Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ٹاٹیانہ رائے‘‘

 
        ٹاٹیے نے کہا کہ مجھے 90دن کی حکومت مل جائے  تو سب  سدھر جائے گا ، میں ہر اہم عہدے  پر ٹاٹیے بٹھا دوں گا جو خیبر تا کشمور سب کو  چوکڑیاں بھلا دیں گے۔
*  * *شہزاد اعظم* *  *                                                                                  
    کہتے ہیں کہ گھر میں ایک دوسرے کو اچھے القاب سے پکارنا چاہئے تاکہ کل کلاں کو جب غیر آپ کو اسی نام سے پکاریں تو آپ کو شرمندگی، تضحیک، توہین،خفت یا ہزیمت جیسے احساسات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جیسے گورنمنٹ کالج ، لاہور جیسی نامی گرامی، مایہ ناز درسگاہ سے علم حاصل کرنے والوں کوشہر سے گزرنے والے دریائے راوی کی مناسبت سے ’’راوینز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح لاہور میں ہی موجود صدیوں قدیم کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج جیسی بے مثل و بے نظیرمادر علمی میں پڑھنے اور پھرفارغ التحصیل ہونے والوں کو ’’کیمکولینز‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس انداز میں پکارنے سے مخاطب کو قلبی انبساط کا احساس ہوتا ہے، اس کی گردن میں ذرا سا ’’سریا پن‘‘ آجاتا ہے اور اسے ’’پُر مسرت اکڑاہٹ‘‘ محسوس ہونے لگتی ہے ۔انجام کار وہ خود کو لاکھوں عوام سے نہیں بلکہ لاکھوں خواص سے بہترسمجھنے لگتا ہے۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مذکورہ حضرات و خواتین کبھی سہ ماہی،کبھی ششماہی اور کبھی سالانہ بنیادوں پر پارٹیاں شارٹیاں، محفلیں شحفلیں، اجتماعات شجتماعات بھی منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے لئے باقاعدہ دعوت نامے بھجوائے جاتے ہیں جن پر خصوصی نوٹ تحریر ہوتا ہے کہ ’’اونلی راوینز آر اَلاؤڈ‘‘ یا ’’نان کیمکولینز آرناٹ اَلاؤڈ‘‘وغیرہ۔ اس طرح نہ صرف مدعو کی جانے والی شخصیت کو احساسِ تفاخر ہوتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو اپنی ’’شومی‘‘ پر رونا آنے لگتا ہے کہ اگر ہمارے بخت بھی ‘‘خوش‘‘ ہوتے توہم بھی ’’راوین‘‘ یا ’’کیمکولین‘‘ کہہ کر پکارے جاتے۔ہم نے بھی اپنی عزت کرانے،خود کو باوقارسمجھنے اور سمجھوانے کے لئے راوینز اور کیمکولینز کی نقالی کی ۔یہ خیال ہمیں اس وقت آیا جب ہم کچھ عرصے کے لئے چمار کالونی میں کھلے آسمان تلے قائم سرکاری اسکول میں ٹاٹ نشین ہوئے تھے۔ہوا یوں کہ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔کمرۂ جماعت میں غوغا ہو رہا تھا۔ ہماری مس نبیلہ نے عملِ تدریس میں وقفہ لے رکھا تھا کیونکہ  وہ سویٹر بن رہی تھیں  اور مس انیلہ سے کچھ ضروری باتیں کر رہی تھیں اور انہیں بتا رہی تھیں کہ وہ یہ سویٹر کس کے لئے بُن رہی ہیں۔ اسی دوران ہم نے اپنے ارد گرد موجود بوریہ نشینوں’’اچھو، بچو، چھومی، کامی، شوکا اور لیاکا‘‘ سے کہا کہ ہمیں اپنے معاشرے میں کوئی بھی توقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ ہمیں اپنی عزت کرانی ہو گی، لوگوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ ہمیں قابل رشک خطابات و القاب سے نوازیں جیسے ’’جی سی کے راوینز‘‘ اور ’’کے ای ایم سی کے کیمکولینز‘‘۔ اسی طرح ہمیں اپنے آپ کو ’’لاہوری ٹاٹینز‘‘کہلانا ہوگا۔ہم خواہ کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں ہی کیوں نہ پہنچ جائیں، ہمیں اپنے نام کے ساتھ ’’ٹاٹ یَن‘‘ بطور سابقہ یا لاحقہ ضرور لگانا ہوگا تاکہ لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔یہی نہیں بلکہ ہم اپنی مسوں،مس جمیلہ، مس شکیلہ، مس نبیلہ، مس انیلہ، مس خلیلہ وغیرہ کوبھی معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کے قابل بنا سکیں اور وہ گردن اکڑا کر کہہ سکیں کہ ’’ہم ہیں ٹاٹینز کی اُستانیاں‘‘۔پھر پتا ہے، ایسا ہی ہوا اور ہم نے خود کو  ٹاٹینز کہنا  شروع کر دیا۔ آج آپ نے ’’آپٹا‘‘ کا نام سنا ہوگا، جی ہاں آپٹا یعنی ’’اے پی ٹی اے‘‘یہ مخفف ہے ’’آل پاکستان ٹاٹینز ایسوسی ایشن‘‘۔ ہم  ٹاٹینز روزانہ کی   بنیادوں پر محافل منعقد کرتے ہیں، بیٹھکیں ہوتی ہیں، بوریہ نشیں شامیں منائی جاتی ہیں۔ یہ سارا کام ’’آن لائن‘‘ ہوتا ہے۔
    کل رات ’’آپٹا‘‘ کا علاقائی سربراہ ہم سے  ملاقات کے لئے ہماری ’’کٹیا‘‘ میں گھس آیا۔ ہم نے ’’اخلاقاً‘‘ استفسار کر لیا کہ چائے چلے گی یا کھانا؟اس نے ٹاٹیا ہونے کا  ثبوت دیتے ہوئے انتہائی مختصرتفصیلی جواب دیا جس نے تمام موصوف کی نیت، ارادے اور منصوبے کے تمام عقدے وا کر دیئے ۔ انہوں نے جواب دیا’’ پہلے چائے۔‘‘ہم نے مدارات کے لئے کمر کسی اور چائے بنانے سے ابتداء کی۔ اس دوران انہوں نے اپنی تمام تر سماعتیں اور بصارتیں لیپ ٹاپ پر نیٹ ٹی وی سے نشر ہونے والے خبر نامے میں جھونک دیں۔ ہم 5منٹ  کے بعد چائے لے کر آئے تو انہوں نے چائے کی پہلی چسکی لیتے ہی اپنی ’’ٹاٹیانہ رائے‘‘کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے کہ ہمارے وطن کے ذرائع ابلاغ میں مثالی تنوع پایاجاتا ہے۔ آپ مزاح نگار ہوں یا شاعر،  تنقید نگار ہوں یا مبصر، تجزیہ نگار ہوں یامقرر، تھانے دار ہوں یا محرر، 10منٹ کے لئے  ہمارے پاکستانی نجی چینل دیکھ لیجئے ، آپ کو کہنے، سننے، سنانے اور لکھنے کے لئے بے تحاشا مواد مل جائے گا۔ ابھی میں نے صرف 5منٹ کے لئے  ویب ٹی وی دیکھا تو 2موضوعات نظرنواز اور سماعت گزار ہوگئے۔ پہلا  موضوع کر کٹ کے حوالے سے ہے کہ ہمارے غیر پاکستانی کوچ نے پاکستانی بلے باز کو کہا کہ اگرٹیم میں  شامل رہنا ہے  تو اپنے ’’تن کو درست‘‘ رکھنے کے لئے ’’تندرستی‘‘ پر دھیان دو۔ بلے باز نے کوچ کی انتباہی  ہدایت کو  درخور اعتناء نہیں جانا جس پر کوچ نے  اسے ٹیم سے نکالنے کا کہا تو بلے باز نے پریس کانفرنس اکٹھی کر لی اور ابلاغی  ذمہ داران اور غیر ذمہ داران کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ کوچ نے گالم گلوچ کی  اور میں ایک معزز شخص ہوں، کسی کی گالی کس طرح اور کیوں برداشت کر سکتا ہوں؟ ٹاٹیے نے کہا کہ اس بلے بازکو  ایک ’’صحافت باز‘‘ نے مشورہ دیا ہے کہ آپ عوام میں جائیں اور انہیں بھر پور کوشش کرتے ہوئے بے وقوف بنائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ میں نے  ہمیشہ کرکٹ کے ذریعے ملک اور قوم کا نام روشن کرنے کی  جد و جہد کی ہے ۔میں آئندہ بھی اپنے  وطن کے لئے کھیلنے کے لئے تیار ہوں  مگر بعض ’’بدخواہ‘‘میری راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں، میں ان کو  بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے ٹیم میں رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ آپ نہیں کر سکتے، یہ فیصلہ عوام کریں گے ۔ہم آپ کا یہ بیان سن کر ’’آوے ای آوے‘‘ کا نعرہ ماریں گے پھر لوگ ہماری آواز میں آواز ملا ئیں گے اوربالآخر آپ کو کاندھوں پر اٹھا کر ٹیم میں چھوڑ کر آئیں  گے ۔ کوچ منہ تکتے رہ جائیں گے۔
    دوسری خبر دیکھی کہ بلوچستان میں ماہی گیروں نے ایک لمبی  دڑنگی وھیل پکڑ لی جو ان کے سمندر میں’’ بلا اجازت‘‘آزاد گھوم  رہی تھی اسے سمندر سے  باہر نکالا، ٹرالر پر ڈالا، اس کی لمبائی چوڑائی ، اس کے  وزن اور ’’بڑے پن‘‘سے متاثر ہوئے  اور اسے ’’بڑی مچھلی‘‘ ہونے کے باعث سمندر میں  واپس چھوڑ دیا ۔ایک مچھیرے نے کہا کہ ہم ’’بڑی مچھلی‘‘ کو  نہیں پکڑتے ۔ ہم چھوٹی مچھلیوں کے لئے  ہی سمندر میں جال بچھاتے ہیں، اگر کوئی بڑی مچھلی آجائے تو اس کی ’’مدارات‘‘ کر کے اسے  بصد اہتمام واپس سمندر میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس پر صحافیانہ ذمہ داریاں انجام دینے والے ایک راست باز شخصیت نے ان مچھیروں سے سوال کیا کہ آپ  بڑی مچھلیوں کو کیوں چھوڑ دیتے ہیں، انہیں بھی پکڑ کر چھوٹی مچھلیوں کی طرح منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچاتے۔ اس مچھیرے نے  سوال کے جواب میں سوال کیا کہ آپ کی پولیس جب یہی کام کرتی ہے تو اسے کوئی نہیں پوچھتا ۔آپ میں اگر’’جرأتِ صحافیانہ‘‘ہے  تو پولیس سے  سوال کریں کہ تم بڑی مچھلیوں کو کیوں نہیں پکڑتے۔ پولیس جو جواب دے گی، وہی جواب  ہمارا بھی ہوگا۔ یہ  سن کر صحافی بغلیں جھانکنے لگا۔یہ باتیں سن کر اس ٹاٹیے نے کہا کہ مجھے 90دن کی حکومت مل جائے  تو سب  سدھر جائے گا ، میں ہر اہم عہدے  پر ٹاٹیے بٹھا دوں گا جو خیبر تا کشمور سب کو  چوکڑیاں بھلا دیں گے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں