Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”جہات“:”ہمارا لہجہ نہ دہلی، نہ اصفہان کا ہے“

 
مجاہد سیدکوہر طرف ظلم کی حکمرانی نظر آتی ہے، وہ حرفِ احتجاج نوکِ قلم پر لاتے ہیں
ڈاکٹر اے غفور شاہ قاسم۔لاہور
خار زار صحافت سے مرغزار شاعری تک مجاہد سید کی قلمکاری اور تخلیق کاری کا سفر ثبات تسلسل کا غماز ہے۔ ان کے تخلیقی سفر کا پہلا پڑاو "حرف معتبر"تھا اور دوسرا "جہات"ہے۔ ایک سو غزلیات ، ایک حمدپاک اور ایک نعت طیبہ پر مشتمل یہ مجموعہ غزل کے مختلف رنگوں سے مزین ہے۔ مجموعے میں شامل غزلیات شاعر کے مشاہدات اور تجربات کا موثر اظہار اور تخلیقی استعداد کا عملی ثبوت ہیں۔ مجاہد سید کی غزلیات کا منظر نامہ داخلی اور خارجی مظاہر سے مرتب ہوا ہے۔ وہ اپنے محسوسات کو موزوں پیرایہ¿ اظہار ، ملائم لفظیات اور برمحل استعارات کے ذریعے قارئین ادب تک پہنچانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ مجاہد سید کے مشاہدات عمیق اور تجربات بسیط ہیں۔ 
غزل کی شاعری محض خیال کی ترسیل اور خوبصو رت الفاظ کے چناوکا نام نہیں ہے۔ غزل ادبی روایات اور اقدار کو سلیقے سے برتنے کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ اس مجموعے کا شاعر غزل کی مضبوط روایات اور اقدار سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ ہمارے اردگرد بے شمار موضوعات بکھرے ہوئے ہیں۔ عام آدمی انہیں سرسری طور پر دیکھتا ہے او رنظر انداز کر دیتا ہے لیکن ایک حساس اور باشعور تخلیق کار قابل توجہ موضوعات سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے چنیدہ موضوع کو اپنے تخلیقی تجربے اور احساس کی بھٹی میں تپا کر اپنی شخصیت کا جزو بنا لیتا ہے۔ اس طرح وہ جب اس موضوع کو شعری پیکر میں ڈھالتا ہے تو شاعرانہ لطافت ، تازگی اور تاثیر اس کا ناگزیر حصہ بن جاتی ہے۔ یہ سب خصوصیات اس شعری مجموعے کی ہر غزل میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ 
مجاہد سید دولتِ احساس سے سرفراز ہیں اور اس کو تخلیقی اظہار کے قالب میں ڈھالنے پر دسترس رکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں ان کا یہ شعری مجموعہ احساسات کا آئینہ خانہ دکھائی دیتا ہے۔ شاعر کے ذاتی تجربات ، مشاہدات اور احساسات ان کے اشعار کے بین السطور پوشیدہ ہیں۔ ادب کا پختہ اور سنجیدہ قاری پڑھتے ہی ان تک رسائی پا لیتا ہے۔ امت مسلمہ کے ایک دردمند اور حساس فرد کے یہ تاثرات دیکھئے:
کوئی دیکھے نہ یہ آزار میرے
ہیں سارے مرحلے دشوار میرے
مرے بغداد و بصرہ لٹ چکے ہیں
بھٹکتے ہیں سپاہی خوار میرے
ہند سے جدید غزل گوعرفان صدیقی اور پاکستان کے منفرد تخلیق کار محمد اظہار الحق سے قلبی، فکری اور تخلیقی ہم آہنگی اور مماثلت اس مجموعے میںشامل ہر غزل سے عیاں ہے۔ 
"جہات"کا مقدمہ ڈاکٹر تابش مہدی نے تحریر کیا ہے او ربڑی عمدگی سے شاعر کے شعری امتیازات کی نشاندہی کی ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر احمد محفوظ کا مختصر مگر جامع تجزیہ شامل ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
”مجاہد سید کے یہاں جو استعارے زیادہ کام میں لائے گئے ہیں ان میں سمندر اور ہوا کو بنیادی کہا جا سکتا ہے۔ یہ استعارے اگرچہ نئے نہیں کیونکہ جدید شعراءنے انہیں مختلف النوع جہات سے بڑی تازگی کے ساتھ استعمال کیا ہے تا ہم مجاہد سید کے یہاں سمندر اور ہوا کو جابہ جانئے پہلووں کے ساتھ اس طرح برتا گیا ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ جدت اور تازگی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ یہاں یہ استعارے ہلاکت خیزی ، ہولناکی اور پرآشوب حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اس حوالے سے راقم زیر نظر کتاب سے یہ اشعار بطور مثال پیش کرنا چاہے گا:
جو ٹھہری ٹھہری ہوا ساحلوں پہ ہے سید
اشارہ یہ بھی سمندر میں اب اٹھان کا ہے
٭٭٭
سمندر ہر طرف پھیلا ہوا ہے
کہ آنکھوں کو مری دھوکا ہوا ہے؟
٭٭٭
شدتِ حبس سے گھٹ نہ جائے دم بستی کا
ایک خلقت مِرے اللہ! ہوا ڈھونڈتی ہے 
٭٭٭
جنوں کے ہاتھ میں دفتر ہے میرا
سفر جیسے ہواوں پر ہے میرا
٭٭٭
ہم جن کے بل پہ کشتی کو لائے تھے اتنی دور
وہ بادبان بیچ سمندر میں پھٹ گئے
نقل مکانی نئی دنیائے معانی سے مکالمے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے۔ گھر ، مسافر ، مسافتیں، ہند کے شہری، جدہ میں مقیم اس شاعر کے لاشعور کا حصہ بن گئی ہیں۔ مسافرت اور مہاجرت کے کرب نے مجاہد سید کی غزل کو نئے جہانِ تخلیق سے روشناس کرایا ہے۔ ان شعروں کے آئینے میں ان کی قلبی کیفیات دیکھی جا سکتی ہیں: 
سفر کی اب صعوبت کا اثر ہوتا نہیں کچھ 
جو گردِ راہ کو ہم نے لبادہ کر لیاہے
جہاں کوہِ ندا ، غولِ بیابانی کا تھا خوف
سفر ہم نے وہاں کا پا پیادہ کر لیا ہے
٭٭٭
کون سی وادی میں اترے ہیں مسافرلوگو
جانے والوں کو یہاں کوئی صدا ڈھونڈتی ہے
مجاہد سید ایک مضطرب اور بے قرار روح کے مالک ہیں جنہیں اپنے اردگرد ہر طرف ظلم اور ناانصافی کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ وہ اس صورتحال پر حرفِ احتجاج نوکِ قلم پر لاتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک رجائیت پسند، راست فکر اور مثبت سوچ رکھنے والے تخلیق کار ہیں۔ وہ اپنی تخلیقی آگ کو عزم نو کے آہنگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک رجائیت پسند ، راست فکر اور مثبت سوچ رکھنے والے تخلیق کار ہیں۔ وہ اپنی تخلیقی آگ کو عزم نو کے آہنگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ غم دوراں ہو یا غم جاناں وہ ان کا مقابلہ صبر و ثبات اور ضبط و انضباط سے کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کا مضبوط پہلو ہے ۔ یہ شعر دیکھئے٭
ہمارے دل سے آنکھوں تک ہے سیلاب بلا سید
سبک سر ضبط غم ہو، یہ مگر اچھا نہیں لگتا
ان کی رجائیت پسندی کا یہ زاویہ بھی دیکھ لیجئے:
اے انقلاب نو کے طلب گار دیکھنا
پَر ظلمتوں میں صبح کے آثار دیکھنا
انہوں نے اپنی شاعری کا تجزیہ خود اپنے شعروں میں نہایت خوبصورتی سے کیا ہے۔ سو اس مختصر تعارف نامہ اور تبصرے کا اختتام انہی کے ان اشعار پر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے: 
یہ اہل دل کا ہے، اور عشق کی زبان ہے
ہمارا لہجہ نہ دہلی، نہ اصفہان کا ہے
٭٭٭
میر کی صورت لو ہو رو کر سید جیون کا ٹ دیا
زخموں کو جب ہم نے سجایا غزلوں کا دیوان کیا
جدہ سے براستہ ہند موصولہ اس شعری سوغات کا ہم کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں او راسے خوش آمدید کہتے ہیں۔
 
 
 
 

شیئر: