Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچپن کے کھیل،پہل دوجھ،آنکھ مچولی ،اب نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ راتیں

اس وقت وسائل کم تھے، رشتوں کی ڈور مضبوط تھی، آہستہ آہستہ ہم ترقی کرتے گئے ، انسان سے روبوٹ بن گئے،اب روبوٹ میں احساس کہاں سے لائیں
(پانچویں قسط)
* * * ممتاز شیریں۔دوحہ ،قطر* * *
آپ کو یقینا" اندازہ ہو چکا ہو گا کہ میں کتنی 'سادہ' تھی۔ اسی سادگی کے ہاتھوں مجبورہو کر کچھ اور کارنامے بھی کئے جویاد کر کے اب ہنسی آتی ہے لیکن یہ شنید ہے کہ تب نہیں آتی تھی۔ پچھلی صدی میں جب میں چھوٹی تھی تو ایک البم ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں البم میں تصویر لگانے کے لئے 4کونے یا دو تکون صفحے پر چپکا ئے جاتے تھے ۔ ان کے اوپر ایک چھوٹا سا خانہ بنا ہوتا تھا جس میں تصویروں کے کونے پھنسا دئیے جاتے تھے ۔اس البم میں خاندان کی بہت زبردست کلیکشن تھی۔ دوستوں کی ، فیملی کی، یادگارسفروں کی ،غرض کہ ہر طرح کی تصویریں موجود تھیں۔ میں اس وقت تیسری یا چوتھی کلاس میں تھی ، گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اوردوپہر کا وقت تھا۔ سب آرام کرنے لیٹ گئے۔
مابدولت کو خیال آیا کہ آج البم سیٹ کی جائے ، بہت سی تصویریں کھلی پڑی ہیں، انہیں البم میں لگا دیا جائے۔ الماری میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کرتکون کا پیکٹ نکالا ، البم بہن کو پکڑائی ، کھلی تصویروں کا ڈھیر اٹھایا اوربہن کو لے کردوسرے کمرے میں آگئی۔ دل ہی دل میں بڑی خوش تھی کہ آج سب بہت خوش ہوں گے کہ تصویروں کو البم میں سیٹ کر دیا ہے۔ لیجئے جی! سب کچھ پھیلا کر البم کو درمیان میں رکھا اور پیکٹ میں سے چار تکون نکال کرصفحے پر چسپاں کر دیئے۔ اب تصویرلگانے کا مرحلہ تھا۔ یہ جانے میری بلا کہ تصویرکے کونوں کو اس تکون میں پھنسانا تھا ، یا تصویر کو ان تکونوں پر چپکانا تھا۔
تصویرکے کونوں کو تکون کے اوپر رکھا تووہ چپکی نہیں۔ پہلے لگی ہوئی تصویروں پر نظر ڈالی تو ان کے کونے غائب تھے۔ لوجی مسئلہ تو چٹکی بجاتے ہی حل ہو گیا۔ بہن کو دوڑایا چھوٹی قینچی لاؤ۔ وہ لے آئی۔ بڑے اہتمام سے تصویرکے چاروں کونے کاٹ دئیے اور اس کو دوبارہ ان تکونوں میں فٹ کرنے کی کوشش کی مگر نہیں جناب، اس نے نہ فٹ ہونا تھااور نہ ہوئی۔ اب کیا کیا جائے ؟ دوسری تصویر ٹرائی کرتی ہوں۔ اسے اٹھایا اس کے چاروں کونے کاٹے اور اسے ان چاروں تکونوں پر لگانے کی کوشش کی مگر پھر وہی مسئلہ! سوچا شاید تکونوں کے اوپر کم گوند لگی ہوئی ہے۔ چلو خیر ہے،گوند شام کو دکان سے منگوا لوں گی۔ ابھی تو تصویروں کے کونے کاٹ کر اس کام سے تو فارغ ہوجاؤں ، پھر تو گوند لگا کر ان کو چپکانا باقی رہ جائے گا۔ 3، 4 اور تصویروں کا ’’ستیا ناس‘‘ کیا یعنی ان کے کونے کاٹے ہی تھے کہ اچانک بڑی بہن کسی کام سے کمرے میں آگئیں! "یہ کیا ہو رہا ہے؟" بڑے پیار سے پوچھا۔
میں نے بہت فخر سے اپنی کارکردگی دکھائی لیکن وہاں تو شاباش کی بجائے " یہ کیا کیا " کے الفاظ نکلے۔ ہم دونوں بہنیں حیران پریشان کہ کیا کیا؟ اور جب بہن نے سمجھایا کہ اصل میں کیا کرنا تھا اور تم نے کیا کیا تواپنی "سادگی " کا احساس ہوا۔ ڈانٹ پڑی کہ تمہیں کہا کس نے تھا یہ کرنے بیٹھ جاؤ ؟ میں سوچ رہی تھی کہ بھلائی کی تو کوئی قدر ہی نہیں رہی ! جب شام کو سب کے اٹھنے پر بہن نے مزے لے لے کر، ہنس ہنس کر اور تصویریں دکھا دکھا کرسب کو ہماری کارکردگی کی تفصیلات بیان کیں توچھوٹی بہن عین وقت پر مکر گئی کہ یہ تو ان کا آئیڈیا تھا۔ میں تو صرف ان کی بات مان رہی تھی۔ آپ لوگ ہی کہتے ہیں کہ بڑی بہن ہے اس کی بات مانا کرو۔ آہ گویا: جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے بچپن میں بیمار ہونے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا ۔جو بھی بچہ بیمار ہوتا اس کی خوب خاطر تواضع کی جاتی ،اسے کھلونے دلائے جاتے،پرہیزی کھانے کھلائے جاتے ،اور بسکٹ کا پورا ڈبہ بیمار کے سرہانے موجود ہوتا۔
اس وقت بیمار پڑنے میں سب سے بڑی خوشی یہ ہوتی تھی کہ اسکول سے چھٹی ہو جاتی تھی اور بسکٹ کا پورا ڈبہ ملا کرتا تھا۔ یہ ایسی عیاشی تھی کہ دل چاہتا تھا بندہ تمام عمر بیمار ہی پڑا رہے۔ آج کل کے بچے ان دلچسپیوں اور رنگا رنگ زندگی کا تصور نہیں کر سکتے جن میں ہمارا بچپن گزرا ہے۔جو کھیل ہم نے کھیلے ہمارے بچوں نے ان کھیلوں کا نام تک نہیں سنا ہوگا ہمارے بچپن میں کھیلوں کا بھی موسم ہوا کرتا تھا۔پہل دوج کھیلنے کا موسم،ہر ہر گلی، ہر محلے میں یہی موسم اترا ہوتاتھا۔
بسنت آتی تو پورا کراچی پتنگیں اڑا رہا ہوتا تھا۔ موسموں سے وابستہ ان کھیلوں میں آنکھ مچولی،چھپن چھپائی ،لنگڑی پالا ،چور سپاہی نجانے کتنے کھیل تھے جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔ یہ 1980ء کی دہائی کی باتیں ہیں جب ہم شاید پانچویں یا چھٹی کلاس میں ہوں گے۔ محلے کے50 گھروں میں سے صرف 4گھر ایسے تھے جن میں ٹی وی ہوتا تھا لہٰذا محلے کے تمام بچے ہرشام ٹی وی دیکھنے ان 4 گھروں میں سے کسی گھر میں جا دھمکتے تھے۔ پی ٹی وی واحد چینل ہوا کرتا تھا اور روزانہ رات8 سے 9 بجے کے درمیان ڈرامہ نشر ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں لوگوں کے دل کشادہ ہوا کرتے تھے اس لئے اس طرح جمع ہو کر ٹی وی دیکھنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ رواداری و مروت کا وہ دور تھا کہ اگر اپنے گھر کا سالن پسند نہ آتا تو اپناسالن پڑوس کے گھر سے پیالہ بھر کر بدلوا لیا کرتے تھے ۔دو ،دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے دل ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے ایک ہی خاندان کے لوگ ہوں۔ماضی میں گھر چھوٹے اور دل بڑے تھے ہماری دال کے بدلے میں اپنے گھر سے گوشت کاسالن دینے میں انہیں خوشی محسوس ہوتی تھی۔ اس وقت وسائل کی کمی کے باوجود باہمی رشتوں کی مضبوطی اور محبتوں کی ڈور آپس میں قائم تھی لیکن آہستہ آہستہ ہم ترقی کرتے گئے ، ترقی کرتے کرتے انسان سے روبوٹ بن گئے۔اب روبوٹ میں احساس کہاں سے لائیں؟

شیئر: