Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمرات پل، عظیم الشان منصوبہ

عازمین حج کو ارض مقدس میں دسیوں خدمات درکار ہوتی ہیں۔ سعودی عرب یہ خدمات احسن طریقہ سے فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سعودی عرب ہر سال گزشتہ برس کے مقابلہ میں نئی خدمات کااضافہ کرتا ہے۔ گزشتہ برس پیش کی جانے والی خدمات سے نئے برس کی خدمات کا معیار زیادہ بہتر بناتا ہے۔ حج انتظامات پر مسلسل نظر رکھنے والے بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ حج کا کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب خدمات میں کوئی اضافہ نہ ہوتا ہو، سال گزشتہ کے مقابلہ میں بہتری نہ آتی ہو۔
حج اجتماع دنیا کا منفرد اجتماع ہے،ایسا اجتماع کبھی کہیں نہیں ہوتا۔ لاکھوں عازمین ایک وقت میں ایک مقامِ حج سے دوسرے مقام حج کا رخ کرتے ہیں۔ شان یہ ہے کہ عازمینِ حج کسی ا یک ملک ، کسی ایک قوم اور کسی ایک خطہ کے نہیں ہوتے، یہ سب الگ الگ علاقوں کے ہوتے ہیں۔ ان کی بولیاں الگ، ان کی تہذیب الگ، ان کی عمریں مختلف۔ ایسے بڑے اجتماع میں شرکت سے قبل کسی تربیتی پروگرام میں بھی شریک نہیں ہوئے ہوتے۔ اکثر ایسے ہوتے ہیں جو حج مقامات کا نظارہ زندگی میںپہلی مرتبہ دیکھتے ہیں۔ اہل ایمان کا یہ رنگارنگ اجتماع خاص نظم چاہتا ہے، مختلف نوعیت کا بندوبست چاہتا ہے۔ سعودی عرب ہر سال حاجیوں کو نہ صرف یہ کہ خوش آمدید کہتا ہے بلکہ دسیوں خدمات بھی پیش کرتا ہے،یہاں ہم جمرات کے نئے پل کا تعارف کرائیں گے۔
جمرات کی رمی جسے عرف عام میں شیطانوں کو کنکریاں مارنا کہا جاتا ہے، حج کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ 10 ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ(بڑے شیطان)کو7 کنکریاں اور پھر 13,12,11 ذی الحجہ کو تینوں جمرات کو 7,7 کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اسے شرعی اصطلاح میں جمرات کی رمی کہتے ہیں۔
جمرات کی رمی کو آسان اور محفوظ بنانے کیلئے جمرات کا عظیم الشان پل تیار کیا گیا ہے۔ یہ 950 میٹر طویل ہے، اس کا عرض 80 میٹر ہے اوریہ 4 منزلہ ہے،یہ منزل 12 میٹر اونچی ہے۔ اس کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہیں کہ مستقبل میںان پر 12 منزلیں اٹھائی جاسکتی ہیں،اُسوقت 50 لاکھ حاجی بیک وقت رمی کرسکیں گے ۔
جمرات کے پل کے تحت 3 زمین دوز راستے ہیں۔ جمرات کی رمی کیلئے جانے والے راستوں کی تعداد 11 اور جمرات کے پل سے خیموں میں واپسی والے راستوں کی تعداد 12 ہے۔ آنے جانے والے راستے چاروں طرف رکھے گئے ہیں۔ ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے پل کے اوپر ہیلی کاپٹر اتارنے کےلئے ہیلی پیڈ ہے۔ گرم موسم میں خنکی پیدا کرنے کیلئے جمرات کے اطراف میں پھوار کا بندوبست کیا گیا ےہ۔ اس سے جمرات کا درجہ حرارت 26 رہتا ہے۔
جمرات کے پل کے علاوہ پورے علاقہ کی تنظیمِ نو کی گئی ہے۔ جمرات کے جنوب اور شمال میں 3 ، 3 راستے تعمیر کئے گئے ہیں۔ جمرات کے پل کے اطراف والے میدان کو خالی کرالیا گیا ہے۔ ماضی میں وہاں انفرادی شکل میں جانے والے عازمین ڈیرے ڈال لیتے تھے ۔ پورا میدان بھر جاتا تھا جس کے باعث رمی کیلئے آنے جانے میں دشواری پیدا ہوتی تھی، اب انفرادی شکل پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ جمرات کے اطراف اور جمرات جانے والی سڑکوں پر کسی کوبھی ڈیرے ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
سعودی حکام نے مناسب مقامات پر کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں کا انتظام کیاہے۔ حجاموں کی 2000 دکانیں بنوائی گئی ہیں، طہارت خانے کھولے گئے ہیں، ہیلتھ سینٹر ہیں، فرسٹ میڈیکل ایڈ کا بندوبست ہے، شہری دفاع اور امن عامہ فورس متعین ہے۔ انتہائی امن و سلامتی کے لئے مختلف مقامات پر 500 حساس کیمرے نصب کئے گئے ہیں،کیمروں کو آپریشن روم سے جوڑ دیا گیا ہے،آپریشن روم سے پورے پل، اس کے اطراف اور آنے جانے والے راستوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مناسب انتظامات کئے جاتے ہیں۔
جمرات کے پل کا منصوبہ 2 اصولوں کو پیش نظر رکھ کر بنایاگیا۔
اول تو یہ کہ حج کے شرعی ضابطے پورے ہوں، ان میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہ ہو۔ 
دوم مستقبل میں حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایک اور بات کا اہتمام کیا گیا ہے، وہ یہ کہ سارے حاجیوں کو ایک ساتھ، جمرات پل کے کسی ایک راستے پر جمع ہونے سے روکا جائے اسی لئے رمی والے کئی راستے بنائے گئے ہیں پھر جہاں جہاں حاجی منیٰ میں خیمہ زن ہوتے ہیں وہاں سے جمرات کے پل پر جانے کیلئے راستے بنائے گئے ہیں۔ جمرات کے پل سے واپسی کا سلسلہ بھی ایسا ہی رکھا گیا ہے۔ ٹریفک اور پاپیادہ حاجیوں کو تصادم سے بچانے کیلئے جمرات کے پل کے نیچے زمین دوز گاڑیوں اور بسوں کے آنے جانے کیلئے راستے بنائے گئے ہیں۔
یہاں پرایمرجنسی روڈ بنائے گئے ہیں، انہیں زمینی منزل، زمین دوز راستوں اور ہیلی پیڈ سے مربوط کیا گیا ہے۔ پل کو ہنگامی طور پر خالی کرنے کے لئے الگ ایمرجنسی راستے بنائے گئے ہیں۔ جمرات کے ستون 60 میٹر اونچے ہیں،یہ ستون بیضوی شکل کے ہیں جس سے رمی میں بڑی سہولت ہوتی ہے۔ اللہ کی ذات سے قوی ا مید ہے کہ یہ انتظامات رمی میں آسانی پیدا کریں گے اور بھگدڑ کے واقعات سے بچاجاسکے گا۔
جمرات کی رمی کیلئے کنکریاں درکار ہوتی ہیں۔ حاجی حضرات گزشتہ برسوں کے دوران یہ کنکریاں مزدلفہ سے جمع کیا کرتے تھے۔ کنکریاں جمع کرنے میں وہ پریشان ہوتے تھے، ایک فلاحی ادارہ نے اس کا بھی بندوبست کردیا ہے۔ اب ہر حاجی کو ایک خوبصورت تھیلی میں 10 ، 11 ، 12 اور 13 ذی الحجہ کو رمی کیلئے صاف ستھری کنکریاں مطلوبہ تعداد میں بطور تحفہ پیش کی جارہی ہیں۔
٭ جمرات کی رمی کیلئے حاجیوں کو قافلوں کی شکل میں بھیجا جاتا ہے۔ حجاج کرام کو حج شروع ہونے سے پہلے ہی رمی کا پورا شیڈول دیدیا جاتا ہے۔ اس کے تحت مختلف مقامات پر خیمہ زن حاجیوں کو مقررہ نظام الاوقات کے مطابق رمی کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ ہر قافلے کے ہمراہ گائیڈ بھی ہوتا ہے۔ 
٭ سیکیورٹی فورس کے اہلکار رمی کے پروگرام پر عمل کراتے ہیں۔
٭ رمی کے راستوں پر کسی کو ڈیر انہیں ڈالنے دیا جاتا۔
٭ رمی کیلئے جانے والے راستوں سے حاجیوں کو واپسی کی اجازت نہیں دیتے کہ اس سے تصادم ہوتا ہے۔ رمی کرنے والوں کو خطرات سے بچانے کیلئے کئی انتظامات کئے گئے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ تمام حاجیوں کو جمرات کی رمی کے تصور سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
٭ رمی کیلئے حاجیوں کا نظام الاوقات بنایا گیا ہے اس کی پابندی کرائی جاتی ہے۔ 
٭ مختلف علاقوں کے حاجیوں کو الگ الگ اوقات میں رمی کیلئے بھیجا جاتا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔
٭ رمی کیلئے جاتے وقت بھاری سامان لیجانے سے روکا جاتا ہے تاکہ کسی حاجی کے گرنے کی صورت میں دوسرے حاجی سامان سے الجھ کر حادثات کا شکار نہ ہوں۔ 
٭جمرات کو سامان لیجانے والوں کو اپنا سامان امانت خانوں میںجمع کرانے کی تلقین کی جاتی ہے، امانت خانے بنا دیئے گئے ہیں۔
٭ علماءاور فقہاء نے " رمی عمل" میں آسانیاں پیدا کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ رمی کے وقت میں توسیع کے فتویٰ کو عام کیا جارہا ہے۔ 
٭ رمی کیلئے جمرات جانے والے راستوں پر داخلی حاجی ڈیرے ڈال لیتے تھے، اب ان راستوں پر ڈیرے ڈالنے کی ممانعت کردی گئی ہے اور حج سیکیورٹی فورس کے جوان ، انسانی زنجیر قائم کرکے ڈیرے نہیں ڈالنے دیتے۔
٭ آنے والے راستوں پر فوجی تعینات کرکے راستوں کے رخ کی پابندی کرائی جاتی ہے۔ جانے والے راستے پر صرف جانے اور آنے والے راستے پر صرف آنے کی پابندی کراتے ہیں۔
٭ جمرات کی چاروں منزلوں کو منیٰ کے مختلف مقامات سے مربوط کیا گیا ہے۔ اس طرح اب حاجی خودبخود بھیڑ بھاڑ سے بچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک فہد روڈ سے آنے والے حاجی پہلی منزل، الجورہ اسٹریٹ سے آنے والے زمینی منزل، جبل الکبش سے آنے والے تیسری منزل اور مکہ مکرمہ سے آنے والے دوسری منزل پر رمی کرتے ہیں۔
٭ بوڑھے، ضعیف ، مریض حاجیوں ، خواتین اور بچوں کے حوالے سے اول تو یہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کسی رفیقِ حج یا عزیز یا دوست کو رمی کا وکیل بنا دیں، دوم یہ کہ مختلف مقامات پر الیکٹرانک گاڑیاں مہیا کی گئی ہیں جن پر سوار ہوکر وہ جمرات کے پل پر پہنچ کر آسانی سے رمی کرسکتے ہیں، یہ گاڑیاںصرف جمرات کے علاقے میں مہیا کی گئی ہیں، انکے باقاعدہ ڈرائیور ہیں۔گاڑیوں کے منتظمین یہ خدمت سعودی حکومت کی طرف سے رضاکارانہ طور پر انجام دیتے ہیں، کسی سے کسی قسم کی کوئی فیس نہیں لی جاتی۔
٭جمرات کے پل کو مشاعر مقدسہ ٹرین سے بھی مربوط کردیا گیا ہے تاکہ حج کرنے والے رمی سے فراغت کے بعد مشاعر مقدسہ ٹرین کے ذریعے اپنی مطلوبہ منزل تک باآسانی پہنچ سکیں۔
٭ جمرات کے پل کے شاندار اور موثر انتظامات کے باوجود اس امکان کو پیش نظر رکھ کہ خدانخواستہ بھگدڑ یا کسی طرح کی کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوجائے تو حاجیوں کو ممکنہ جانی مالی نقصانات سے بچانے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کےلئے ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایک تو جمرات کے پل پر ہیلی پیڈ کا بندوبست کیا گیا ہے، دوم پل کے نیچے ایمبولینس تعینات کی گئی ہیں، ساتھ ہی ایمرجنسی سیکیورٹی فورس کے جوانوں کو چوکس رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی صورتحال سے نمٹا جاسکے، سوم یہ کہ حاجیوں کو محفوظ طریقے سے تیزی کے ساتھ پل سے نکالنے اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے خصوصی تدابیر کی گئی ہیں۔
٭ عام طور پر حاجی حضرات جمرات کی رمی کرکے سر منڈواتے یا بال ترشواتے ہیں یا قربانی کیلئے مذبح کا رخ کرتے ہیں یا طواف کے لئے حرم مکی کا رخ کرتے ہیں جبکہ بہت سارے حاجی اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوتے ہیں۔ جمرات پل کا ڈیزائن اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ ہر طرح کے حاجیوں کو الگ الگ جہت میں جانے کی سہولت میسر ہو تاکہ حاجیوں کے قافلوں میں کسی طرح کا کوئی تصادم نہ ہو۔ 
٭جمرات کے پل کے قریب مکہ مکرمہ کی طرف دائیں جانب کثیر تعداد میں حجاموں کی دکانیں کھلوائی گئی ہیں، وہاں پیشہ ور حجام ہوتے ہیں۔ انہیں حج سے قبل باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ حجامت حفظان صحت کے ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے کریں۔اسی طرح بال ترشوانے یا منڈوانے کی صورت میں جو کوڑا جمع ہوتا ہے پہلی فرصت میں اسے دکانوں سے ہٹوانے کابھی انتظام کیاگیا ہے ۔
٭ قربانی کے لئے کئی انتظامات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ جگہ جگہ کوپن دفاتر کھولے گئے ہیں، وہاں سے حاجی قربانی کے کوپن خرید کر قربانی کراسکتے ہیں،حاجیوں کو منیٰ میں موجود مذابح جاکر از خود جانور منتخب کرنے اور ذبح کرنے کی سہولتیں بھی مہیا کی گئی ہیں۔ 
٭طواف کے لئے حرم شریف جانے کا عزم رکھنے والوں کیلئے 2 راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ وہاں سے پاپیادہ نکل لیں، دوسرا راستہ یہ ہے کہ جمرات کے پل سے متصل ہی گاڑیوں کا اڈہ بنا ہوا ہے جہاں سے حاجی بسوں کے ذریعے حرم شریف جاسکتے ہیں۔
٭جمرات کی رمی کو محفوظ و مامون بنانے کا سب سے اہم وسیلہ آگہی کا ہے۔ آگہی 3مرحلوں میں انجام دی جاتی ہے۔ ایک تو سفرِ حج شروع کرنے سے قبل حاجی کے وطن میں، دوسرا مرحلہ سعودی عرب پہنچنے کے بعد معلمین کی جانب سے آگہی فراہم کرنے کا ہے اور تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ تمام حاجیو ںکو اس بات کا پابند بنایا جارہا ہے کہ وہ مقررہ اوقات میں جمرات کی رمی کریں ۔ اسکے لئے ہر معلم کے پاس اپنے اپنے حاجیوں کو رمی کیلئے جمرات کے پل بھیجنے کے سلسلے میں مکمل لائحہ عمل ہوتا ہے۔حاجیوں کو رمی کیلئے قافلوں کی صورت میں مخصوص اوقات میں بھیجا جاتا ہے،اس پابندی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں رمی کے خواہشمند تمام افراد جمرات کے پل پر جمع نہیں ہوپاتے، دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ وہاں ایسا رش نہیں ہوپاتا جو خطرے کا باعث بنتا ہو۔ ایک پابندی یہ بھی کرائی جاتی ہے کہ اگر جمرات کے پل پر ہدف سے زیادہ حاجی پہنچ جاتے ہیں تو ایسی حالت میں حج سیکیورٹی فور س کے جوان جگہ جگہ آہنی دیوار قائم کرکے رمی کے لئے جانے والوں کووقفے دلاتے ہیں، روک دیتے ہیں اور انہیں اس وقت تک آگے نہیں جانے دیتے تاوقتیکہ پل پر سے رش نہ چھٹ جائے۔ رش چھٹنے سے مراد یہ ہے کہ پُرخطر رش ختم ہوجائے۔
ایک کام یہ بھی کیا جاتا ہے کہ لاﺅڈ اسپیکر پر مختلف زبانوں میں حاجیوں کو جمرات کے پل کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جاتا رہتا ہے۔ جگہ جگہ بڑی بڑی اسکرین نصب کردی گئی ہیں، انہیں دیکھ کر بھی حاجی حضرات اپنے طور پر صحیح صورتحال سے واقف ہوتے رہتے ہیں۔
آخر میں ہم دعاگو ہیں کہ ماضی میں پیش آنے والے سانحے مستقبل میں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ یہ عظیم کار خیر قبول فرمائے،آمین یا الٰہ العالمین۔ 
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: