Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

من چاہی غزل قیمتاً عطا کرنےوالی ”بیک ڈورایپلی کیشن“

 
  ہنگامی حالت میںمصرع طرح پر غزل ایک گھنٹہ میں مہیا کی جا سکے گی
مہتاب قدر۔جدہ
”بیک ڈور“ دنیا کا مشہور و مقبول ترین ذریعہ روزگارو پیچیدہ مسائل کا حل سمجھا جاتاہے۔ بعض پیشوں میں بیک ڈور کو دو نمبر کا کاروبار بھی کہا جاتا ہے۔ شعر و ادب میں بھی بیک ڈور کے شعرا ءو ادبا کے بارے میں بہت کچھ لکھاجا چکا ہے اور لکھا جاتارہے گا تاآنکہ یہ مرض جڑ پیڑ سے ختم نہ ہوجاے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے منسلک حضرات کا راہ راست پر آنابہت ہی مشکل ہے یعنی ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کے مصداق ایسے لوگوں کے گروہ میں اضافہ ہو سکتا ہے کمی نہیں۔
حضرات ! خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے سفر کے ساتھی مشہور ڈرامہ آرٹسٹ اور ڈرامہ نگار ،ہردلعزیز دوست جاوید دانش نے ایسے لوگوں کی مجبوری کو سہارا دینے کا ایک حل نکالا ہے سو ہم وہی تکنیکی حل پیش کرنے جارہے ہیں۔
دراصل ہماری تاریخ اردو شعروادب میں ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ اردو ادب کے شیدا ، محبان شعرو نثر اپنی کمی بیشیوں کے لئے اساتذہ سے رجوع کرتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں، جس سے استاذ اور تلمیذ کاایک مقدس رشتہ وجود میں آتاہے ۔ایسی روایات گزشتہ ادوار میں کم ہی ملتی ہے یعنی مفقود نہیں محدود ضرور ہے کہ لوگ اساتذہ سے استفادہ کرنے کی بجاے مالی اور منصبی استحصال کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کا بیڑا غرق کرتے ہوںاور نام نہاد اساتذہ اپنی معاشی اور معاشرتی مجبوریوں کے باعث ایسے افراد کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جاتے ہوں گویا آج کل ہی کیا ہماری تاریخ میں ایسے واقعات کسی نہ کسی تعداد میں ہمیشہ ملتے اور وقوع پذیر ہوتے رہے ہیںالبتہ فی زمانہ اس کا چلن بہت زیادہ محسوس کیا جانے لگا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج اس مسئلے کے حل کے ذریعے ان اساتذہ کی عزت و وقار بھی بحال کریں جنہیں اس طرح کی مجبوری درپیش ہو اور ان شریف لوگوں کی ضرورت بھی رازداری کے ساتھ پوری ہو جنہیں شاعری یا نثرنگاری پر عبور نہیں بلکہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سائنس اورٹیکنالوجی کے اس سنہرے ارتقائی دور میںجہاں دنیا بھر کے لوگ استفادہ کررہے ہوں، ہم اردو والے کیوں پیچھے رہیں اسی نکتہ فکرکے زیر اثر ہمارے دوست نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔ وہ فیصلہ یہ ہے کہ ہم ایک ایپلی کیشن بنانے جارہے ہیں جسے عرف عام میں ” ایپ“ بھی کہا جاتا ہے، اور ہمارے ایپ کا نام کچھ بھی ہو سکتا ہے مثلاً ”ضرورت شعری “، ”قلمکار بنئے“، ”پچھلا دروازہ“ یا”اردوپچھواڑہ “ وغیرہ۔من چاہی غزل و نظم قیمتاً عطا کرنے والی اس ایپلی کیشن کی تفصیلات کچھ یوں ہونگی:
اساتذہ کی ایک مخفی ٹیم ہوگی جس میں موجود تمام اراکین ایک دوسرے سے ناواقف اورلاتعلق ہوں گے۔اس ٹیم میں شعر اور نثر دونوں کے اساتذہ ہوں گے جن کے لئے ہم مایہ ناز کا دعویٰ تو نہیں کرسکتے مگر اتنا یقین ضرور دلا سکتے ہیں کہ وہ سب کے سب قابل اعتماد اساتذہ ہوں گے۔ ضرورت مند حضرات وخواتین کی جملہ معلومات اور تعارف کے ڈاٹا کے حوالے سے پوری رازداری ہمارے ایپ کا نصب العین ہوگا۔ فوری ضرورت کے پیش نظر یا کسی ہنگامی حالت میںمصرع طرح پر غزل ایک گھنٹہ میں مہیا کی جا سکے گی۔موضوعاتی نظموں کے لئے کم سے کم ایک دن کا وقفہ ناگزیر طور پردرکار ہوگا چاہے ہمارے اساتذہ کسی بھی موضوع پر بلا تحقیق ہی اپنا قلم اٹھائیں ۔اس طرح توارد کے امکانات پیدا ہوں تو ہمیں کوئی فکر نہیںکیونکہ ثابت ہے کہ” جیسا کروگے ،ویسا بھروگے۔
تحقیق کے لئے گزشتہ دور میں کہی گئی نظموں کا نظر غائر سے مطالعہ شامل نہیں ہے۔ جب ضرورت مند کوئی مصرع طرح ٹائپ کریگا تو فوراً تضمین کا مصرع لگادیا جائےگا اور پورا شعر بلنک یعنی جلتا بجھتا یا عرفِ عام میں ”جل بجھ“ہوتا رہے گا یہاں تک کہ صاحب ضرورت اپنے ویزا کارڈ کی تفصیلات درج نہ کردے۔ جب تفصیلات درج ہو جائیں گی تو پوچھا جاے گا کہ کتنے شعر کی غزل چاہئے ؟اسٹینڈرڈ کی 5 شعری غزل کا معاوضہ بھی اسٹینڈرڈ ہوگا۔اس سے زیادہ کے لئے چیٹ پر گفتگو کی جاسکے گی مگر یہ گفتگو اس ضمانت کے ساتھ ہو سکے گی کہ ایک دوسرے کی شناخت جانبین پر واضح نہیں ہو گی۔
کسی بھی ہونے والے شاعر کو ابتدائی مرحلے میں دن میں صرف ایک غزل عطا کی جاسکے گی ۔جب اس کی حیثیت مستند ہو جائے گی تو زیادہ کلام بھی پیش کیا جاسکے گا۔ پوری کتاب یعنی شعری مجموعے کے لئے ابھی انتظامات ناقص ہیں ۔جب پورے ہوجائیں گے تو عوام الناس کواطلاع دی جاے گی۔ خواتین یعنی لڑکیوں کو حسن صورت و حسن ِصوت کی بنیادوں پرترجیح دی جائے گی۔ لڑکوں کو اسٹیج پرفارمنس کی گارنٹی دینی ہوگی۔
ہماری ایپ آپ اپنے اسمارٹ فون پر ڈاون لوڈ کرسکیں گے مگر دھیان رہے کہ یہ ہمارا خیالی پلاﺅ ہے جو کسی ہانڈی میں پکے تو ہانڈی کے اندر دھماکو کیفیت پیدا ہونے کا شدیداندیشہ ہے۔ اس لئے اس پر بھروسہ نہ کریں ورنہ بہت پچھتائیں گے اور آپ کی شخصیت کے راز بھی کھل جانے کاخدشہ ہوگا۔آخر ہم بھی تو شاعر ٹھہرے، اتنا کام ہم سے کیا ہوگا۔اگر شاعر نہ ہوتے تو شاید ہم بھی آدمی تھے کام کے۔
کاش ایسا ہو سکتاتو کتنا اچھا ہوتا۔ اس سے ہمارے قومی اور بین الاقوامی مشاعروں کی رونقیں مزید بڑھ جاتیں اور نت نئے جواںسال دوست بلا تفریق صنف، ہماری فہرست میں اضافے کا سبب بنتے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: