Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

جوابدہی سے بے نیاز سفید ہاتھی کا قد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
* * * وسعت اللہ خان * * *
محقق عقیل عباس جعفری نے بتایا کہ پی آئی اے کا مشہورِ عالم تعارفی نعرہ ’’ گریٹ پیپل ٹو فلائی ودھ ’’ شان الحق حقی کی تخلیق ہے اس کا ترجمہ ’’ باکمال لوگ لاجواب پرواز ‘‘۔فیض احمد فیض کا تحفہ ہے۔کیسا اچھا ہوا کہ حقی صاحب اور فیض صاحب پہلے ہی پرواز کر گئے۔ اب اچھے وقتوں میں لاجواب پرواز کیلئے جانی جاتی اس ایئرلائن کی روح بھی پرواز کیا چاہتی ہے کہ جس کا ڈھانچہ عرصہ ہوا گدھ نوچ کھا بیٹھے مگر بھوک باقی ہے۔ اس وقت خسارہ زدہ اداروں کے روپ میں سرکار جو چند سفید ہاتھی پال رہی ہے ان میں اسٹیل ملز اور پی آئی اے سب سے بڑے ہیں۔
ایسے وقت جب ہر جانب پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا غلغلہ ہے۔ موقع شناس سرمایہ کار اگلے 15 برس پر پھیلے اتنے بڑے منصوبے کیلئے اسٹیل سازی کے پروجیکٹس لگانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کو لاحق کرپشن اور مالی بدانتظامی کا کوڑھ دور کر کے پاک چائنا اکنامک کوریڈور کی تعمیراتی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے کسی بھی قیمت پر سر سے اتارنے کا سوچ رہی ہے۔مگر کوئی ’’جینین پارٹی’’ یہ گرم آلو تالو سے لگانے کو یوں تیار نہیں کہ جہیز میں اسٹیل ملز کا اونٹ مفت لیکن اونٹ کے گلے میں پڑی خسارے کی بلی اربوں کی ہے ۔ یہ چند سو ارب اتنے ہیں کہ کوئی عرب بھی اس طرف پھٹکنے کی جرأت نہیں کر رہا۔ جبکہ اتنا ہی بڑا سفید ہاتھی عرف پی آئی اے ہے اور اسے زندہ رکھنے کیلئے سالانہ 20 سے 30 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے مگر پی آئی اے کے ملازمتی پسماندگان ادارے کی کلنیکل ڈیتھ کے باوجود لائف سپورٹنگ مشین ہٹانے کے شدید خلاف ہیں۔نہ ہی وہ اس کے حامی ہیں کہ دنیا کی دیگر ایئرلائنز کی طرح پی آئی اے بھی مالی بوجھ ہلکا کرنے کیلئے ایسے شعبے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردے جنکا بنیا د ی فضائی آپریشن سے بلاواسطہ تعلق ہے۔مثلاً مینٹی ننس ، گراؤنڈ ہینڈلنگ ، کارگو مینجمنٹ وغیرہ۔ان شعبوں کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضد کے سبب پی آئی اے کی افرادی قوت فی جہاز700 ملازمین تک پہنچی ہوئی ہے جبکہ سرکردہ عالمی ایئر لائن امارات میں فی جہاز افرادی قوت220 کے لگ بھگ ہے۔ دیگر ایئرلائنز تیزی سے بدل رہی دنیا میں خود کو کارپوریٹ کلچر میں ڈھال رہی ہیں تاکہ مستعد افرادی قوت زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکے مگر پی آئی اے آج بھی سرتاپا بیوروکریٹک کچھوا ہے۔
منافع بخش و مستعد ادارے کس طرح سفید ہاتھی بنتے ہیں ؟ یہ سمجھنے کیلئے راکٹ سائنس میں ڈاکٹریٹ ضروری نہیں۔ہر حکومت پہلے تو سرکاری اداروں کو ’’ ساڈہے بندوں ’’ سے بھرتی ہے اور جب ان اداروں کی تنظیمی و مالی ہڈیاں میرٹ سے عاری ’’ ساڈہے بندوں ’’ کے بوجھ سے چٹخنے لگتی ہیں تو ادارے کے بجائے بندے بچانے پر توجہ دی جاتی ہے چنانچہ بندے ادارہ لے کر ڈوب جاتے ہیں۔اسٹیل ملز ، ریلوے ، محکمہ تعلیم اور پی آئی اے سامنے کی مثالیں ہیں۔ان اداروں کو چونکہ یقین ہوتا ہے کہ بے اعتدالیوں کا جرمانہ بھرنے کیلئے سر کاری خزانہ و سرپرستی حاضر ہے لہذا نجی اداروں کے برعکس جوابدہی سے بے نیاز سفید ہاتھی کا قد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک نادر واقعہ ہے کہ پی آئی اے کا بوجھ کم کرنے کیلئے جب ایک مرتبہ گولڈن ہینڈ شیک اسکیم متعارف کروائی گئی تو اس اسکیم میں شامل ہونے والوں کے واجبات قرض لے کر بیباق کئے گئے۔نااہلوں سے زیادہ اہل افراد نے گولڈن ہینڈ شیک کر لیا اور پھر دیگر ایئرلائنز اور ہوابازی سیکٹر میں پہلے سے بہتر نوکری حاصل کرلی ۔
جن سے جان چھڑانا مقصود تھا وہ آج بھی جمے ہوئے ہیں۔یوں گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے تحت برین ڈرین کیساتھ قرضہ اور بڑھ گیا۔جب ایسے ایسے لال بھجکڑ بھاری تنخواہیں لیکر اتنی شاندار حکمتِ عملی بنا خوف ِجوابدہی نافذ کر رہے ہوں تو قارون بھی پچھلی دیوار کود کے فرار ہو جاتا ہے۔مرے پے سوواں درہ یہ پڑ گیا کہ2000 ء میں اوپن اسکائی پالیسی کے تحت خلیجی ایئر لائنز نے پی آئی اے کے بیمار کبوتر کے منہ سے رہا سہا ٹکڑا بھی چھین لیا۔ایسی کمرشل ہارا کاری کی مثال شاید ہی کہیں اور مل پائے۔ حکومتیں چاہتیں تو سیاحت اور شہری ہوابازی کا بیاہ کروا کے دونوں ہاتھوں سے کما سکتی تھیں۔مثلاً گلگت بلتستان سیکٹر میں آج سے نہیں ہمیشہ سے سیاحوں کی دلچسپی ہے۔ علاقے میں ایئرپورٹس اور سیاحتی نیٹ ورک کو مربوط ، جدید اور ون ونڈو بنا کر پی آئی اے کی بیماری کسی حد تک دور ہوسکتی تھی مگر اس سیکٹر میں صرف اسکردو ایئرپورٹ اس قابل ہے جہاں بڑے طیارے اتر سکیں جبکہ گلگت ایئرپورٹ پر آج بھی چھوٹے جہاز اتر سکتے ہیں اور وادی میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی ٹہلتا ہوا آجائے تو پرواز منسوخ ہو جاتی ہے۔اس علاقے سے خشک میوہ جات کے کارگو سے بھی ایئرلائن کو مستقل آمدن ہوسکتی تھی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سوتے کو تو جگا لوں ، جاگتے کو کیسے جگاؤں۔جس سیکٹر پر سالانہ 6 لاکھ سیاح پروازوں کیلئے ترس رہے ہوں۔وہاں پستہ ، بادام ، اخروٹ ، خوبانی ، قیمتی پتھروں اور دھاتوں کا ہزاروں ٹن کارگو کیا بیچتا ہے۔
وہ تو حج پروازوں نے کچھ سفید پوشی رکھی ہوئی ہے ورنہ تو پی ائی اے کا آخری لنگوٹ بھی کب کا گر چکا ہوتا۔ دنیا بھر میں کاروباری اصول ہے کہ ’’ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب بوجھ اتارا کرتے ہیں ’’مگر اپنے پاکستان میں بھلے ٹیکس اصلاحات کا معاملہ ہو کہ سفید ہاتھیوں کا قد گھٹانے کا سوال۔اپیلیں ، احتجاج ، اللہ رسول کے واسطے ، بچوں کے پیٹ کا سوال ، بیروزگاری کی دہائی جیسے اسپیڈ بریکرز راستے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایسے میں بھلا کون سی حکومت ہوگی جو اپنی اگلی مدتِ اقتدار کی توقع خطرے میں ڈالتے ہوئے عوام دشمن اور سفاک کہلائے چنانچہ اصلاحات کی سمت ایک قدم بڑھا کر دو قدم پسپائی اختیار کر کے ایک اور لمبے عرصے کیلئے ریت میں منہ چھپا لیا جاتا ہے اور روزگار کے نام پر نااہلوں میں خیرات کا بٹنا جاری رہتا ہے۔رہی حزبِ اختلاف تو جب رونے دھونے سے ہی اچھی عوامی ریٹنگ آجاتی ہے تو پھر قومی مسائل کا متبادل حل پیش کرنے میں وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ؟

شیئر: