Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کو مسائلستان بنانےوالے ہمی تو ہیں

 
حکومت وحکمران،قائدین و عوام ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں ،ان کا سایہ دار ہونا ضروری ہے
 تسنیم امجد۔ریا ض
کراچی میںلالو کھیت کے قریب غریب آباداپنے نام کی طرح غربت و بے بسی کی تصویر بنا ہواہے۔قرب و جوار کی کسی بھی منصوبہ بندی سے بے خبر اپنی حالتِ زارپر یہی واویلا کرتا نظر آتا ہے کہ:
” کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غمگسار ہوتا“
اس علاقے میں بسنے والے اردوگو ،سندھی ،کشمیری ،سرائیکی ،پختون ،بلوچی ،میمن اور پاکستانی گلدستے کے دیگر پھول ہر لمحہ کسی بااختیار کی نظر التفات کے منتظر رہتے ہیں۔ گندگی کی انتہا یہ ہے کہ بارش کا پانی سڑ کو ں اور فٹ پا تھو ں پر تعفن پھیلاتا کسی کو نظر نہیں آ تا ۔
دھنک کے صفحے پر شائع شدہ تصویر پر کسی تبصر ے سے قبل اس علاقے کے نام”غریب آباد“ پرہی کئی سوالات ایسے ہیں جو جواب طلب ہیں۔
ہم نے ہمیشہ سنا اور اکثرپڑ ھا کہ نام اور حقیقتِ حال کا بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔اسے ”یو نیور سل ٹرتھ“ یعنی ”عالمگیر صداقت“ تسلیم کیا گیا ہے۔اسی لئے ہم نے اکثر بزر گو ں کو نو مو لود کا نام تجویز کرنے میں فکر مند پا یا ۔بلا شبہ اس علاقے کا نام سنکر کو ئی بھی انجان اس طرف آنے کی خواہش نہیں کرے گا ۔ما ہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ نام کا ایگو پر بلا واسطہ اثر پڑتا ہے ۔مسلم معا شرے میں اسلامی نام رکھنے کو اہمیت دی جاتی ہے۔مغربی مما لک بھی اس امرپر یقین رکھتے ہیں ۔1948 ءمیں ہار ورڈ یو نیورسٹی میں بھی اسی سلسلے میں تحقیق کی گئی۔وطن میں یہ نام نجانے کیوں رکھے گئے اور انہیں کیوں معروف کیا گیا ۔
وطنِ عزیز کے آزاد شہری اپنے دیگر مسا ئل سے ویسے ہی نبرد آزمارہتے ہیں جس کے باعث وہ ذہنی تناﺅ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر شہر میں بکھری غلاظتیں ، اس تناو میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ اس گندگی کے باعث پھیلنے والی بیما ریا ں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ایک شہری کا کہنا ہے کہ مجھے صرف 12دن کے لئے کو رنگی جانا پڑا ۔اس دوران مسلسل ڈاکٹروں کے ہاں چکر لگاتا رہا ۔ڈاکٹر نے بتایا کہ یہاں20 سے28 فیصد اموات گندے پانی کی وجہ سے ہو تی ہیں۔”کے ڈبلیو ایس بی “ یعنی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بو رڈ کو بھی سیاسی رسہ کشی کا سامنا ہے۔سیاسی سوجھ بو جھ رکھنے والوں سے سوال ہے کہ معصو م شہریو ں کو آخرکس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟کرا چی جسے منی پاکستان کہا جاتا ہے، اسے کچرا کنڈی میں تبدیل کر تے ہوئے ہو ئے کسی کو دکھ نہیں ہوا تو بھلا اس غریب آباد پر کس کورحم آئے گا؟
اقتدار اور کرسی کی طلب نے صاحبان اختیار کو یہ بھی بھلا دیا کہ انہیں ووٹ دینے والو ں کوبھی جینے کا حق ہے۔کر پشن نے انتظامی صلا حیتو ں کو مفلوج کر ڈالا ۔انسان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے یہ لا پروائی چہ معنی دارد؟ منصوبے شروع ہوتے ہیں اور اکثر تو نا مکمل ہی چھوڑ دئیے جاتے ہیں کیونکہ ٹھیکیداروں کو بل وصول نہیں ہوتے ۔مز دور بھی پہلی مزدوری کی اجرت ما نگتے ہیں ۔نجانے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام کیوں نہیں کیاجاتاتاکہ کام جاری رہے اور اس میں کوئی ناغہ نہ ہو، رکاوٹ نہ آئے۔ 
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اگر کہیں کوئی منصوبہ یا کام مکمل ہو بھی جاتا ہے تو چند ماہ بعد پھر ٹوٹ پھوٹ ہو جاتی ہے۔ اس کی وضاحت یہ پیش کی جاتی ہے کہ مٹیریل صحیح نہیں لگا۔ٹھیکیداروں کا قصور ہے ۔انکوائری رپورٹ پر عقدہ کھلتا ہے کہ انجینیئرز اور افسرانِ بالا کی ملی بھگت کا نتیجہ سامنے آیا ہے ۔دونوں نے مل جل کر خورد برد کی ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو مسا ئلستان بنانے والے ہم خود ہی ہیں ۔منصو بہ بندی کے فقدان نے جینا مشکل کر رکھا ہے ۔سیوریج کے پانی کا تعفن بھی نا قا بلِ بردا شت ہو چکا ہے ۔مچھر مکھیو ں کی آما جگا ہ یہ سڑ کیں اور علاقے جا نوروں کے بھی لائق نہیں پھر بھلا انسان بے چارے کہا ں جائیں۔وطنِ عزیز تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہا ں تر قی کا پہیہ گھو منے کی بجائے سرک رہا ہے ۔ما حول کام کرنے کی اہلیت کو دو چند کرنے میںنہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ایسے متعفن ما حول میں کسی کی قا بلیت کا اندازہ کیسے لگا یا جا سکتا ہے ؟ بے چارے ریڑھی لگانے والے ،فروٹ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاءلے کر جب نکلتے ہیں تو مکھیو ں کا ہجو م ان کا” شریک سفر“ ہو تا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ ان مکھیوں کی بھر مارکے باعث کچھ نہیں خریدتے اور ہمیں خالی ہاتھ لو ٹنا پڑ تا ہے۔گھر میں ہمارے بچے منہ دیکھتے بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ قلم کی طاقت سے بگا ڑ کو ٹھیک کرنا آسان ہے ۔اسی لئے اہل قلم اپنے تئیںسنوارکی کوششوں میں مگن ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ عوام میں طبقاتی تقسیم اور معا شرتی تفریق نے حالات دگر گوں کر رکھے ہیں۔ذاتی محاسبے کی اشد ضرورت ہے ۔میں اور دوسرا کو ئی نہیں،ہماری زندگیاں اسی میں گھن چکر بنی ہوئی ہیں۔باہمی مشوروں سے ایک دوسرے کی صلا حیتیں شیئر کی جا سکتی ہیں۔اسطرح بگاڑ پر قابو پانا آسان ہو جائے گا ۔کسی بھی کام کے لئے مہارت کا ہونا ضروری ہے ،تجربہ اس کی بنیاد ہے ۔ہمارے ہاں ریٹا ئر منٹ کے بعد ما ہرین کو پلٹ کر نہیں پو چھا جاتاجبکہ مغرب میں انہیں اثاثہ جا نا جاتا ہے۔ان کی تو قیر میں کوئی فرق نہیں آ نے دیا جاتا ۔
حال ہی میں کینیڈا میں مقیم بھابی نے بتایا کہ ان کے والد ریٹائر منٹ کے بعد بھی روزانہ 2 گھنٹے کے لئے آفس جاتے ہیں۔ اسطرح ایک تو وہ خود کو فریش محسوس کرتے ہیں دوسرے وہ اپنے قیمتی تجربات سے بھی دوسروں کو مستفید کرتے ہیں ۔وہ اپنے منصو بو ں میں ان کی رائے کو مقدم جانتے ہیں ۔ہمارے ہا ں اس کے بر عکس ہے ۔یہ ہمارا معا شرتی المیہ ہے ۔ہم اپنے ساتھ ہی مخلص نہیں ۔بقول شاعر :
چمن کو اس لئے مالی نے خو ں سے سینچا تھا 
کہ اس کی اپنی نگا ہیں بہار کو تر سیں
فی ا لحال ایسا لگتا ہے کہ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔علا قا ئی ،لسا نی اور طبقاتی تعصبات نے ہمیں جکڑ رکھا ہے ۔ایک گھٹن کا سا احساس ہے۔اس فضا میں بہتری صرف اور صرف با ہمی ا ختلافات دور کر کے لا ئی جا سکتی ہے ۔برابری کی بنیادوں پر انسانوں اور شہروں کے ساتھ برتاﺅکیا جائے ۔انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ:
” ٹو گیدر وی اسٹینڈاینڈ پا رٹڈ وی فال“
یعنی اگر ہم متحد ہو ں گے تو اپنے پیروں پر کھڑ ے ہو سکیں گے اور اگر ہم الگ الگ ہو ئے تو زمین پر ڈھیر ہو جائیں گے۔بلا شبہ ایک متحد قوم ،متحد ملک اور متحد خاندان ہر مشکل پر قابو پا لیتا ہے ۔انسان معا شرتی حیوان ہے ۔تہذ یب یافتہ سماجی حیوان ہونے کے ناتے وہ معا شرے میں رہنے پر مجبور ہے ۔یہ معاشرہ اس کی اپنی وجہ سے کبھی اس کے لئے خطرہ بن جاتا ہے ۔گندگی کے حوالے سے ہم نے اپنے لئے مسائل کھڑے کر رکھے ہیں ۔معیار زندگی بلند ہونے کی بجائے صحت کے مسائل میں گھرے رہنے والی قوم کو کیا کہیں ؟دوسری قو مو ں کی اندھا دھند تقلید سے اجتناب وقت کا اہم تقا ضا ہے ۔اپنے فرائض کی ادائیگی کو ضروری جانتے ہوئے مسائل کا قلع قمع آسان ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی امیدواروں کو یہ یقین ہونا چا ہئے کہ عوام بتجربہ کار ہو چکے ہیںچنانچہ اب ان کی دال نہیں گلے گی ۔اس طرح الیکشن کمیشن ،منصوبہ بندی کمیشن اور دیگر کسی بھی نوعیت کے کمیشن کی کارکردگی بھی انصاف پر مبنی ہو گی ۔
حکومت وحکمران،قائدین و عوام ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں ۔ان کا سایہ دار ہونا ضروری ہے تبھی اس کے نیچے بسرام کرنے والوں کورا حت و سکو ں میسر آسکے گا ۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: