Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسپتال گئی توڈاکٹر صاحب نے بھانجے کیلئے پسند کر لیا، ردا مدثر

 ساس ، سسر نے میری پذیرائی میں کمی نہیں آنے دی ہوا کے دوش پر ملاقات
زینت شکیل۔ جدہ
خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کو اپنے ماحول کی تمام رکاوٹوں پر قابو پانے کی صلاحیتیں بخشی ہیں او ران پر قابو پا کر انہیں اپنی منشاءاور مرضی کے مطابق استعمال میں لانے کی قابلیت بھی دی ہے۔ انسان کی کوششیں کبھی ختم نہ ہوں گی، فطرت کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں جاری رہیں گی اور یہی کوششیں انسانی زندگی کے ہر شعبے کو منزل ارتقاءکی طرف لے جانے کی ذمہ دار ہیں۔ چاند اور سورج کی روشنی میں زمین کے اوپر کوئی ایسی شے نہیں جو محنت اور کوشش کی محتاج اور حرکت و عمل کی دست نگر نہ ہو۔ 
اس ہفتے ہماری ملاقات ہوا کے دوش پرمدثر اقبال اور ان کی اہلیہ ردا مدثر سے ہوئی۔ ردا اقبال ماں کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ حالات کی رکاوٹوں کو دور کرنا اور کامیابی حاصل کرتے جاناہی جہد مسلسل ہے۔ ردا مدثر کے والد فضل امین قریشی اور والدہ عطیہ امین نے صاحب زادی کی بہترین تربیت کی۔ تعلیم بھی وہ دلائی جو ان کے مستقبل میں معاون بننے والی تھی۔ 
ردا اپنے والدین کا ذکر بہت محبت کے ساتھ کر رہی تھیں کہ والدہ نے گھر کے کام کا بوجھ نہیں ڈالا لیکن وہ خود سارے کام بہترین ترتیب سے انجام دیتی تھیں اور بعد میں مجھے وہ سب کام کرنا مشکل نہیں لگا۔پھر بیچلر ڈگری فوڈ اینڈ نیوٹریشن میں حاصل کی اس طرح ہر وہ ضروری شعبہ حیات کی تعلیم جس کی ضرورت زندگی میں پڑی ہے وہ سب سکھا دی گئی۔ انہو ںنے مزید بتایاکہ رعنا لیاقت علی خان کالج آف ہوم اکنامکس سے بی ایس سی ڈگری پروگرام کے دوران وہاں کی اساتذہ سے بہترین تربیت ملی۔ وہاں گھر کی سجاوٹ ، ہینڈی کرافٹ، گلاس پینٹنگ ، ڈریس ڈیزائننگ وغیرہ کے علاوہ خوراک و صحت و تندرستی کے شعبے میں بہترین تربیت سے معلوم ہوا کہ جو کچھ انسان خوراک لیتا ہے، صحت اسی حساب سے بنتی ہے۔ اسی لئے کاربوہائیڈریٹ، پروٹین ، کیلشیم یعنی ہروہ چیز خوراک میں شامل کی جانی چاہئے جو صحت کیلئے ضروری ہے ۔ چاول ، گندم ، دالیں، یعنی اناج ، گھی ، دودھ ، دہی ، مرغی، مچھلی ، بکرے اور گائے کے گوشت بھی مہینے کے مینیو میں شامل رکھنا چاہئے۔ انڈہ، دودھ، بادام اور ایک پھل ناشتہ کیلئے مخصوص کرنا چاہئے۔ میوہ جات بھی معمولی مقدار میں روز کی بنیاد پر استعمال کرنے چاہئیں۔ پھل اور سبزیاں تازہ استعمال کرنی چاہئےں۔ جاننا چاہئے کہ ہر خوراک اپنے اندر غذائیت رکھتی ہے لیکن اس کا تازہ تیار کیا جانا اہمیت رکھتا ہے۔ آج کل جنک فوڈ او رکولڈ ڈرنکس عام طور پر روزانہ استعمال کئے جا رہے ہیں جو صحت کیلئے مضر ہےں۔ روزانہ بدل بدل کر چیزیں تیار کرنی چاہئےں۔ ایک ہی لائن روزانہ رکھنے سے بوریت بھی ہو جاتی ہے اوریہ صحت کیلئے مفید بھی نہیں ہوتا۔ علاج بھی خوراک کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے علاوہ جن کو جتنے حراروں کی ضرورت ہو، اتنی ہی خوراک استعمال کرنی چاہئے۔ ضرورت سے زیادہ خوراک جسم کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچاتی ہے یعنی جسم میں زائد چربی کی صورت میں جمع ہو جاتی ہے اور مٹاپے کا سبب بنتی ہے اور مٹاپا خود بے شمار بیماریوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ بچپن میں ردا مدثر بہت زیادہ شرارتیں نہیں کرتی تھیں لیکن ایکٹیوبچوں میں شمار ہوتی تھیں۔ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں اور جیت جانے پر خوش بھی بہت ہوتی تھیں۔ شادی کہاں ہوئی ، کیسے رشتے ناتے طے ہوئے اس بارے میں ردا نے بتایا کہ وہ کسی تکلیف کے باعث اسپتال پہنچی تھیں وہاں ڈاکٹر صاحب ملے جو مدثر اقبال کے ماموں جان ہیں۔ انہیں خیال آیا کہ ان کی ہمشیرہ لڑکی تلاش کر رہی ہیں تو انہیں بتانا چاہئے۔ دراصل ڈاکٹر صاحب کو ذہن میں خود ہی یہ خیال آیا کہ ان کے بھانجے کیلئے یہ رشتہ مناسب ہوگا۔ بزرگوں کا آنا جانا ہوا اور رشتہ طے ہو گیا۔ شادی میں کیا کیا رسمیں ہوئیں ،آرسی مصحف کی رسم ہوئی یا نہیں۔ ردا کا اس بارے میں خیال ہے کہ رسمیں ضرور ہونی چاہئیں لیکن تھکا دینے والی نہ ہوں جیسے دوسروں کی شادی میں شرکت کرنے سے ہر رسم پر مزہ آتا ہے لیکن جن کی شادی ہو رہی ہووہ تو بالکل بور ہو کر رہ جاتے ہیں۔میکے اور سسرال والوں نے مایوں میں شادی اور ولیمہ میں اہتمام تو خوب کیا لیکن ایسی مشکل والی رسمیں نہیں کیںکہ جس سے کسی کو پریشانی ہو ،بس سیدھی سیدھی تھوڑی بہت رسمیں ادا کی گئیں۔ لڑکیوں نے گیتوں کا مقابلہ کیا۔ دونوں پارٹیاںیہی سمجھتی رہیںکہ ہم جیت گئے ہیں۔ اس طرح دونوں اطراف جیتنے کی خوشی تھی۔
بچوں کی تربیت میں دراصل ماں کا کردار ہی اہم ہوتا ہے ۔ اس بارے میں ردا مدثر کہتی ہیں کہ بچوں کی شخصیت گھر کے افراد کے رہن سہن ، نظریات ، تصورات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ انسانی کردار کی خوبیاں ہی دراصل ایک نسل سے دوسری نسل میںمنتقل ہوتی ہیں۔ عام آدمی کے طرز معاشرت کو ہی ثقافت کہتے ہیں۔ اس میں انسان کی وہ تمام قوتیں شامل ہیں جو وہ ماحول اور خود اپنے اوپر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے استعمال میں لاتا ہے۔ کلچر یا ثقافت وہ پیچیدہ عمل ہے جس میں علم ، عقائد ، ادب ، قانون ، روایات اور تمام عادات شامل ہوتی ہیں۔ ثقافتی عمل تعلیم میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر علاقے کا نہ صرف ماحول، رسم و رواج الگ حیثیت میں ملتے ہیں بلکہ ادب، فنون لطیفہ ہر چیز میں ماحولیات و جغرافیائی تغیرات ملتے ہیں۔ 
ردا مدثرنے والدین سے بہترین تربیت پائی اسی لئے اپنی بچیوں کیلئے بھی چاہتی ہیں کہ مروجہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دینی علوم سے بھی آگاہی ہو۔ بچپن کی یاد کی ہوئی مسنون دعائیں انسان تا عمر یاد رکھتا ہے۔ انہیں ہمیشہ دُہراتا رہتا ہے۔ جیسا کہ بچوں کو والدین ضرور یہ بات بتاتے ہیں کہ ایک حدیث طیبہ کا مفہوم ہے :
” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔(جیسا وہ میرے متعلق گمان رکھتا ہے، میں ویسا ہی ہوتا ہوں) اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے چنانچہ اگر وہ اپنے دل میں (تنہائی میں) میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اپنی تنہائی میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجمع میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اس کے مجمع سے بہتر مجمعے میں (فرشتوں کے مجمعے میں) اس کا ذکر کرتا ہوں۔( بخاری ، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
برصغیر پاک و ہند بے شمار رنگوں کا مجموعہ رہا ہے اور آج بھی وہاں کئی مذاہب ، کلچر اور زبانیں موجود ہیں اور مسلمانوں کیلئے پسندیدہ زبان اردو ہے جو ان کی شناخت بھی ہے۔ لکھنو ، بھوپال اور الٰہ آباد،مختلف جگہوں سے خاندان پاکستان میں ردا اور مدثر کی صورت میں ایک خاندان ہے۔ 
ردا کے والد فضل امین قریشی اپنی بیٹی کیلئے فراخ دل رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہر ضروری کام وقت پر انجام دینا او رہرچیز کو درست طریقے سے منظم کرنا سکھایا ہے۔ ردا کی والدہ عطیہ امین نے بیٹی کو اس بات کی اہمیت دلائی کہ انسان جہاں رہے، اپنی شناخت قائم رکھے۔ احکامات پر عمل پیرا رہے او ربچوں کی دیکھ بھال میں، ان کی نگہداشت میں اپنی پوری توانائی بہترین طور پر استعمال میں لائے۔ ا س میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بچوں کی ہر بات توجہ سے سنی جائے۔ انہیںوقت دیا جائے، ان کی دلچسپیوں میں شامل رہا جائے او رکھیل کود، پڑھائی لکھائی او رسونے جاگنے کو بھی روٹین میں رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان تعلیم میں جو خرچ کرتا ہے وہ مال کا دراصل سب سے بہترین استعمال ہوتا ہے۔ تربیت میں کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا لیکن اس کی اہمیت مروجہ تعلیم سے بڑھ کر ہے۔ انسان ہمیشہ اپنی اولاد کو اپنے آپ سے بہترمقام پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے اجر بھی اس کا بہت ہے۔
ردا مدثر کہتی ہیں کہ ان کے ساس ، سسر اقبال سلیم اور فرحانہ اقبال نے سسرال میں میری پذیرائی میں کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی۔ میری نند مائرہ نوید بہت اچھے اخلاق کی حامل ہیں۔ دیور مارج اقبال اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ دونوں بھائی بہن بچوں کیلئے وقت نکالتے ہیں او راپنی بھتیجیوں کیلئے آوٹنگ کا پروگرام بناتے رہتے ہیںجس کے باعث بچوں کو ان کا انتظار رہتا ہے۔اقبال سلیم اور فرحانہ اقبال بچوں کی خوشیوں میں خوش رہتے ہیں اسی وجہ سے ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں اپنی شرکت یقینی بناتے ہیں۔ جب بچیاں جدہ میں رہتی تھیں تو دیر تک اسکائپ پر باتیں ہوتی رہتی تھیں، اب کراچی میں اسکول میں داخلہ ہو گیا ہے تو وہاں کی ایک ایک بات دادا ، دادی کو بتانا اور ہر ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتی ہیں کہ دادا جان اور دادی جان بس میری ہی باتیں سنیں اور کسی کو بھی لفٹ نہ کرائیں۔ 
ردا مدثر کا کہنا ہے کہ والدین کی محبت ،ان کی تربیت ،بچوں کو معاشرے میں اونچا مقام دلاتی ہے۔ دادا، دادی اور نانا ، نانی بچوں کو تربیت میں بھی وہ تعلیم دیتے ہیں کہ جو زندگی کے لئے ستون کا درجہ رکھتی ہے ۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہماری بچیاں ددھیال اور ننھیال دونوں جگہ سے خوب اچھی تربیت پا رہی ہیں۔ خاندان کا رکھ رکھاو سیکھ رہی ہیں جیسا کہ میری والدہ نے مجھے ہمیشہ ہی بتایا کہ تمام خاندان کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے۔ خاندان کی یکجائی قوت بنتی ہے، شناخت بنتی ہے۔ ردا مدثر کے بھائی زید قریشی بی بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اورآج کل پاکستان کی مشہور تعمیراتی کمپنی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مدثر اقبال نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تعمیراتی کمپنی میں اپنی خدمات کی انجام دہی کو یقینی بنایا چونکہ وہ چند سالوں سے بیرون ملک کئی ایسی کمپنیوں کو جانتے ہیں جو تقریباً ایک پوری صدی نہیں تو نصف صدی سے ضرور مستحکم پوزیشن میں رہی ہیں تو اچانک کاغذ کی کشتی کی طرح پانی میںڈوب جانا یعنی دیوالیہ ہوجانایا خسارے میں چلے جانا حقیقت سے دور نظر آتا ہے لیکن جب چاروں طر ف گرد اڑ رہی ہو تو سامنے کا منظر درست طور پر نظر نہیں آتا لیکن جب چند سالوںمیں گرد بیٹھ جائے گی تو حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔
بچیوں ہبہ، شفق اور ہانیہ کے بارے میں مدثر اقبال بتاتے ہیں کہ تعلیمی مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ والدہ کو مصروف رکھا جاتاہے۔ اسکول والو ںکو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جہاں اسپورٹس کے مقابلے صحت مند رحجان قائم کرتے ہیں وہیں پنک شوز ڈے، ڈاٹ ڈریس ڈے او رگرین کیپ ڈے منانے سے کسی قسم کی دانائی میں اضافہ نہیں ہوتا تاہم والدین کے بازاروں کے چکروں میں اضافہ ضرورہوتا ہے اوروہ بھی بے ثمر۔ اس کے لئے سائنسی تخلیقی چیزیں روشناس کرانی چاہئےں۔بچپن میں چھوٹی چھوٹی چیزیں اپنے اساتذہ کے تعاون سے خود بنانی چاہئیں، یہ بچوں کو تادیر یاد رہتی ہیں۔ مدثر اقبال نے کہا کہ بچوں کی تربیت آسان نہیں لیکن ردا بہت محنتی ماں ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیں، وہ ہر دم ہر قدم بچوں کا خیال رکھتی ہیں۔ تینوں بچیوں کی شکایت بھی بڑی توجہ سے سنتی ہیں۔ بچیوں کو اپنی ہر بات پوری توجہ سے سنانی ہوتی ہے اور سوالات کا دورانیہ بھی تینوں بچیوں کا طویل ہوتا ہے۔ کبھی یہ بات بتائیں کبھی وہ بات سمجھائیں یعنی دنیا میں جو کام جہاں کہیں بھی ہو رہا ہے وہ ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں تو اس کی تفصیل اماں جان کے ذمہ ہے کہ وہ اس امر کی وضاحت کریں کہ آخرساری دنیا میں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، کس کی اجازت سے یا کس کے حکم سے ہو رہا ہے ؟ ردا بڑے اہتمام سے انہیں پر تشفی جواب دیتی ہیں۔ ڈانٹ کرچپ نہیں کراتیں۔ کچھ کا جواب خود دیتی ہیں اور ضروری ہو تو دادا ، دادی کی طرف متوجہ کرادیتی ہیں۔
مدثر اقبال اپنی اہلیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ردا بہترین منتظم ہیں۔ گھر اور گھر سے باہر بچیوں کے اسکول اور خاندان بھر کے اجتماعات میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ ہر کام وقت پر انجام دینا ضروری خیال کرتی ہیں۔ باادب ہیں، دوسروں کی رائے کوپوری توجہ سے سنتی ہیں او راکثر پر عمل بھی کرتی ہیں ۔ بزرگوں کی خدمت کو اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز میں میری بہترین مشیر وہی ہیں۔
ردا اقبال کا کہنا ہے کہ دنیا میں انسان بہت تھوڑے دنوں کیلئے آیا ہے۔ سب سے مل جل کر رہنا اپنے لئے ہی بھلائی کا راستہ کھولتا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں چلے جائیں ہر جگہ مختلف موسم ،زبان، لباس اور خوراک یعنی پوری ثقافت الگ نظر آتی ہے۔ مدثر اقبال نے بہت خوشی دلی سے سیاحت کا شوق پورا کیا۔ انگلینڈ ، اسکاٹ لینڈ ، ملائیشیا، دبئی اورعمان وغیرہ ہر خطہ زمین ایک دوسرے سے یکدم ہر پیرائے میں مختلف لگا اور ہر جگہ پسند آئی لیکن رہنے کیلئے اپنا ملک ہر طرح سے بہترین ہے جہاں چاروں موسم آتے ہیں ۔ بہار میں پھولوں کی خوشبو ہواوں میں شامل ہو کر ٹریفک کے دھوئیں کا احساس کم کر دیتی ہے لیکن سمجھداری اسی میں ہے کہ ہر جگہ سڑک کے دونوں اطراف درخت لگائے جائیں تا کہ ماحولیاں کی حدت میں کمی کی جا سکے۔ ردا نے کہا کہ مدثر اقبال اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں۔ ہر بات میں بزرگوں کا مشورہ مانتے ہیں۔ وہ ردا کے والدین کوبھی بہت اہمیت دیتے ہیں۔ انکی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ بیرون ملک رہتے ہوئے ہر ایک کی خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔ سب کی فکر کرتے ہیں۔ ساتھیوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ والدین کی خدمت کواپنا شعار بنا لو، زندگی کے نشیب وفراز سے آسانی سے مقابلہ کر پاو گے۔ مدثر اقبال خوش اخلا ق ہیں، سیاحت پسند کرتے ہیں۔ سیاحت کا مطلب مختلف ممالک کی سیر ہی نہیں بلکہ ہر ویک اینڈ پر کسی سبزہ زار یا ساحل سمندر پر جانا یا ہریالی والی دیگر جگہوں کی سیر کا پروگرام بنا لینا او راپنے ساتھ ساتھ قریبی رشتہ داروں کو ساتھ لیکر جانا انہیں اچھا لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب سب بچے کل کو بڑے ہوں گے تو ان سبزہ زاروں ، ساحل سمندر ، کھیل کے میدانوں ، رنگین جھولوں او روہاں کھیلے گئے تمام کھیلوں کو یاد کریں گے۔ ایک دوسرے کو بتائیں گے کہ ہم نے یہاں یہ سارے رائڈز کئے تھے۔ مما نے اور بابا نے ہمیںخود بھی یہاں اپنے ساتھ کھیل میں شامل کیا تھا۔ 
 
 
 
 
 
 

شیئر: