بدلتے ہوئے ”گھوڑے شا“سے” بھائی پھیرو“جارہے تھے کہ ایک بس میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی جیب سے یکا یک پاکستان کے قومی ترانے کی دھن نمودار ہوئی۔اس نے فوراً ہی اپنا موبائل جیب سے نکالا اور ہیلو کہنے کے بعد بولا،”جی!میں تے للو عرج کر ریا واں،تسی کون او؟“ہمیں اس کے منہ سے للو نام سن کر بیحد خوشی ہوئی اور گمان گزرا کہ یہی ہمارے بچپن کا ساتھی ہے۔اس گمان کو یقین میں بدلنے کے لئے اس سے استفسارات کرنا شروع کئے ۔اس وقت للو کی حیرت قابل دید تھی جب اسے ہماری اصلیت کا علم ہوا۔وہ ہمیں زبردستی اپنے گھر لے گیا۔ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھایا جہاں ایک شوکیس پر جمبو سائز کا کیسٹ اور سی ڈی پلیئر رکھا تھا۔دیوار پر چار فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی تصویر لگی تھی جس میں للو نے غترہ اور عقال پہن رکھا تھا۔ایک اور تصویر شوکیس پر رکھی تھی جس میں للو ایک لگژری کار کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ہم اس کے ڈرائنگ روم کا جائزہ لے رہے تھے کہ اتنے میں 4برس کا ایک بچہ وارد ہوا اور گویا ہوا کہ”انکل!امی کہتی ہیں آ کر شربت لے جاو“۔للو نے چلا کر کہا،”انکل دے پتر، میں آ رھیا واں“۔ہم نے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے بھائی کا بچہ تھا۔وہ جھنجھلا کر بولا،”اب بھائی صاحب،یہ میرا بیٹا ہے،میں خلیجی ملک میں ڈرائیور ہوں،شادی کے پانچ سال بعد چھٹی آیا ہوں۔یہ مجھے انکل انکل ہی کہتا ہے۔اس کی وجہ سے مجھے پولیس والوں کی مٹھی گرم کرنی پڑی۔ میری بیوی شہری ہے ۔اسے میرے ساتھ دیکھ کر کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ میرا اکلوتا بھی مجھے باپ کی بجائے انکل ہی سمجھتا ہے۔
کل رات میری بیگم نے کہا کہ پارک تک ٹہل کر آتے ہیں۔میں بیوی اور بچے کو لے کرچلا گیا۔راستے میں پولیس والوں نے روک لیا کہ تم کون ہو اور تمہارے ساتھ کون ہے۔میں نے کہا کہ میں للو ہوں،یہ میرا بیٹا ہے اور وہ میری بیوی۔جواب ملا کہ ”زیادہ بکواس نہ کر،یہ تیری بیوی ہے یا کوئی اور۔میں نے کہا کہ قسم سے ،بیوی ہے۔انہوں نے کہا کہ بیوی ہے تو نکاح نامہ دکھاو۔میں نے کہا ،نکاح نامہ تو گھر میں کہیں رکھا ہوگا۔اتنے میں ایک پولیس والا بولا کہ بیوی ہوتی تو نکاح نامہ ساتھ ہوتا،گھر میں نہیں۔مجھے بے حد غصہ آیا ۔میں نے کہا کہ میں ایک شریف شہری ہوں آپ خوامخواہ مجھے تنگ کر رہے ہیں۔وہ بولے کہ شریف شہری ہو تو رات کے گیارہ بجے ”عورت“کو لے کر کیوں گھوم رہے ہو؟قبل اس کے کہ میں کوئی جواب دیتا،ان پولیس والوں کا افسر آگے بڑھا اور اس نے میرے بچے سے پوچھا،”بتاو بیٹا،آپ کے ساتھ کون ہیں؟“اس نے کہا کہ یہ میرے انکل ہیں۔بچے کا جواب سنتے ہی پولیس والے نے مجھے کالر سے پکڑ کر گھسیٹا اور بولا،ہمیں،ہمیں بیوقوف بناتا ہے؟میں نے قسمیں کھائیں اور بتا دیا کہ میں بیرون ملک سے چھٹی گزارنے آیا ہوں۔بچہ مجھے بحیثیت باپ نہیں پہچانتا۔یہ سن کر ایک اہلکار بولا،”سرجی!اسامی وڈی اے“۔افسر نے کہا،تم بچے اور عورت کو لے کر گاڑی میں بیٹھو اور ہمارے ساتھ تھانے چلو۔جب میں مجبورہوگیا تو ایک پولیس والے کوجو خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، قدرے علیحدہ لے جا کر کہا،سر جی!کسی طرح میری مدد کرو۔اس نے جواب دیا،تم ہماری مدد کرو،ہم تمہاری مدد کریں گے۔یہ کہہ کر اس نے 500روپے طلب کئے۔رقم لے کر اس نے افسر سے جا کر کہا چھوڑیںسر!بندہ شریف لگتا ہے۔افسر نے انتباہ کیا کہ آج تو چھوڑ رہا ہوں،آئندہ کبھی رات کو اس”لان“میں ٹہلتے نظر آئے تو بند کر دوں گا۔یوں 500روپے میں میری”عزت“بچ گئی۔اس ”سانحے “کے بعد سے میں نے نکاح نامہ،شادی کی پانچ چھ تصاویر،بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ کی فائل بنا لی ہے۔جب بھی اہلیہ کے ساتھ باہر نکلنا ہو،یہ فائل ساتھ لیکر جاتا ہوں۔
گزشتہ اگست میں دورہ وطن کے موقع پر ہمیں للو پھر مل گیا۔موٹر سائیکل پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور دو بچے قومی پرچم پر مبنی لباس پہنے ساتھ بیٹھے تھے۔جو اس خاندان کی حب الوطنی کی دلیل تھی۔ہم نے ان بچوں سے پوچھا،بیٹے موٹر سائیکل کون چلا رہا ہے؟ انہوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا،”انکل ہیں“۔
ہم نے للو سے مزاقاًکہاکہ نکاح نامے کی فائل کہاں ہے؟اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”روشن خیالی“کے باعث اب فائل کی ضرورت نہیں رہی۔اب تو صورتحال یہ ہے کہ اگرآپ کسی کو کھلے عام لے کر گھوم رہے ہوںتو پولیس والے اول تو پوچھتے ہی نہیں اور اگر پوچھ بیٹھیں کہ آپ کا نکاح نامہ کہاں ہے تو آپ ”چور“ہونے کے باوجود کوتوال کو ڈانٹ سکتے ہیں کہ نظر نہیں آتا،نئی نویلی دلہن ہے۔نکاح نامہ ابھی نہیں بنا۔ابھی ہم”اپلائیڈ فار رجسٹریشن“کے مرحلے میں ہیں۔
 
 
 
 
 

شیئر: