Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاپے!اے دبئی ایاپوٹ اے،او ہیتھو ،کیا ایاپوٹ سی

 
تیسری دنیا کے جوڑے کے ہاں پہلی دنیا کے باشندے کی پیدائش، گمبھیر مسئلہ
”نذیراں،نیں نذیراں!ایہہ مصیبت نوں پھڑ ،تے نال دی منجی تے لما پادے“
شہزاد اعظم۔جدہ
زبان،کتنی پیاری چیز ہے۔اگر یہ نہ ہوتی تو اخبارات شائع ہوا کرتے نہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات، جذبات اور احساسات سے واقف ہو پاتے۔دولہا نکاح کے وقت کیسے کہتا کہ ”جی ہاں مجھے قبول ہے“۔دلہن کو شاید کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ کم از کم ہمارے ہاں تو آج بھی نکاح کے وقت وہ خاموش ہی رہتی ہے۔اس کے والدین اور گواہ،تین مرتبہ پوچھتے ہیں کہ ”تمہیں فلاں شخص کے نکاح میں دیا جا رہا ہے،تمہیں قبول ہے؟“تیسری مرتبہ بھی جب وہ جواب نہیں دیتی تو بڑے یہ کہتے ہیںکہ”خاموشی کا مطلب اقرارہی ہوتا ہے“۔یوں یہ بیٹی،والدین کے لئے پرائی ہو جاتی ہے۔
زبانیں کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ان میں ایک مادری زبان ہوتی ہے جسے ”ماں بولی“بھی کہا جاتا ہے۔کچھ زبانیں اکتسابی بھی ہوتی ہیں جنہیں ماحول کے تناظر میں اختیار کیا جاتا ہے تاکہ اپنا کام چلا سکیں۔اس اکتسابی زبان سے بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی واقف ہوگا کیونکہ وہ جس ملک میں بھی جاتے ہیں انہیں وہاں کی زبان سمجھنی اور بولنی پڑتی ہے۔
ایک زبان نصابی ہوتی ہے جو ہر طالبعلم کو پڑھنی پڑتی ہے۔ہمارے ہاں انگریزی،نصابی زبان شمار کی جاتی ہے۔اسے دوسرے لفظوں میں پڑھے لکھوں کی زبان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جو شخص انگریزی بولے اسے ہم لاشعوری طور پر ”اعلیٰ تعلیم یافتہ “سمجھ لیتے ہیں۔
زبان کی ایک قسم ”پیدائشی زبان“بھی ہے۔اس زبان سے اس وقت پالا پڑتا ہے جب نومولودکسی تارک وطن کے ہاں جنم لیتا ہے۔مثلاًہمارے ایک دوست برطانیہ میں” جمے جمائے “ہیں۔ان کے بچوں کی مادری اور پدری زبان اردو ہے اس کے باوجود وہ فر فر انگلش بولتے ہیںکیونکہ انگلش یا انگریزی ہی ان کی ”پیدائشی“زبان ہے۔ہمارے دوست کے بچے جس اسپتال میں پیدا ہوئے وہ بھی برطانوی ہی تھا۔وہاں کام کرنیوالی نرسیں بھی برطانوی ہونے کے ناتے انگلش بول رہی تھیں اس لئے بچے نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی جو کچھ سنا وہ انگلش میں ہی تھا۔نرس نے کہا،”ہا¶ کیوٹ بے بی“۔ہماری پیدائشی زبان انگریزی ہرگز نہیں کیونکہ ہم نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو نرس کی آواز کچھ یوں آئی تھی”نذیراں،نیں نذیراں!ایہہ مصیبت نوںپھڑ ،تے نال دی منجی تے لما پادے“۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ انسان دنیا میں آنے سے قبل شکم مادر میں ہی اس زبان سے آشنا ہوجاتا ہے جو اس کی ماں بولتی ہے۔ہماری فطانت دیکھئے کہ سائنس نے تو آج اس بات کا ”انکشاف“کیا جبکہ ہم لوگ تو اسے پہلے سے ہی مادری زبان کانام دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص اپنی مادری زبان سب سے بہتر انداز میں بول اور سمجھ سکتا ہے۔اس کا تلفظ ”سند‘’کا درجہ رکھتا ہے۔
انگریزی کو بحیثیت مادری زبان بولنے والوں نے عام گفتگو میں مختلف اصول اپنا رکھے ہیں ۔آج ہمیں جس اصول سے سروکار ہے ہم صرف اسی کی بات کرینگے۔وہ اصول یہ ہے کہ اگر انگریزی کے کسی لفظ کے درمیان اور خصوصاً آخر میں”R“آ جائے تو اسے بولا نہیں جاتا یا کم از کم اس پر زور نہیں دیا جاتا۔مثلاً”sir“کو ہم لوگ تو ”سر“ہی پڑھتے ہیں مگر انگریز جب اسے پڑھتا ہے تو ”سا“جیسا آہنگ پردہ سماعت سے ٹکرا کر رک جاتا ہے۔
ہمیں ایک ”حقیقہ “یاد آگیا۔ایک مرتبہ ہم دبئی ایئرپورٹ کے لاونج سے باہر نکل کر ہوٹل کی بس میں سوار ہوئے۔وقفے وقفے سے مسافر آکر اس بس میں بیٹھ رہے تھے۔اسی دوران انگلینڈ سے آنیوالا ایک سکھ جوڑا 6فٹ قامت کے کڑیل جوان بیٹے کے ساتھ آ کر بس میں بیٹھ گیا۔اپنے ماں باپ کی طرح اس نوجوان کی مادری زبان بھی” گرومکھی“ ہی تھی مگر اس کی ”پیدائشی زبان“ انگریزی تھی۔یہ خاندان ہیتھیرو ایئرپورٹ سے دبئی پہنچا اور چند گھنٹے ہوٹل میں قیام کے بعداسے ہندوستان کے لئے روانہ ہونا تھا۔یہ نوجوان اپنے پیدائشی ”وطن“انگلینڈ سے بیحد متاثر نظر آرہا تھا جبکہ اس کے اماں،ابا اسے اپنا آبائی وطن دکھانے کے لئے ہندوستان لے جارہے تھے۔طرز عمل سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کالج یا یونیورسٹی کی تعطیلات انگلینڈ میں ہی گزارنا چاہتا تھا اور ماں باپ اسے زبردستی ہندوستان لے جا رہے تھے۔اس لئے وہ بات بات پر برہمی اور بیزاری کا مظاہرہ کر رہا تھا اور تیوری پر بل ڈالے اپنے والد کوبار بار زبردستی مخاطب کر کے اپنی ”مادری اور پیدائشی“ زبان کے باہمی اختلال سے جنم لینے والی ”گلابی زبان“میں یوںاستفسار کر رہا تھا ،پاپے! ایہہ ”ایاپوٹ اے؟او ہیتھوایاپوٹ سی ایہہ دبئی ایاپوٹ اے؟جب 10مرتبہ کے استفسار کے باوجود اس کے والد نے کوئی جواب نہ دیا تو ہم نے اپنی جھنجھلاہٹ دورکرنے کے لئے اس کی مدد کی اور کہاکہ ”آہو!یہی دبئی ایئرپورٹ اے“ ۔اس نے کہا ”توں چپ کا“۔یہاں بھی وہ ”کر“میں سے ”ر“کھا گیا کیونکہ یہ بھی انگریزی کے ”R“کا قائم مقام ہے۔پھر بولا،پاپے!ایہہ دبئی ایاپوٹ اے،او ہیتھو سی،کیا ایاپوٹ سی،ایہہ دبئی ایاپوٹ اے“۔
ہم حیران تھے کہ اسے دبئی ایئرپورٹ پسند نہیں آیا جو دنیا کے عالیشان ایئرپورٹس میں سے ایک ہے۔ہم نے اس نوجوان کے ”پاپے“سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ انکے جواب کاا ردو ترجمہ یوں تھا کہ ہم اپنے بیٹے کو پہلی مرتبہ ہندوستان میں اپنا آبائی شہر ہلواڑا دکھانے لے جا رہے ہیں مگردل ڈر رہا ہے کہ ہمارا بیٹا دبئی کا ایئرپورٹ دیکھ کر بیزاری اور جھنجھلاہہٹ کا اظہار کر رہا ہے وہ ہلواڑا پہنچ کر کیا کریگا؟اس کے ماں باپ سوچ رہے تھے کہ تیسری دنیا کے جوڑے کے ہاں پہلی دنیا کے باشندے کی پیدائش واقعی گمبھیر مسائل پیدا کر دیتی ہے۔
 
 
 
 

شیئر: