Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کھیلوں کی دنیا میں پاکستانی خواتین کو مختلف چیلنجز کا سامنا

لاہور:کھیلوں کی دنیا میں پاکستانی خواتین کھلاڑیوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں اپنی جگہ بنانے کے لئے کبھی تو اپنے ہی خاندان کی جانب سے حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کبھی اِن مسائل کی نوعیت معاشی، معاشرتی اور ثقافتی ہوتی ہے تاہم اِن تمام مسائل کے باوجود خواتین کھلاڑی اپنی راہ میں حائل تمام مشکلات، حوصلہ شکن رویوں، تنقید اور مسائل کو اپنے لئے چیلنج سمجھ کر کامیابی کے سفر پر گامزن ہیں۔لندن اولمپکس 2012 میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی خاتون ایتھلیٹ رابعہ عاشق کا تعلق لاہور ہے۔اِن دنوں وہ اسلام آباد ا سپورٹس کمپلیکس میں آئندہ ماہ قازقستان میں ہونے والے ان ڈور بیچ گیمز کےلئے ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔رابعہ نے بتایا کہ انھیں بطور خاتون ایتھلیٹ اپنے خاندان اور معاشرے کی جانب سے حوصلہ شکن رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ والدین منع کرتے تھے،گھریلو حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ لوگ باتیں بناتے تھے کہ جوان لڑکی گھر سے باہر پتہ نہیں کہاں جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ا سپورٹس کے شوق میں اسکول یونیفارم میں جاتی تھی، وہاں سے برقع پہن کر اور گھر والوں سے چھپ کر اسپورٹس کے لئے نکل جاتی۔نجمہ کی اساتذہ نے ان کے گھر والوں کو ان کے کھیلوں کی دنیا میں جانے کے لئے منایا۔رابعہ نے مزید کہا کہ جب وہ لندن اولمپکس کے لئے جا رہی تھیں تو لوگوں نے کہا کہ وہاں تو لڑکیاں نیکریں پہن کر گھومتی ہیں۔گولڈ میڈلسٹ ایتھلیٹ نجمہ پروین کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ خاندان میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کھیل تو کیا لڑکیوں کی تعلیم کے بھی خلاف ہوتے ہیں۔ان کے خیال میں لڑکیاں پردے میں سجتی ہیں۔ لڑکیوں کو گھر کے کام اور پھر جلد شادیاں کر دینی چاہئیں۔ میرے بھائی کہتے تھے، لڑکیاں اتنا نہیں پڑھتیں۔ انھیں گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔نجمہ کا کہنا تھا کہ یہ ان کے اسکول کی اساتذہ تھیں جنھوں نے گھر والوں کو ان کے کھیلوں کی دنیا میں جانے کے لئے منایا۔گل افشاں طارق کا تعلق سرگودھا کے نزدیکی گاوں جھاوریاں سے ہے۔ وہ قومی سطح پر سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔گل افشاں نے بتایا کہ جب انھوں نے سائیکلنگ شروع کی تو والدین نے بھرپور حمایت کی لیکن گاوں کے لوگوں کی باتوں سے بچنے کےلئے وہ رات کے وقت، مردانہ لباس میں ٹریننگ کیا کرتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ گاوں کے لوگ تو ایک طرف شہروں میں بھی لوگوں کی سوچ دقیانوسی ہے اور جب وہ اسلام آباد منتقل ہوئیں تو بھی لوگوں نے کم و بیش وہی باتیں بنائیں۔موٹرسائیکل پر خیبر پختونخوا کی سولو رائڈ کے دوران لوگ کہتے کہ یہ کیا لڑکوں کی طرح ڈریسنگ کی ہوتی ہے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کا کیا امیج دکھاو گی۔راک کلائمبر اور پیراگلائیڈر نازیہ پروین کا تعلق فاٹا کے علاقے باجوڑ ایجنسی سے ہے۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے راک کلائمبنگ میں پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کی۔ان کا کہنا ہے کہ راک کلائمبنگ کے شعبے میں ان کے ساتھ کوئی اور خاتون نہیں تھی۔تربیت مردوں کے ساتھ ہی کرنا پڑی اور اکیلی خاتون ہونے کی و جہ سے گھر سے والدین یا بھائی کو ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔وہ بعض اوقات صرف اس وجہ سے ایونٹس میں شرکت نہیں کر پائیں کہ گھر والوں میں سے ان کے ساتھ کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کھیل میں مرد کھلاڑی ان کا مقابلہ کرنے سے بھی گھبراتے رہے۔میں نے 2013 میں ایک اوپن چیمپیئن شپ میں حصہ لیا تو دو لڑکوں نے میری وجہ سے کھیلنے سے ہی انکار کر دیا اور کہا یہ کھیلے گی تو ہم نہیں کھیلیں گے۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولے کہ ہار گئے تو لوگ مذاق اڑائیں گے کہ لڑکا ہو کر لڑکی سے ہار گئے۔
 

شیئر: