Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوجوانوں کی ذہنی شکست و ریخت کا باعث،غیر یقینی مستقبل

 شفقت نہ ملے تووہ کسی ایسی ہستی کو تلاش کرتے ہیں جو انکے مسائل سنے اور مشورہ دے
 تسنیم امجد۔ریاض
آج کے معاشرتی حالات کے اثرات اکثر گھروں میں نظر آ تے ہیں۔والدین کا اپنی اپنی ذمہ داریو ں میں اس طرح مصروف رہنا کہ بچو ںکے متا ثر ہو نے کا انہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔کیسی محبت ہے یہ جوصرف انہیں بنیادی ضروریات مہیا کرنے تک محدودہے۔ شفقت نہ ملنے کے باعث وہ کسی ایسی ہستی کو تلاش کرتے ہیں جو ان سے بات کرے ،ان کے مسائل سنے اور کوئی مشورہ دے ۔جب یہ سب میسر نہ آنے کی وجہ سے وہ او ٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگتے ہیںتو انہیںبگڑے ہوئے بچے کہہ کر مزید ٹینشن میں رکھا جاتا ہے۔کسی کو فرصت نہیں کہ ان کے احسا سات کو سمجھے۔
دانیہ کل ہی اپنی دادی سے والدین کی لا پر وائی کی شکا یت کررہی تھی جنہیں حج کے لئے بلا یا گیا ہے ۔دادی نے اسے سینے سے لگا کر رات اپنے پاس سونے کے لئے کہا۔رات گئے بیٹا اور بہو کسی دعوت سے لو ٹ کر اماں کے کمرے میں گئے تو دانیہ کو وہا ں سوتے دیکھ کر بولے ،یہ آپ کو تنگ کرے گی۔اماں بولیں14،پندرہ برس کی بچی نے کیا تنگ کرنا ہے؟ لیکن وہ اسے اٹھا کر اس کے کمرے میں چھو ڑ آئے۔دادی اس وقت تو خاموش رہیں لیکن صبح نا شتے کی میز پر نہ گئیںاور بولیں تم لوگو ں کو میں تنگ نہیں کرنا چاہتی۔اپنی اپنی زندگی جیو۔حج کے بعد پہلی فلائٹ کے ذریعے واپس آجانا، مہربانی ہو گی۔
اما ں کے طویل لیکچر کے بعد احسا سِ ندامت سے دونوں کے سر جھک گئے ۔کہنے لگیںکہ بچپن زندگی پر گہرے نقوش چھو ڑتا ہے۔ والدین اس حقیقت کو نظر انداز کر تے ہو ئے اپنی مصرو فیات کو تر جیح دیتے ہیں۔اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ انہی کے لئے تویہ سب کر رہے ہیں۔ کاش یہ حقیقت سمجھی جائے کہ بچے ہی والدین کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں ۔بچو ں میں خوف ،غصہ اور محبت کے تین وا ضح جذ بات پائے جاتے ہیں۔انہی پر ان کے مستقبل کی عما رت تعمیر ہو تی ہے ۔ان کے جذ بات کو سمجھنا بہت آسان ہے کیو نکہ یہ معصو م ہر قسم کی ہیرا پھیر ی سے پاک ہو تے ہیں۔بچو ں کو اپنی مصروفیات میں شریک کرناہی عقلمند ی ہے ۔اس طرح وہ اپنے وجود کی اہمیت کو پہچا نتے ہیں۔
ما ضی میں مائیں گھر گر ہستی میں اور باپ باہر کی ذمہ داریوں میں بچو ں کو ٹا سک دے دیتے تھے ۔ہمیں یاد ہے کہ آپا کی ڈیو ٹی ہر دعوت پر قورمہ بنانے کی ہوتی تھی۔ایک مرتبہ انہیں پیاز صحیح گرا ئنڈ نہ کرنے پر خوب ڈانٹ پڑی۔آپا کا کہنا ہے کہ اس دن کے بعد میں اس ڈش میں ماہر ہو چکی ہو ں۔جب بھی قو رمہ پکانے لگتی ہو ں، وہ دن یاد آ جاتا ہے ۔سسرال میں میرے قورمے کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔اماں گھر کے ملازمین کی موجودگی میں بھی چھٹی کے دن کے کام ہم سب بہن بھائیوںمیں بانٹ دیا کرتی تھیں۔ ملازموں کو باہر کے کسی کام پر لگا دیتیں۔کچن ،برتن ،استری اور صفا ئیا ں ،کیاکچھ ہم سے نہیں کروایاگیا۔ ایسے میں کوئی انجان ہمیں دیکھ کر یہی سوچتا کہ ہماری اماں سوتیلی ہیں۔ انجام یہ ہوا کہ ہمیں ہا سٹلز کی زندگی نے پریشان نہیں کیا ۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ بچو ں کو بچپن سے ہی کام کی عظمت سے رو شناس کرانے کے فوائد عمر بھر ساتھ دیتے ہیں۔ما ضی ہو یا حال، روایات کبھی بدلی ہیں اور نہ بدلتی ہیں۔افسوس آج امیر گھرا نوں کے علاوہ متو سط گھرا نو ں میں بھی ننھیال و دد ھیال والے بچو ں سے کام نہ لے کر اپنی محبت کا اظہارکرتے ہیں جبکہ گھر کے کا مو ں میں منا سب شرکت سے نہ صرف بچو ں کی معلو مات میں ا ضافہ ہو تا ہے بلکہ ان کی سیرت و ا خلاق کی بھی تر بیت ہو تی ہے ،خود اعتمادی آتی ہے۔یاد رکھئے ،بچے ہمارا کل ہیں۔ان کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب والدین بچو ں کو وقت دیں ۔ان کی قربت سے ہی مزاجوں کی جانچ ممکن ہو سکتی ہے۔ہمارے ہا ں بد قسمتی سے ایک ہی رحجان ہے کہ بچوں کو بچپن سے یہی سبق پڑ ھا دیا جاتا ہے کی آپ کو ڈاکٹر یا انجینیئربننا ہے۔اس کے لئے انہیں کتابی کیڑا بننا پڑے تو والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔انہیں تمام سماجی معا ملات سے کا ٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔اس سے نہیں ملنا ،وہا ں نہیں جانا،یہ کرنا ہے وہ نہیںکرنا۔یہی سنتے اور کرتے بچپن بیت جاتا ہے ۔سن شعور کو پہنچ کران کی عادات میں تنہا ئی ،اداسی اور چڑ چڑا پن آ جاتا ہے۔ والدین کو یہ بھی نہیں بھاتا اور ڈانٹ ڈپٹ کر انہیں سب سے ملنے کے لئے کہا جاتا ہے ۔اس نفسیاتی کشمکش میں وہ والدین سے دور ہو جاتے ہیں ۔والدین اس بھول میں رہتے ہیں کہ نصابی کتب ان کی تربیت بھی کر رہی ہیں ۔ایسے بچے سیلف فنا نسنگ میں بھی مناسب نتائج دینے سے قا صر رہتے ہیں ۔
حال ہی میں ایسے طلباءکی طویل فہرست دیکھنے کا اتفاق ہوا جن کے والدین سخت پریشانی میں تھے۔انہو ں نے اپنی کم آ مدنیو ں کے باوجود اولاد کو میڈیکل کالجوں میں سیلف فنانس اسکیم کے تحت داخل کرایا ۔ان کی شکایات سن سن کراپنی غلطیو ں کا احساس کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا ۔ایک صا حبہ تو کہنے لگیں کہ میری بیٹی نفسیاتی مریضہ بن چکی ہے۔3 سال سے ایک ہی سمسٹر میں ہے ، آگے نہیں بڑ ھ پا رہی ۔شرمندگی کا بھی سامنا ہے۔
والدین سے گزارش ہے کہ خود بچوں کی تر بیت کا سلیقہ سیکھیں۔ان کے میلان سے ہٹ کر ان پر کو ئی بو جھ ڈالنے کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ان کی تر بیت کے مختلف مدارج ہیں ۔خالی کتا بیں تو وزن لا دنے کے مترادف ہو ں گی ۔اولاد کو اعتماد کی دولت دیجئے۔ گھر کی ذمہ داریوں میں ان کا حصہ بھی ڈالئے۔ اکثر گھرانوں میں بچوں کی کچھ عادات پر اس طرح سے نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ یہ تو وراثت کا تحفہ ہے ۔یہ سب جذ باتی وار ہیں جن کے اثرات بہت دیر پا ہوتے ہیں۔احساس کمتری کا شکار بچے زندگی کے چیلنجز کا مقا بلہ نہیں کر پاتے۔نکتہ چینی بہت غلط اثرات مرتب کرتی ہے ۔
ایک ہی گھر میں دو بچو ں کے ذہنی میلان میں تفاوت ممکن ہے۔اس لئے تر بیت کے دوران اسے مدِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔ایک صاحب کا کہنا ہے کہ وطن سے دور والدین نہا یت بے بس ہیں۔پہلے نمبر پر وہ جو توجہ نہیں دے پاتے،دوسرے وہ جو کسی نہ کسی طرح انہیں باہربھیج دیتے ہیں،تیسرے وہ جو گھر بیٹھے آن لائن ڈگریاں حا صل کرتے ہیں۔ان سب کاوشوں کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے۔ہماری حالت ایسے پرندے کی سی ہے جو منڈیر پر بظاہر پر سکون نظر آتا ہے لیکن اس کے سر کی جنبش اس کی دلی کیفیت کا پتہ دیتی ہے ۔غیر یقینی مستقبل ، نوجوانوں کی ذہنی شکست و ریخت کا باعث ہوتا ہے۔اساتذہ کی بے رحمانہ لو ٹ کھسوٹ ،ہمیں بے بس کر ڈالتی ہے ۔ایسے میں قسمت سے شکوہ کرنے کے سوا کچھ پاس نہیں ہو تا ۔وہ بھی کیا دور تھا جب اولاد کو اصل سرمایہ حیات سمجھا جاتا تھا ۔آج کی معاشرتی تفریق نے اولاد کو مایو سی کا شکار کیا ہے ۔آئیے ان حالات کا تدارک مل جل کر کریں کیونکہ یہی بچے تو ہمارا مستقبل ہیں۔ 
 
 
 

شیئر: