Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن،پلٹ کر آ۔۔۔۔۔۔کہ تجھ سے شرارتیں مانگوں

جوں جوں انسان 55کی طرف بڑھتا ہے، بچپن زیادہ شدت سے یاد آنا شروع ہوجاتا ہے، 40سال قبل کے بچے معصوم ہوا کرتے تھے، بڑے بوڑھوں کے گرد بیٹھ کر کہانیاں سننے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا تھا
**ممتاز شیریں***
دوحہ۔قطر۔
**(پہلی قسط)**
"*چلو بچپن کو اپنے ہم ، ذرا پھر سے بلاتے ہیں
* چلو آج یونہی کرتے ہیں،کوئی عہد،نہ کوئی پیماں
* یونہی ہاتھوں میں ہاتھ دے کر،کسی دیرینہ رستے پر
* کسی انجان منزل کو، چلو آؤ نکلتے ہیں
* کہیں ساحل پہ سمندر کے، گھروندہ اک بناتے ہیں
* سجاتے ہیں ،سنوارتے ہیں
* چلو یہ کھیل کھیلتے ہیں ،چلو آج یونہی کرتے ہیں
* چلو آج مل کر بیٹھتے ہیں اور بچپن کو اپنے ہم
* ذرا آواز دیتے ہیں۔"
* میرا بچپن۔۔۔! *
بچپن کا حساب کچھ یوں ہے کہ جوں جوں انسان پچپن کی طرف بڑھتا ہے بچپن زیادہ شدت سے یاد آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یوں تو ہر دور کے بچوں کا بچپن تقریباً یکساں ہی گزرتا ہے مگر چونکہ ہر فرد منفرد ہے تو ہر ایک کی کہانی بھی علیحدہ ہوتی ہے آج سے تین چار عشرے قبل کے بچے معصوم ہوا کرتے تھے ۔اس وقت موبائل فونز اور طرح طرح کی ڈیوائسیس کا عفریت گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا ۔اس وقت کے بچوں کے پاس کہانیاں سنانے والی نانی اور دادی ہوا کرتی تھیں ۔ہمیں بھی ہر بچے کی طرح کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا ۔ہماری نانی اماں ماموں جان کے پاس رہا کرتی تھیں اور مہینے میں ایک دفعہ ہمارے گھر یعنی اپنی بیٹی کے یہاں بھی کچھ دنوں کے لئے آیا کرتی تھیں ۔بچوں اور بوڑھوں کی دوستی تو ویسے بھی مشہور ہے کہ بچہ اور بوڑھا برابر ہوتا ہے ۔دونوں کو "لوگ کیا کہیں گے "سے زیادہ "جہاں اور جیسا ہے" کی پالیسی پسند آتی ہے۔ لہٰذا ہم بھی اپنی نانی جان کا انتظار بہت بیتابی سے کیا کرتے تھے اور وجہ ان کی کہانیاں ہوتی تھیں جو ہم رات کو ان کے بستر کے گرد بیٹھ کر سنا کرتے تھے ۔کچھ کہانیاں انسان کی پرورش اور تربیت کے دوران اس کے خون میں شامل ہو کر اس کے ساتھ ساتھ عمر کا سفر طے کرتی ہیں اور زندگی گزارنے کے ہنر یا گرہ کے طور پر انسان پر ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں اب اس طرح کی کہانیاں ناپید ہو چکی ہیں جو زندگی میں انسان کی جڑوں کو ہرا بھرا رکھنے کا کام کرتی تھیں۔
میری نانی اماں اس زمانے کی تھیں جب کہانیاں الف لیلوی طرز پر ہوا کرتی تھیں اور ہزار راتوں پر محیط ہوتی تھیں ۔نانی اماں ہمیں وہ کہانیاں اک عجیب انداز میں سنایا کرتی تھیں اور آخر میں وارننگ دینے والے انداز میں کہا کرتی تھیں "تو ڈرو اْس دن سے" یوں کہانی کی صورت میں "ڈرو اْس دن سے" دھیرے دھیرے ہمارے خون میں سرایت کرتا ہماری رگوں میں اتر گیا یہ وہ عمر تھی جب یہ سمجھ نہیں تھی کہ گناہ کیا ہوتا ہے یا گناہ گار کیسا ہوتا ہے بس اللہ کا ڈر تھا جو خون میں حلاوت کر گیا تھا۔۔۔۔ آج جب میں اپنے ارد گرد کا ماحول ،لوگوں کا رویہ ،ملکی اور سماجی حالات کو دیکھتی ہوں تو وہ کہانیاں میرے اندر ایک مضطرب سی کروٹ لیا کرتی ہیں۔۔۔۔ اپنے بچپن کے دنوں کی ایک شرارت یاد آرہی ہے۔۔۔ اس وقت ہماری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی ہماری نانی جان کچھ دنوں کے لئے رہنے آ ئی ہوئی تھیں نانی اماں کو اس بات سے بڑی چڑ تھی کہ ان کی چپلیں کوئی اور پہن لے اور ہمیں گھر بھر میں سب سے پیاری چپل نانی اماں ہی کی لگا کرتی تھی۔۔۔صاف ستھری۔۔۔چھوٹی سی۔۔۔پیاری سی۔۔۔ہماری نانی اماں بوٹے سے قد کی بہت نفیس خاتون تھیں ۔اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ مرحمت فرمائیں (آمین) تو ان کے گھر آتے ہی ہم ان کی چپلوں کی تاک میں رہا کرتے تھے ۔
بے چاری نانی اماں اپنی چپل نہ پہننے کے رشوت میں ہمیں آتے ہی اٹھنی دے دیا کرتی تھیں (اب آج کے بچوں کو کیا معلوم کہ اٹھنی کیا ہوتی ہے؟ ان کیلئے عرض ہے کہ ایک روپے کا آدھا یعنی آٹھ آنے ہوتے تھے ۔آج کے10 روپے کے ہم پلہ سمجھ لیں) ہم شرارت میں اکثر ان کی چپل پہن کر باہر کھیلنے چلے جایا کرتے تھے۔ اس وقت وہ بے چاری ایک تاریخی جملہ بولا کرتی تھیں "اسی لئے آتے ہی اس کو اٹھنی دے دیتے ہیں کہ ہم کو ستائے گی نہیں۔" *گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن *پلٹ کر آ۔۔۔۔۔۔۔کہ تجھ سے شرارتیں مانگوں
* بچپن انسان کی زندگی کا واحد حسین دور ہوتا ہے اور تقریباً سب ہی اپنے بھولپن ،شرارتوں ،اور بے فکری کے اس زمانے کو یاد کرتے ہیں ہم اپنے بچپن کی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ وہ کہیں نہ کہیں ہمارے لاشعور میں موجود ہوتی ہیں۔۔۔ہاں۔۔یہ زندگی کی پریشانیاں اور مصروفیات میں دھندلا ضرور جاتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں۔
* جب بچے تھے تو دعا کیا کرتے تھے کہ کاش جلدی سے بڑے ہو جائیں اور آج جب بڑے ہوگئے ہیں تو دہائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ۔
* " شب ہائے عیش کا وہ زمانہ کدھر گیا۔۔؟
* اور صبح کا وہ وقت سہانا کدھر گیا۔۔؟
* وہ دن کہاں گئے۔۔؟وہ زمانہ کدھرگیا۔۔؟
* بچپن کے کھیل کود،جوانی کے ذوق و شوق
*سب خواب ہو گئے ، فسانے میں ڈھل گیا۔۔۔۔
* پڑھنے لکھنے کا شوق بہت بچپن سے گھٹی میں پڑا ہوا تھا ۔آنکھ کھولتے ہی گھر میں کتابیں ہی کتابیں دیکھی تھیں ۔ذرا شعور کی منزل پر پہنچے تو گھر پر ایک بہترین اور معیاری لائبریری اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر طاہر مسعود کے طفیل دیکھنے کو ملی۔
الحمد للہ شوق خوب پروان چڑھا۔ میٹرک میں آتے آتے ہم ملکی اور غیر ملکی ادب پڑھ چکے تھے۔ اس وقت کتابیں پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا یہاں تک کہ ہم راہ چلتے موسم اور حالات کی پروا کیے بغیر دیواروں پر لکھے اشتہارات پڑھتے ہوئے کیچڑ میں گرنے سے لے کر گھر کا سودا جن اخبارات میں لپٹ کر آتا تھا ان اخبارات کے ٹکڑے تک پڑھتے ہوئے اپنا نقصان کر بیٹھا کرتے تھے۔
* پڑھنے کی یہ عادت آج بھی قائم ہے۔
آج بھی ہمارے سرہانے ایک کتاب دھری ہوتی ہے۔ گاڑی میں سفر کرتے کتاب ساتھ ہوتی ہے ۔اس وقت کہانیاں بے دریغ پڑھنے سننے کا نتیجہ تھا کہ ہم عام زندگی میں بھی کہانیوں کی تیکنیک استعمال کرنے کی کوششیں کرتے یعنی یہ دیکھ کر کہ چھوٹی بہن نے امی کی بات نہیں مانی ،کسی بات پر ضد اور بحث کی یا اپنی کسی شرارت سے امی بے چاری کو پریشان کیا( ہم تو بہت شریف بچے تھے بالکل اللہ میاں کی گائے) تو ہمارے پاس اور توکوئی اختیارات تھے نہیں ،نہ حقوق،نہ وسائل،نہ طاقت۔۔۔ہاں ایک ہتھیار تھا۔۔۔!قلم کی طاقت۔۔۔۔! تو ہم کسی فرضی مہربان پری کی طرف سے اپنی بہن کے نام خط لکھتے۔ مدعا یہ ہوتا کہ "تم نے فلاں فلاں وقت یہ اور یہ غلط حرکت کی لہٰذا تمہیں جو انعام ملنے والا تھا وہ اب نہیں ملے گا جب تک کہ تم اپنی شرارتوں سے تائب نہیں ہو جاؤگی "۔۔۔۔
* اب آپ خود سوچیں۔۔۔۔ایک بْری سی ہینڈ رائیٹنگ میں بچکانہ اسٹائل میں لکھی گئی بات کتنے مزاح کا باعث بنتی ہوگی۔۔۔۔
*اس وقت آپ سے یہ شئیر کرنا اتنا بْرا نہیں لگ رہا مگر خود سوچیں اس وقت کتنی سبکی ہوتی ہوگی جب بڑے اس خط کو پڑھا کرتے ہوں گے۔۔۔۔
* مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے بچپن کا واحد شوق کتابیں پڑھنا اورجمع کرنا ہوا کرتا تھا۔ اس وقت تعلیم و تربیت، جگنو،بچوں کی دنیا،بچوں کا باغ ،نونہال اور آنکھ مچولی بچوں کے رسالے شائع ہوا کرتے تھے ہمارے شوق کے پیش نظر گھر پر بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، نونہال آیا کرتا تھا بچوں کی دنیا اور بچوں کے باغ میں زیادہ تر جن بھوتوں اور بادشاہ و شہزادے ،شہزادیوں کے قصے ہوا کرتے تھے۔ جنہیں پڑھنا ہمیں بالکل پسند نہیں تھا۔ حکیم محمد سعید صاحب کا نونہال ہمیں پسند تھا لیکن 80 اور 90 کی دہائی میں اشتیاق احمد کے ناولز نے ہمیں اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا ۔وہ مہینے میں 4 ناول لکھا کرتے تھے۔2 انسپکٹر جمشید سیریز کے ایک انسپکٹر کامران سیریز اور ایک شوکی برادران سیریز کا۔ لیکن ہم انسپکٹر جمشید سیریز کے دیوانے تھے اور باقاعدہ پہلے سے ان ناولوں کی ایڈوانس بکنگ کرا لیا کرتے تھے ہم آج بھی اپنے بھائی کے بعد حضرت اشتیاق احمد کو اپنا دوسرا استاد مانتے ہیں۔ ان کے لفظوں میں ایک مقناطیسیت تھی۔ قاری ان کا لکھا اک اک لفظ پڑھتا تھا اور اس کی آنکھیں لوہا بن جاتی تھیں۔ وہ اس کے بعد ان کی تحریر سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا۔ (باقی آئندہ ہفتے)
-----------------------------------------------------------------
(نوٹ:محترم قارئین :اس ہفتے سے ہم نے نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’میرابچپن‘‘۔ہر انسان کا بچپن سہانا ہوتا ہے کچھ تلخ یادیں بھی ہوسکتی ہیں مگر بچپن کی معصومیت ان پر حاوی ہوجاتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج کے بچے اور نوجوان آپ کے بچپن کی شرارتیں،تہذیب اور عزت سے اپنے لئے کچھ سیکھ سکیں لہٰذا آپ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجائیں اور ہمیں اپنے بچپن کے واقعات لکھ بھیجیں ۔زبان اور الفاظ کی بے ترتیبی ہم خود ہی سنوار لینگے۔تصاویر بھی ہوں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ہم سے رابطہ کریں- - - [email protected]یا 00923212699629)

شیئر: