Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تباہ کن جاگیردارانہ نظام

 * * *  خلیل احمد نینی تال والا* * *                                                                                              

    قوم نے پاکستان کا 70واں جشن آزادی بہت زور وشور کے ساتھ منایا اور اربوں روپے جھنڈیوں اور ریلیوں میں خرچ کر ڈالے۔ جشن آزادی منانے پر اعتراض نہیں ،یہ قوم کی خوشی کا دن ہے، اگر انہی روپوں سے ہم ملک بھر میں اس دن نئے پودے لگاتے تو اگلے چند سالوں میں یہ درخت بن کر خوشحالی لاتے ،خوبصورتی میں اضافہ کرتے اور سایہ بنتے ۔پھر یہ ایک مثبت روایت بنتی اور اگلے سال اور جوش وجذبے کے ساتھ ہم اس رسم کو آگے بڑھاتے اور یہ ہمارا سرمایہ محفوظ بھی رہتا اور آگے بھی بڑھتا۔
    ہم نے یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔افسوس ہمارے سیاستدانوں نے اس کو 70سالوں سے لوٹ لوٹ کر کنگال کرکے مقروض بنا دیا ہے اور عوام ہر 5سال کے بعد ان کو دوبارہ ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرکے پھر پچھتاتے ہیں ۔وہی سیاستدان آپس میں گٹھ جوڑکرکے دوبارہ نئے نئے طریقوں سے لوٹنے لگ جاتے ہیں ۔اگر چہ کم وبیش ایسا ہی لوٹ مار کاکاروبا ر ہمارے پڑوسی ملک  ہندمیں بھی سیاست دان عوام کے ساتھ کررہے ہیں مگر وہاں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کرپشن کی سطح ہم سے بہت کم ہے ۔اس کے برعکس وہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے عوام پڑھے لکھے ہوچکے ہیں وہ اب ان سیاستدانوں کو اچھی طرح جان چکے ہیں ۔سڑکوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اسی وجہ سے ہندایک دن بعد آزاد ہونے کے باوجود ہم سے بہت آگے جاچکا ہے۔
    ہند کو پروان چڑھانے میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اُن کی ٹیم نے بنیادی کردار صرف جاگیرداری کو ختم کرکے انجام دیا تھا جس کا پھل اس کے عوام 70سال سے کھارہے ہیں اورجس کے باعث عوام میں تعلیم کا شعور پیدا ہوا،غربت میں ہم سے زیادہ کمی ہے اور ترقی میں وہ دنیا کے اب 20ترقی پذیر ممالک G.21گروپ میں شامل ہوچکے ہیں مگر افسوس ہمارے ملک سے جاگیر داری کو ختم کرنے کے بجائے اس کو مضبوط بنانے کا گھناؤنا کردار آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے 70فیصد یعنی 2تہائی عوام آج بھی تعلیم سے محروم ہیں ۔
     اکثریت 70سال گزرنے کے بعد بھی گائوں ،دیہاتوں میں رہتی ہے اور یہی جاگیردار اُن سے اپنے مرضی سے ووٹ ڈلواکر اپنی بالادستی کو ثابت کرکے اس قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور جس نے بھی ان جاگیرداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی تو پورے ملک کے ہر صوبے سے انہوں نے مل کر اس کوشش کو ناکام بناکر نظام کو نہیں بدلنے دیا ۔یہی عوام کے تباہی کے ذمہ دار ہیں اور ان کو جاہل رکھ کر ان پر حکومت کررہے ہیں ۔
    دوسری تبدیلی ہند میں صوبوں میں اضافے کے وجہ سے بھی ترقی کے رفتار بہت تیز رہی ہے ۔ہندآزاد ہواتو 13صوبے تھے ۔70سال میں 36صوبے بن گئے جن میں 7یونین ٹیریٹریز بھی شامل ہیں ۔گویا 29بھر پور صوبوں کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ کم حقوق کی 7یونین ہیںکیونکہ ریاستیں ختم اور جاگیرداری نظام ختم ہوچکا تھا لہذا عوام میں شعور پیدا ہواتو نئے نئے صوبوں کا مطالبہ رہا ۔تو ہر 2سال بعد نئے صوبوں کا رجحان بڑھا تو آج 13صوبے بڑھ کر 36صوبے بن چکے ہیں ۔
    ہمارے ان جاگیرداروں ،نوابوں ،زمینداروں نے نئے صوبے نہیں بننے دیئے بلکہ سب سے زیادہ نقصان کراچی کو پہنچا جو پاکستان کا دارالحکومت تھا ساتھ ہی ایک مکمل بڑا صوبہ بھی تھا۔ اسلام آباد کو دارالحکومت بنا کر کراچی کا کردار ختم کیا ۔پھر اس آزاد صوبے کراچی کو سندھ میں ضم کرکے صوبہ کادرجہ بھی چھین لیا اسی طرح خیر پور او ربہاولپور بھی الگ الگ صوبے تھے ان کو بھی بالترتیب سندھ اور پنجاب میں ضم کرکے ان کے عوام کو بھی محکوم بنا ڈالا۔وہ آج تک سرائیکی صوبے کاخواب دیکھ رہے ہیں ۔
    راقم نے کئی مرتبہ حکمرانوں اور عوام کو نئے صوبوں کی افادیت سے آگاہ بھی کیا ۔اس پر ایک مفصل تجزیہ اور دنیا کے 200ممالک کی مثالوں پر مشتمل ایک کتاب 5سال قبل" صوبے کیوں ضروری ہیں"بھی لکھی ۔جس طرح ماضی میں کئی کمیشن بھی بنے انہوں نے بھی اپنی اپنی رپوٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی 20کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود نئے صوبے نہیں بنائے گئے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کی دیگر ممالک کی طرح عوام کو ان کی بنیادی حقوق اورسہولیات فراہم کرنے میں ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔
    جب تک یہ جاگیردارانہ نظام قائم ہے یہ جاگیردار حضرات اپنے اپنے صوبوں پر قابض رہیںگے اور اپنی من مانیاں کرکے اُن کے حقوق دباتے رہیں گے اور عوام اُن کے غلام ہی رہیں گے۔نہ وہ تعلیم حاصل کرنے دینگے، نہ ان کو بنیادی حقوق دیں گے تا کہ وہ ان کے مزارع ہی رہیں ۔یہی جاگیردار ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر 70سال سے قابض ہیں اور اپنے مطلب کے قوانین بنا بناکر خود امیر سے امیر تر اور عوام کوغریب سے غریب تر بناکر اپنا الو سیدھا کررہے ہیں ۔یاد رکھیں جب تک عوام پر تعلیم کے دروازے نہیں کھلیں گے ان میں شعور پیدا نہیں ہوگا اور جب شعور نہیں ہوگا تو وہ اپنے حقوق کے حفاظت کیسے کریں گے ؟تو ان جاگیرداروں سے نجات بھی نہیں ملیگی، یہی ناکامی کی وجوہ ہیں ۔
    تیسرا اہم کام یہ ہے کہ ہندوستانی سیاستدانوں نے ٹیکنیکل کاموں میں دخل اندازی نہیں کی اور شروع ہی سے بڑے چھوٹے ڈیم بناتے گئے تاکہ کشمیر کے پانی کے غلام نہ رہیں مگر اسکے برعکس ہمارے سیاستدان ڈیم نہ بنانے کی سیاست کرتے رہے اور بڑے ڈیم خاص کر کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیا اور آج ہم بجلی اور پانی کا رونا رورہے ہیں مگرپھر بھی صوبائی عصبیت کا شکار ہیں۔
    ہرسال ہند اس سے فائدہ اٹھاکر اپنا اضافی پانی ہمارے خشک دریائوں میں چھوڑ کر سیلاب کا رُخ ہماری طرف موڑ دیتا ہے۔ جب تک عوام اس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے ہم خشک سالی اور سیلابی تباہی کا شکار رہیں گے ۔خدارا کم از کم ان 3مسئلوں کو حل کرکے عوام کو سکون کا سانس لینے دیں ۔

   

 

شیئر: