Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘

* * * * جاوید اقبال* * * *
تو پاکستان میں 6ستمبر 1965ء کے دن ایک قوم نے جنم لیا تھا جو واہگہ کی سرحد پر 18 برس پیشتر پار سے آنے والی لاشوں اور بدن دیدہ مائوں بہنوں کا سانحہ اپنے دلوں میں اتارے ریڈیو پر شکیل احمد کی گہری مرد انہ آواز میں خبریں سنتی تھیں اور ہر خبر پر ، ہر لفظ پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتی تھیں۔ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ مغربی پاکستان میں رات کے 9اور مشرقی پاکستان میں ساڑھے 9بجے ہیں۔ اب آپ شکیل احمد سے خبریں سنیے ’’محاذ جنگ پر ہماری جانباز فوج کی پیشقدمی جاری ہے۔ چونڈہ کے معرکے میں ہمارے فوجیوں نے دشمن کے 2درجن سے زائد ٹینک تباہ کردیئے۔ جوڑیاں سیکٹر میں بھی ہماری پیشقدمی جاری ہے اور قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا۔ ہمارے ہوائی جہازوں نے پٹھانکوٹ اور ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے اور دشمن کے کئی جنگی جہاز تباہ کردیئے۔
دریں اثنا ء .....‘‘ اور تاریکی اور شہر کی چھتیں نعرے ہائے تکبیر سے لرزنے لگتیں ۔ اسی دوران میں قریبی کارخانے کا بھونپو پھٹ پڑتا اور لگاتار چلاتا اطلاع دیتا کہ بلیک آئوٹ کا وقت ہے اسلئے گھروں میں اندھیرا کرو اور قریب کھدے مورچوں میں پناہ لے لو۔ دشمن کے ہوائی جہاز بمباری کرنے آرہے ہیں۔ نومولود قوم جذبۂ جہاد سے سرشار ہوتی، روشنیاں کیوں بند کرتی؟ اللہ اکبر کے نعرے لگتے اور سب چھتوں پر آن کھڑے ہوتے۔ فضا میں دشمن کا طیارہ ہوتا اور اسکے تعاقب میں ہمارے جہاز ہوتے۔ ہوائوں میں شور قیامت ہوتا۔ چوہے بلی کاکھیل۔ نعروں سے فضا تھرا رہی ہوتی کہ دشمن جہاز زد پر آجاتا۔ دھویں کی لکیر بناتا قلابازیاں کھاتا زوال پذیر ہوتا پھر دور کہیں آگ کا گولا بن جاتا۔ لوگ لپکتے اور سوختہ ٹکڑے اٹھا کر اپنے گھروں کی آرائش بنالیتے۔ کیا دور جنوں تھا ۔ جغرافیائی خطوط تو 14اگست 1947ء کو کھینچے گئے تھے لیکن ان کے اندر آباد ہجوم کو شناخت اور باہمی چاہت 18برس بعد ملی۔ شکیل احمد، شمیم اعجاز، انور بہزاد اور مسعود تابش کی درازی ٔ عمر کی دعائیں مانگی جانے لگیں۔ چترال سے کراچی اور اس سے آگے چٹاگانگ تک جیسے ایک ہی پاکستانی تھا ۔
پھر لفظوں میں لطف سلیم پھونکنے والے بھی ریڈیو پاکستان پر اکٹھ کرآئے۔ ایسا ایسا گیت لکھا کہ لہو میں ابال اٹھاتا تھا اور مغنیوں نے ان نغموں کو ایسے دل و جان سے لہر میں ڈالا کہ سامع مسحور ہوگیا۔ چند ایک کاوشیں تو آج بھی رگ جاں میں زلزلہ اٹھاتی ہیں۔ ہوش و خرد سے بیگانہ کرتی ہیں۔ مہدی حسن کا گایا ’’اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں‘‘ نورجہاں کا ’’ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے‘‘۔
نسیم بیگم کا نغمگی کا نمائندہ ’’اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘۔ نورجہاں کے گائے ’’میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیا رکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا جرنیل نیں کرنیل نیں، اے وطن کے سجیلو جوانو! میرے نغمے تمہارے لئے ہیں، میرا سوہنا شہر قصور نیں اور رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘‘۔تاریخ حرب کو ہمیشہ وقار عطا کرتے رہیں گے۔ مہدی حسن نے لاہور کو یوں گاکر خراج تحسین پیش کیا:
’’خطۂ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
غازیوں کو شہریوں کو شہسواروں کو سلام‘‘۔
شوکت علی کا گایا ’’غازیو، مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ اور مسعود رانا کا ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ تو اب تک زبان زد عام ہیں۔ مؤخر الذکر ملی ترانے کی دھن تو اب بھی ہر فوجی مارچ میں بجائی جاتی ہے حتی کہ اکثر جب کوئی دلہا نکاح کیلئے گھر سے روانہ ہوتا ہے تو کرائے پرآیا بینڈ بھی اپنی کارکردگی کا آغازاسی دھن سے کرتا ہے۔ جنگ ستمبر کے 17دنوں میں قومی جذبے کا یہ عالم تھا کہ نغمہ نویسوں ، موسیقاروں اور گائیکوں نے یہ گیت تیار کرانے کیلئے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ کہا جاتا ہے کہ نورجہاں پورے 17دن ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت میں مقیم رہیں مسلسل ریکارڈ نگ کراتی رہیں۔ اس نے کرفیو پاس حاصل کررکھا تھا اور اپنی گاڑی میں سازندوں کو ان کے گھروں سے ہمراہ لاتی تھیں۔ ریڈیو سے پنجابی زبان میں نشر ہونے والا ایک اور پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ بھی انتہائی مقبول تھا۔
اس کے مرکزی کردار مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین ہوتے تھے جو اپنے ایک ساتھی چوہدری صاحب کے ساتھ مل کر انتہائی دلچسپ گفتگو کیا کرتے تھے۔ جنگ ستمبرمیں انکے کئے گئے پروگرام کلاسیک ہوچکے ہیں۔ جنگ میں دونوں طرف کے فوجی دشمن کے ہاتھ لگ جاتے تھے چنانچہ ایک دن جالندھر سے نشر ہونے والے پنجابی زبان کے پروگرام نے نظام دین پر طنز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کے والد قید کرلئے گئے ہیں اور جالندھر ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر بٹھا دیا گیا ہے۔ اس ہندوستانی پروگرام کے ا ختتام پر لاہورسے ’’جمہور دی آواز‘‘ چلا کرتا تھا چنانچہ جب اس کا آغاز ہوا تو چوہدری صاحب نے کہا: ’’نظام دین جی آپ آج بہت اداس ہیں خیریت تو ہے؟‘‘ تھوڑے سے توقف کے بعد نظام دین کی آواز آئی۔ ’’چوہدری صاحب کل میرے ابا جی اپنی بہو کو لینے جالندھر گئے تھے ابھی تک میری اہلیہ کے ہمراہ واپس نہیں آئے۔بس یہی پریشانی ہے‘‘۔ ریڈیو جالندھر اور لاہور ریڈیو میں چشمک چلتی رہتی تھی لیکن نظام دین کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا تھا اسی لئے ہندوستانی جنگی تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا تھا کہ ریڈیو پاکستان کے ترانوں نے آدھی جنگ جیت لی تھی۔ لیکن میرا یہ خیال بھی ہے کہ جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ رہنما اپنی قوم کو کیسے ان معرکوں کیلئے مستعد کرتا ہے۔
صدر محمد ایوب خان کی 6ستمبر کی الطاف گوہر کی لکھی تقریر ہمیشہ ہماری قوم کے خون میں انگارے بھرتی رہیگی۔
’’میرے عزیز ہموطنو! السلام علیکم! 10کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آپہنچا ہے۔ آج بھارتی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور کی جانب سے حملہ کیا ۔ بھارتی حکمران شروع سے ہی پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کی علیحدہ آزاد مملکت کو انہوں نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کے 10کروڑ عوام جن کے دلوں کی دھڑکن میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کیلئے خاموش نہ ہوجائیں۔ ہندوستانی حکمران شاید یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔
ہمارے دلوں میں ایمان اوریقین محکم ہے۔ جنگ شروع ہوچکی ہے۔ دشمن کو فنا کرنے کیلئے ہمارے بہادر فوجیوں کی پیشقدمی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی مسلح فوجوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع عطا کیا ہے ۔ میرے ہموطنو! آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو(آمین) پاکستان پائندہ باد‘‘ لیکن اب کے مختلف ہوگا اگر جنگ کا آغاز ہوا تو صدارتی خطاب تو شاید یہی رہے ،ریڈیو پاکستان کا کردار نہیں ہوگا۔ شاعروں، مغنیوں ، سازندوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی شایدپاکستان اپنا وہ انڈہ پھوڑ دے جو اس کی امن پسند مرغی نے28مئی 98کے دن دیا تھا۔

شیئر: