Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ہماری بہو تو غریب خانے کو ”کاشانہ نسواں“ بنائیں گی“

 
سسرنے کہا پوتیاں مجھے بہت عزیز ہیں،بہو او ربیٹیاں گھر کی روشنی ہوتی ہیں
عنبرین فیض احمد۔ ریاض
چوتھی بیٹی کی پیدائش کیا ہوئی ساس نے کہنا شروع کر دیا کہ اس گھر میں صرف بیٹیوں کے ڈھیر لگتے رہیں گے،”ہماری بہو محترمہ اس غریب خانے کو ”کاشانہ¿ نسواں“ بنا کر دم لیں گی۔ ویسے ہی گھر میں لڑکیوں کا کوئی کال ہے کیا۔ میرے بیٹے کی عمر ہی کیا ہے۔ دیکھو ذرا، بالکل بوڑھا لگنے لگا ہے۔ ان بیٹیوں کی پرورش کرنا، انہیں پڑھانا پھر شادی کیلئے جہیز تیار کرنا، یہ تو زندگی بھر کی مشقت ہے ۔اس بے چارے پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جیسے وہ انسان ہی نہیں۔کہاں سے کرے گا ان لڑکیوں کی شادیاں ، کہاں سے لائے گا ان کے بر؟اس خاندان کی نسل آگے کیسے چلے گی؟ ساس کی نگاہ گھر میں جیسے ہی کسی بیٹی پر پڑتی ، وہ شروع ہوجاتیں ، انہیں اب بیٹیوں سے چڑ ہونے لگی تھی۔ 
اس مرتبہ پھر جیسے ساس کو ایک اور پوتی کی ولادت کی خبر پہنچی تو ان کا پارہ آسمان پر پہنچ گیا ۔ سسر نے بہت سمجھانے کی کوشش کی اور کہاکہ اس میں بہو بیچاری کا کیا قصور، قدرت کو جو منظور ہو، وہی ہوتا ہے ۔ ہزاروں بلکہ لاکھوںلوگ ہمارے ملک میں ہی ایسے بھی ہیں جو بے اولاد ہیں۔ ترس رہے ہیں بچوں کیلئے۔ آپ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ہماری اپنی بھی تو 4 بیٹیاں ہیں۔ 
ساس صاحبہ نے تڑپ کر جواب دیا کہ ہمارے اکلوتے بیٹے نے دنیا میں آکر ہماری زندگی میں روشنی بکھیر دی۔ اس لئے مجھے امید تھی کہ اس کے دم سے بھی خوشخبری ملے گی مگر ایسا لگتا ہے کہ میری آنکھیں پوتے کو دیکھنے کو ترسی رہیں گی۔ بہو نے تو جیسے میرے سارے ارمانوں پر پانی ہی پھیر دیا۔
ماں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے ان کے اکلوتے بیٹے معاذ نے بیٹی کو اٹھاکر اس کی ماں کی گود میں ڈالا ۔ وہ تو بہت خوش تھا کہ بیٹی ہو یا بیٹا، اسے تو صرف یہ معلوم تھا کہ اولاد خوشیاں ہی لے کر آتی ہے پھر اسے تو بیٹیاں بھی اتنی ہی پسند تھیںجتنا بیٹے پسند ہو سکتے تھے۔ معاذ نے اپنی ماں سے کہا کہ آپ کس دنیا میں جی رہی ہیں؟ یہ 21 ویں صدی ہے۔ اس دور میں لڑکیاں کیا کچھ نہیں کررہیں، وہ بیٹوں سے کسی طور کم نہیں۔ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں، والدین کا نام روشن کررہی ہیں، جو آج کے لڑکے بھی نہیں کر پاتے۔ 
ماں کو بیٹے کا دل رکھنے کیلئے ننھی پوتی کے گال چومنے پڑے اور پھر کام کا بہانہ کرکے پلٹ گئیں۔ ساس کی طبیعت ملول سی تھی۔ انہیں بے انتہاءامید تھی کہ اس مرتبہ ضرور پوتے کی خوشخبری ملے گی ، سارے محلے میں جاکر خبر سنائیں گی کہ وہ بھی پوتے والی ہوگئی ہیں جس کا انہیں بہت ہی شوق بھی تھا مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس میں ان کی بہو کا کوئی قصور نہیں۔ اس کے باوجودانکا دل افسردہ تھا۔ انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے کیلئے بہت کچھ کریں گی۔ 
معاذ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ ماں کو پوتے کی آرزو تھی تو بہنوں کو بھی بھائی کے بیٹے کو کھلانے کی تمنا کچھ کم نہیں تھی۔ اب کیا کیا جاسکتا تھا، بہو بے چاری دن بھر گھر میں یوں ڈری سہمی رہتی جیسے اس نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔ کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود وہ مجرموں کی طرح گردن جھکائے رہتی۔
پھر ایسا ہوا کہ ساس نے گھر میں اعلان کردیا کہ وہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرنا چاہتی ہیں۔ ابتداءمیں بہو نے سوچا کہ شایدیہ محض ساس کے دماغ کا خلل ہے، آہستہ آہستہ زائل ہوجائے گا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ اٹھتے بیٹھتے ایک ہی بات کرتیں ۔ یہ بات سن سن کر بہو کو کوفت ہونے لگی۔ دن بدن ان کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ جیسے ہی معاذ گھر میں داخل ہوتا ،وہ دوسری شادی کا راگ الاپنے لگتیں۔ معاذ نے ماں کو سمجھایا، احتجاج بھی کیا مگر ماں کی ایک ہی رٹ تھی۔ اس نے مجبور ہو کرماں سے کہہ دیا کہ یہ بھلا کیا بات ہوئی ۔ آج اتنی ہوشربا مہنگائی کے دور میں میں دو دو شادیاں کیسے کر سکتا ہوں۔ میں اتنے اخراجات برداشت نہیںکرسکتا ۔ اگر میری قسمت میں ہوا تو اللہ کریم مجھے آپ کی اسی بہو سے بیٹا دے دے گااور اگر نصیب میں ہی نہیں ہے تودو کیا 4 شادیاں کرکے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں اپنی بچیوں سے بہت پیار کرتا ہوں۔
دوسری جانب ساس ہر صورت بیٹے کی دوسری شادی پر بضد تھیں۔وہ لڑکیوں کی تلاش میں روزانہ گھر سے نکل جاتیں۔ جب یہ خبر سسر تک پہنچی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ بہو نہیں، میری بیٹی ہے۔ اگرتمہاری بیٹی پر کوئی سوکن لے آئے تو کیا تم ہنسی خوشی برداشت کرلوگی؟ کوئی بات نہیں اگر اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو اولادِ نرینہ سے نہیں نوازا۔ اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے۔ پوتیاں مجھے بہت عزیز ہیں۔ میری آنکھوں کا تارا ہیں ۔ بہو او ربیٹیاں گھر کی روشنی ہوتی ہیں۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگی۔آج ہماری چاروں بچیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پورے خاندان کا نام روشن کررہی ہیں۔ رشتے بھی اتنے آرہے ہیں کہ ان کا اتخاب ہی مشکل ہوچکا ہے۔ 
سچ ہی تو ہے کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں ، گھر کی رونق انہی سے ہے۔ معاشرہ ہے جو انہیں بوجھ کے علاوہ نہ جانے کیا کچھ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ بیٹیاں تو پھول سے بھی زیادہ نازک ہوتی ہیں، بس احساس کی بات ہے، عورت کیلئے۔ 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: