Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نادانیوں، حماقتوں اور بے جا ضد کا دوسرا نام ......بچپن

(دوسری قسط)
* * * ممتاز شریں،دوحہ،قطر* * *
اس زمانے میں ہم اپنی ساری جمع پونجی جو کبھی اٹھنی اور کبھی چونی کی صورت میں ملا کرتی تھی بچا کر صرف اشتیاق احمد کے ناولز خریدنے کے لیئے رکھا کرتے تھے۔ کتابیں پڑھ پڑھ کر ہمیں بھی کہانیاں لکھنے کا شوق چڑھ گیا تھا۔ ساتویں کلاس میں شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم نے بھی ایک کہانی لکھی ایک بڑے اردو اخبار کے بچوں کے صفحے کا ایڈریس لکھااور گھر میں کسی کو بتائے بنا خود ہی چْپکے سے قریبی ڈاکخانے میں پوسٹ کر آئے ۔بتایا کسی کو یوں نہیں کہ نہ چھپنے کی صورت میں گھر میں مذاق کا نشانہ بنیں گے۔ اب بے قراری کے ساتھ ہر ہفتے بچوں کا صفحہ پورا اس امید پر کنگھال ڈالتے کہ شاید کسی کونے میں ہماری تحریر بھی نظر آجائے لیکن مہینہ گزر گیا تحریر نہیں چھپی ہم نے دل میں سوچا۔۔۔چلو اچھا ہی ہوا جو گھر پر کسی کو اطلاع نہیں کی تھی ورنہ سب کتنا مذاق اڑاتے۔۔۔۔۔ اور جب ہم مکمل مایوس ہو گئے تو ایک دن اچانک ہماری تحریر چھپ گئی۔۔۔۔۔۔!! پہلی تحریر کی اشاعت کی خوشی آج بھی محسوس کرو تو اندر تک ایک نئی امنگ اور سر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس تحریر کی اشاعت نے نئے حوصلے اور نئی امنگیں دیں گھر بھر سے خوب شاباشی ملی۔ اس وقت گھر چھوٹے اور دل بڑے ہوا کرتے تھے۔ ہمارے چھوٹے سے دو کمرے کے گھر میں ہی بھائی نے ایک کمرے کو لائبریری بنایا ہوا تھا جس میں بلامبالغہ فرش سے عرش تک صرف کتابوں کی الماریاں ہی الماریاں تھیں۔ گرما کے طویل دن اور سرما کی لمبی راتیں کتابیں پڑھتے گزر جاتی تھیں گو کہ اس وقت اپنی عمر سے بڑی یہ کتابیں زیادہ سمجھ میں نہیں آتی تھیں لیکن بس پڑھنا اچھا لگتا تھا۔ پڑھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ زبان و بیان پر عبور حاصل ہو گیا۔ الفاظ کا ذخیرہ ہمارے اسکول و کالج میں ہونے والے تقریری مقابلوں میں کام آنے لگا ۔اس وقت ہماری تقریری صلاحیت اسکول سے نکل کر کالج تک پہنچی اور پھر الحمداللہ آل کراچی ڈبیٹ مقابلے میں کراچی کے 10 بہترین مقررین میں ایک نام ہمارا بھی تھا۔۔۔۔۔وہ دن بھی کیا دن تھے۔ سندھ میڈیکل کالج میں آل کراچی ڈبیٹ کمپٹیشن کے 3 راؤنڈ مکمل ہو چکے تھے۔ الحمداللہ3 راؤنڈز میں تو ہم کوالیفائی کر چکے تھے۔ مباحثے کے آخری دن فی البدیہہ تقریر کرنی تھی۔ فی البدیہہ تقریر میں چونکہ عنوان اسی وقت دیا جاتا ہے تو بولنا تھوڑا مشکل لگتا ہے۔ ریگولر تقریر میں عنوان پتہ ہوتا ہے تو ہم گھر سے تیاری کر کے آتے ہیں خیر جناب۔۔۔۔۔۔میرے نام جو قرعہ فال نکلا۔۔اس کا عنوان تھا۔
**** "ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے،انجام گلستاں کیا ہوگا‘‘
ٹھنڈے ہاتھوں اور لرزتے کانپتے پیروں کے ساتھ ہم ڈائس پر کھڑے تھے۔ چاروں طرف طلبہ و طالبات کا ایک بے کراں ہجوم تھا جو مستقل ہمیں نروس کرنے کے لیے فقرے بازیاں اور تالیاں بجا رہے تھے لیکن اس نازک صورتحال میں ہمیں اپنے بھائی کی بات یاد آ گئی کہ تقریر کرتے ہوئے کسی کے بھی چہرے کی طرف نہیں دیکھنا یوں سمجھنا کہ اس پورے مجمع میں صرف ایک تم ہی عاقل و سمجھ دار ہو۔ان کی ہدایات یاد آتے ہی ہماری فطری خود اعتمادی لوٹ آئی اور پھر جو بولنا شروع ہوئے تو آخری گھنٹی کی آواز کے ساتھ ہی ڈائس سے نیچے اترے۔گھر آئے تو بھائی نے عنوان پوچھا اور ہنسنے لگے کہ کیا کچھ بول آئی ہو۔۔۔۔۔! ہمیں بخدا اس وقت کچھ بھی یاد نہیں کہ ہم نے کیا بولا تھا۔ نتائج کا اعلان 3 دن بعد ہونا تھا تیسرے دن صبح ہی صبح طاہر بھائی جان مجھے نیند سے جگا کر اخبار سامنے کرتے ہیں جس میں کراچی کے 10 بہترین مقررین میں ایک نام اور تصویر ہماری بھی تھی۔۔۔ زمانہ طالبعلمی میں ہی بیت بازی میں بھی خوب حصہ لیا ۔بیت بازی میں ہر ٹیم کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ہم اس کی ٹیم میں شامل ہوں کیونکہ نازک صورتحال میں جب کسی لفظ سے کوئی شعر کسی کو یاد نہیں آرہا ہوتا تھا تو ہم اپنے دماغ سے اس لفظ سے کوئی نہ کوئی الٹا سیدھا شعر بنا کر ٹانک دیا کرتے تھے یوں ٹیم کی جیت کے امکانات روشن ہو جایا کرتے تھے۔
* ! آہ۔۔۔۔کیاکیا یاد کروں۔۔۔۔
* " بچپن کی باتیں ،وہ بچپن کے قصے"
* سو، لگتے سارے وہ ماضی کے حصے
* بہت دور تک ہیں اجالوں کے دشمن
* نہیں آج دکھتے وہ روشن سے رستے
* ہیں ہر سمت ویرانیوں کے مناظر
* کہاں جا لگے ہیں وہ جھولے ،وہ میلے
* وہ گڑیا کی شادی، وہ مہندی ،وہ باراتی
* وہ بچپن سہانا،وہ تختی ،وہ بستے
* نہیں بھول سکتی میں جگنو پکڑنا
* تعاقب میں جن کے تھے پاؤں پھسلتے
* وہ خود ہی ہنسنا اور سب کو ہنسانا
* "وہ کمرہ ،وہ کتابیں، وہ سہانی سی یادیں" بچپن کا زمانہ بڑی نایاب اور انمول شئے ہے ۔یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے جس کے کھو جانے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے انسان کتنے ہی بلند و بالا مقام و مرتبے کو پہنچ جائے یا عمر کی کسی بھی سیڑھی پر کھڑا ہو جب کبھی بچپن کو آواز دیتا ہے ایک کے بعد ایک یاد بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح بھاگی چلی آتی ہیں ۔کبھی آنسو بن کر آنکھوں سے تو کبھی ہنسی بن کر ہونٹوں پہ بکھر جاتی ہیں اور پھر انسان ایسی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے جس سے واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔
* افسوس ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا"
* " ہم رہ گئے۔۔۔۔ہمارا زمانہ چلا گیا۔۔ بچپن کو "جنت گمشدہ" یعنی "کھوئی ہوئی جنت" بھی کہتے ہیں۔ بچپن کہنے کو تو چار حرفی لفظ ہے لیکن ان چار حروف میں خدا جانے کیا کچھ چھپا ہے۔۔۔معصومیت،نادانیاں، اٹھکھیلیاں، حماقتیں ،بے وجہ ضد اور بے شمار دلچسپ ،دلکش،دلربا یادیں۔ اسکول کا ہوم ورک نہ کرنے پر گھر والوں سے ڈانٹ ڈپٹ ،اپنی مرضی کی چیز فوری لانے کی ضد کرنا، چیز نہ آنے پر اسکول نہ جانے کی دھمکی دینا، کو ئی نئی چیز آنے پر تفاخرانہ سب کو دکھانا، بہن بھائیوں کا آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑنا،پھر کچھ ہی دیر میں صلح کر کے کھیلنے لگنا،نانی اماں سے کہانیاں سننا، گھنٹوں تتلیاں پکڑنا، ریت کے گھروندے بنانا،بارش کی پہلی چھینٹ کے ساتھ ہی۔"۔اللہ میاں بارش دے۔۔۔سو برس کی نانی دے "۔۔۔گانا۔ بارش میں کاغذ کی کشتیاں بنا کر بارش کے پانی میں چلانا،بارش کے بعد سرخ رنگ کی بل بوٹیاں پکڑنا۔۔۔۔!نامعلوم اب بارش کے بعد بل بوٹیاں آتی بھی ہیں یا نہیں۔۔۔؟ وہ چھوٹی چھوٹی سی پیاری پیاری سی لال مخمل کی پوشاک پہنے نازک سی بل بوٹیاں جنہیں پکڑ کر ہم کھیلا کرتے تھے اور سب دوستیں مل کر باآواز بلند گاتے تھے۔۔۔
* "بل بوٹی۔۔۔بل بوٹی۔۔۔۔پنجہ کھول،دیکھ تیری نانی آئی" اس طرح کی بے شمار یادیں انسان کی زندگی کا جزلاینفک ہیں۔ جسے بھلانا کسی کے بھی بس میں نہیں۔۔۔۔اسی لیے شاعر کہتا ہے کہ:
* " یہ دولت بھی لے لو،یہ شہرت بھی لے لو
* بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
* مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
* وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی" ہم نے ایک پرسکون اور پرامن بچپن گزارا ہے مالی
وسائل، سہولتیں اور آسائشیں کم تھیں لیکن لوگوں کے دل ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ اپنے تو اپنے ہوتے ہی تھے غیروں سے بھی ایسا رشتہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتے دار ہی لگا کرتے تھے۔ کتنے ہی برسوں تک تو ہم اپنے پڑوس میں رہنے والی خالہ کو اپنی سگی خالہ ہی تصور کرتے رہے تھے۔ اس وقت جیبیں خالی ہوتی تھیں لیکن دل محبت سے لبالب بھرے ہوتے تھے نہ کسی کو دولت کے انبار لگانے کی حرص ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے دوسروں کا مستقبل تاریک کرتا تھا نہ اپنے فائدے کے لئیے دوسرے کا نقصان کرتا تھا۔
ہمارا بچپن ہر قسم کی دشمنی، کینہ،بغض،حسد،تکبر،لالچ،سے پاک تھا۔ یہ وہ امراض ہیں جو انسان سے اس کی خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ بچپن بہت معصوم ہوتا ہے ۔ہر طرح کے دکھلاوے ، خود پسندی، خودنما ئی سے پاک زندگی، نہ جاہ و جلال کا شوق، نہ شہرت کی طلب، نہ دنیا کی تنقید کی پروا،نہ اپنی رسوائی کا ڈر، کسی کی بات سے دل بھر آیا تو جی بھر کہ رو لیئے۔ ** اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر دیتا ہے
** بچپن میں جی بھر کے رویا کرتے تھے
---------------------------------------------------
(نوٹ:محترم قارئین : ہمارا نیا سلسلہ جاری ہے جس کا عنوان ہے ’’میرابچپن‘‘۔ہر انسان کا بچپن سوہانا ہوتا ہے کچھ تلخ یادیں بھی ہوسکتی ہیں مگر بچپن کی معصومیت ان پر حاوی ہوجاتی ہے ہم چاہتے ہیںکہ آج کے بچے اور نوجوان آپ کے بچپن کی اٹھکھلیاں،شرارتیں،تہذیب اور عزت سے اپنے لئے کچھ سیکھ سکیں۔لہٰذا آپ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجائیں اور ہمیں اپنے بچپن کے واقعات لکھ کر بھیجیں ۔زبان اور الفاظ کی بے ترتیبی ہم خود ہی سنوار لینگے،تصاویر بھی ہوں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ہم سے رابطہ کریں--- [email protected]یا 00923212699629)

شیئر: