Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ بچے مجھے پردیس سے جانے نہیں دیتے ،اپنا ماحول کبھی دیکھ نہیں پاؤں گی‘‘

پردیسی دلہن اپنے وطن کیلئے ترستی رہی،وہ گھر ،خاندان ،بھائی ،بہن ،سہیلیوں سب سے دو ر ہوگئی، دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے
* * * تحریر:مصطفی حبیب صدیقی* * * *
مہرو کو پیادیس سدھارے 6ماہ ہوچکے تھے ،اب وہ امید سے بھی تھی۔اسے اپنا گھر ویسے ہی یاد آتا تھا جیسے ہر لڑکی کو یاد آتا ہے مگر یہاں معاملہ کچھ الگ تھا کیونکہ مہرو کی شادی اپنے دیس سے دور پردیس میں ہوئی تھی۔وہ بیاہی تو گئی تھی مگر کوئی ڈھول باجا یا بارات نہیں آئی تھی کیونکہ عرفان میاں کی مالی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ وہ ہندوستان جاکر شادی کرتے اور اپنی نئی نویلی دلہن کو بیاہ کرسیکڑوںباراتیوں کے جلو میں لے کر آتے ۔دونوں گھروں کے بڑوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ نکاح فون پر ہی کرلیا جائے اور پھر رخصتی ہوجائے ۔دلہن تن تنہاکنیکٹنگ فلائٹ کے ذریعے 12گھنٹے کا سفرطے کرکے اپنے شوہر کے پاس آسٹریلیا پہنچ گئی تھی۔
* ’’مہرو ،مہرو ،چلو جلدی چلو آج چاند رات ہے ،تہیں مہندی لگوالائوں‘‘ عرفان گھر میں داخل ہوتے ہی تقریباً چیخنے کے انداز میں بولتا چلاگیا۔
* ’’ہونہہ ۔۔اچھا ‘‘مہرو خیالات کی دنیا سے واپس آتے ہوئے چونک کر پوچھنے لگی’’مگر یہ تو آسٹریلیا ہے یہاں مہندی کہاں ملے گی اور کون لگائے گا؟‘‘
* ’’ارے میں جانتا ہوں ،یہاں سڈنی کے ایک علاقے میں ایک پاکستانی آنٹی ہیں وہ مہندی لگاتی ہیں اور پیسے بھی بہت کم لیتی ہیں چلو چلیں ‘‘۔ پھر دونوں میاں بیوی مہندی لگوانے چل دیئے۔
* ’’مہر و کیا سوچتی رہتی ہو،کیا ہوا، آج تو عید ہے پھر بھی اداس ہو‘‘ ،عرفان نے مہرالنساء کو ٹوکتے ہوئے پوچھا۔
* ’’کچھ نہیں بس ایسے ہی پتہ نہیں کیوں ،دل کوکچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ،یہ کیسی عید ہے ،بس گھر میں ہی رہو،پور ا دن تو آپ دفتر میں رہے ،اب کہاں جائیں گے‘‘مہرو نے ایک ہی سانس میں ساری شکایت کرڈالی۔
* ’’مگر مہرو یہ دیکھو کہ ہم کتنا گھوم پھر سکتے ہیں،اچھا کھاسکتے ہیں،عید کیوں نہیں ،چلو تمہیں بہترین ریسٹورنٹ میں ڈنر کرائوںگا اور پھر فلم دکھانے بھی لے چلوں گا۔ بس تیار ہوجائو جلدی سے‘‘عرفان کے کہنے پر مہرو ایک لمحے کیلئے سوچ میں پڑ گئی مگر پھر شوہر کی خاطر اٹھی اور تیار ہونے چلی گئی مگر پھر یہ ہوا کہ جب مہرو میک اپ کرکے تیار ہوکر واپس آئی تو عرفان گہری نیند سوچکا تھا ،پورے دن کا تھکا ہوا جو تھا۔
* مہرو کی یہ عید جو اس کی نئی زندگی کی پہلی عید تھی، ایسے ہی گھر میں گزر گئی ۔صبح عرفان نے اٹھ کر شکایتی انداز میںکہا کہ جب کہا تھا کہ باہر چلیں گے تو مجھے جگا تو دیتیں.......مگر مہرو خاموش رہی۔
* دن ،ہفتو ںمیں،ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے چلے گئے۔اب مہرواور عرفان 2بچوں کے والدین تھے۔اللہ کریم
*نے انہیں خوبصورت بیٹوں سے نوازا تھامگر مہرالنسا ء کواپنے وطن ہندوستان گئے پورے 5سال ہوچکے تھے۔
* ’’بس میں نے کہہ دیا کہ اس مرتبہ بقرعید ہم اپنے ملک میں ہی کرینگے ،ہند وستان جائیں گے، چاہے کچھ بھی ہوجائے‘‘مہرونے گویا عرفان کو اپنا فیصلہ سنادیا۔عرفان مہرو سے بہت محبت کرتا تھا ۔اس نے بھی ہتھیار ڈال دیئے مگر یہ دونوںنہیں جانتے تھے کہ اب ان کے بچے آسٹریلیا کے علاوہ کہیں نہیں رہ سکتے۔یہ مہرو اور عرفان کی زندگی کا تلخ تجربہ تھا۔عرفان نے بڑی مشکلوں سے پیسوں کا بندوبست کیا اور پورا خاندان لکھنو پہنچ گیا۔
* ابھی ہندوستان پہنچے چند ہی دن ہوئے تھے کہ مہرو کے دونوں بیٹے بیمار ہو گئے۔ایک کو ٹائفائیڈ ہوگیا اور
ایک کو پیٹ میں درد اٹھ گیا۔ایک مہینے کی چھٹیوں پر آئی ہوئی مہرو اگلے ہی ہفتے اسپتال کے وارڈمیں اپنے بچوں کے ساتھ داخل ہوگئی۔ڈاکٹروں کا کہناتھا کہ بچے چونکہ آسٹریلیا میں پلے بڑھے ہیں ، اس لئے یہاں نہیں رہ سکتے۔ وہ دونوں ہی یہاں کا پانی قبول نہیں کررہے۔فوری واپس نہ گئے تو بیماری مزید شدت پکڑ سکتی ہے۔
* 5سال کے بعد اپنے وطن جانے والی مہرو 15دن میں ہی ہندوستان سے آسٹریلیا واپسی کی تیاری کرنے لگی۔ان 5سالوں میں ماں اور بہنوں کے شکوے بڑھ چکے تھے جن کا تذکرہ تک نہیں ہوسکا تھا۔
* ’’مہرو کیا سوچ رہی ہو۔۔۔بڑی گم سم ہو‘‘ ،مہرو کی امی نے اپنی بیٹی کے کمر ے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
* ’’بس امی جان!سوچتی ہوں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب میں کبھی ہندوستان میں نہیں رہ سکوں گی۔میرے بچے تو پردیسی ہوگئے ، انہیں تو اپنے وطن کا پانی بھی راس نہیں آرہا۔میں تو اپنے گھر ،خاندان ،بھائی ،بہن،سکھی سہیلیوں سب سے ہی دو ر ہوگئی کیا میرے بچے اب کبھی مجھے دوبارہ اپنے ماحول میں نہیں آنے دینگے‘‘۔
* ’’ارے نہیں بیٹا!یہ تو بچے ہیں،بیمار پڑ ہی جاتے ہیں ،اگلے سال پھر آجانا ،جب یہ صحیح ہوجائینگے‘‘صبیحہ بیگم نے جھوٹی تسلی دی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ عرفان میاں کی تنخواہ اتنی نہیں کہ وہ اتنی جلدی پھر وطن آسکیں۔
* پھر وہی ہوا جیسا مہرو نے سوچا تھا،انہیں واپس آسٹریلیا آئے مزید5سال گزرچکے تھے مگر بچوںنے ہندوستان جانے سے انکار کردیا تھا جبکہ مہرو اپنے پیاروں کیلئے ترستی رہتی تھی،آ ج مہرو کے بچوں کی عمریں 20اور22سال ہیں۔بتانے والے بتاتے ہیں کہ مہروآج بھی اپنے گھر ،گلی ،محلے،ماں ،باپ اور بہن بھائیوں کو یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنے بچوں کی وجہ سے مجبور ہیں جو اب کسی طور اپنی ماں کے آبائی وطن جانے کو تیار نہیں۔
* مہرو نے جب مجھ سے سوال کیا کہ ’’کیا یہ ضروری تھا کہ مجھے بیرون ملک ہی بیاہ دیا جائے،کیا اپنے دیس میں کوئی رشتہ نہیں تھا ‘‘ تو میں سوچتی رہی کہ اپنے دیس میں رشتہ تو تھا مگر والدین کو تو پردیس میں ہی سکھ نظر آتاہے۔کاش وہ حقیقت بھی جان سکتے۔
-------------------------------------
محترم قارئین !
اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔ ہم سے فون نمبر 00923212699629پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
ای میل:[email protected]

شیئر: