Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”تھما دیا تجھے کشکول ا ن لٹیروں نے“

تصویر میں بیٹھے چند نو جوان ما یو سی کا شکار ہیں ، وہ دو وقت کی روٹی کمانا چاہتے ہیں
 تسنیم امجد ۔ریاض
وطنِ عزیز میں عوام کے حو صلے قابلِ ستائش ہیں ۔وہ نہایت متا نت اور صبرو تحمل سے نا مسا عد حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔کاش اس حقیقت کا ادراک کر لیا جاتا کہ حکومت ،حکمران اور رعایا ایک درخت کی مانند ہیں جس کا سایہ دار ہونا ضروری ہے ۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویرکیسی مظلو میت کا نقشہ پیش کر رہی ہے ۔آزاد ممالک میں اگر عوام خوشحال ہوں تو اس قسم کے کام کاج کرنے میں کو ئی مضائقہ نہیں کیونکہ کام کرنا تو عبادت ہے ۔یہی ہمارے دینِ اسلام کی تعلیمات عالیہ ہیں ۔ تصویر میں بیٹھے چند نو جوان ما یو سی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں جو پرانے جوتے فروخت کر کے دو وقت کی روٹی کمانا چاہتے ہیں۔کاش انہیں کسی اور کام پر لگا کر ان کی قوت و قا بلیت سے بھر پور استفادہ کیا جائے ۔
آ زادی کی نعمت تو حسرتوں سے نجات کا ذریعہ ہے ۔برسوں قبل سیکنڈ ہینڈ اشیاءکاایک الگ بازاردیکھا تو حیرانی ہوئی اور دادا سے پوچھاکہ انگریزوں کی اُترن یہاں کیوں فروخت کی جا رہی ہے ۔کیا یہ ہم وہاں چھو ڑ آئے تھے؟اس پر جو ہمیں جواب ملا وہ ابھی تک یاد ہے۔ دادا نے کہا کہ بیٹا! شاید غلا می کی یاد کو تا زہ رکھنے کے لئے اس اترن کو پہننا ضروری ہے۔
ہم نے تو سوچا تھا کہ بی اماں کی طرح گھر گھر چر خا کا تا جائے گا اور اس دور کی یا دوں کو دماغ سے کھرچ کر نکال پھینکا جائے گا لیکن افسوس ہم ایسا نہ کر سکے ۔معا شرتی تفریق کا بیج کچھ اس طرح سے بو دیا گیا کہ ہم اپنا ما ضی بھول کر توتو، میںمیں کی ہا ہا کار میںپھنس گئے ۔کا ش آزادی کی قدر و قیمت کا اندازہ ہمیںان قوموں کے حالات دیکھ کر ہو جائے جو آج بھی اس نعمت کے لئے تڑ پ رہی ہیں۔
”فرنگی اُترن“ کے اس با زار کا نام لنڈا بازار تھا جس کی بنیاد بھی ایک انگریز خا تون نے رکھی تھی جس کا نام ”لِنڈا“ تھا۔وہ رحم دل تھی۔ اس نے اترن مفت میں دینا چاہی تھی لیکن عزتِ نفس کا احترام کرتے ہوئے اس نے سستے دامو ں ملبوسات دینا شروع کر دیئے ۔
واہ!کیا خوب تاریخ ہے ؟وہ مسلمان جن کی قابلیت کا گورے دم بھرتے رہے ،جو جھکنا نہیں جانتے تھے لیکن بعد کے محا فظو ں نے ان کی جانب سے رحم کی بھیک قبول کر لی ۔تب بھی ہمارے صاحبان کرسی کی طلب میں تھے ۔قا ئد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعدسیاسی کھیل شروع ہو گیا جو اب تلک جاری ہے ۔ عوام کے نصیب میں مجبوری ،لا چاری اور بے بسی لکھ دی گئی ہے ۔اب تو یہ اترن بھی ضرورت مندوں کی پہنچ سے باہر ہے کیونکہ اس بازار کی ہر شے پر ”ہیوی ڈیوٹی“ لگ چکی ہے ۔50روپے کی چیز 100 اور100 کی 250 تک پہنچ چکی ہے ۔ اس کی وجہ ریلوے کے محکمے کے مسائل ہیں ۔مال کی تر سیل میں مہینو ں لگ رہے ہیں ۔مو سمی کیفیات سے سامان متا ثر ہوتا ہے۔تا جروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کا نقصان کمر توڑ دیتا ہے ۔
آج غربت اور مہنگا ئی دو ایسے مسائل ہیںجنہوں نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔گھر سے نکلنے والا شخص صبح ایک عزم لے کر نکلتا ہے کہ شام کو بچوں کے لئے کچھ کما کر لا ﺅ ں گا لیکن خالی جیب اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔آپا دھاپی کا سما ں ہے۔بقول شاعر:
ہر کوئی اپنی اذیت کے شور میں گم ہے 
کسے خبر کوئی چیخا کوئی کرا ہا کیو ں ؟
سیکنڈ ہینڈ یعنی پرانی اشیاءسفید پو شی کا بھرم رکھنے کا اہم ذریعہ ہیں ۔بر انڈز جو نسل نو کے لئے اہم ہو چکے ہیںیہا ں تشنگی کو تشفی دے رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے اجداد کے سادہ اصولوں کو کتابوںتک محدود کر دیا ہے ۔عملی زندگی پر اس کی چھاپ کہیں نہیں رہنے دی ۔سو چو ں میں ہم آہنگی وقت کا تقا ضا ہے ۔ جڑ وں کو کھو کھلا کرنے والی تمام خرا بیو ں کا قلع قمع صرف یکجہتی سے ہی ممکن ہے ۔با ہمی تعاون سے ہی ان لو گوں سے جان چھڑائی جا سکتی ہے جو ہرمرتبہ ہماری وجہ سے ہی ہم پرمسلط ہو جاتے ہیں۔جمہوریت کی آڑ میں وطن لوٹنے والوں سے نجات ضروری ہے ۔جب تک افسر شاہی پر فیو ڈل لا رڈز کا قبضہ رہے گا ،تب تک تبدیلی ممکن نہیں ۔ہر با شعور شہری آج اس حقیقت کو سمجھ چکا ہے لیکن یکجہتی مفقو د ہو نے کی وجہ سے منز ل تک رسائی مشکل ہو رہی ہے ۔حالات کی پکار ہے کہ:
نہ وہ عشق میں رہیں گر میا ں،نہ وہ حسن میں رہیں شو خیا ں
نہ وہ غز نوی میں تڑ پ رہی ،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
ہم د ہری زندگی گزارنے پر مجبور کیو ں ہیں؟نسل نو کو ہم ہی سیکو لر زندگی کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ہم 70برس کے بعد بھی مضبوط بنیا دیں حا صل نہ کر سکے ۔اس لئے کہ:
مرے وطن تجھے لو ٹا ہے بے ضمیرو ں نے 
غریب نے تجھے بخشا ہے نہ امیروں نے
چلا ہے داﺅ جہاں جس کا اس نے لو ٹا ہے
تھما دیا تجھے کشکول ا ن لٹیروں نے
ملک کے وسائل کو صرف اپنے لئے استعمال کرنے والوں کا محاسبہ قدرت ضرور کرے گی ۔ملکی سیاست پر وڈیروںاور جا گیر داروں کے ساتھ ساتھ صنعتکاروں کا قبضہ دور کرناوقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ ایسے لو گو ں کی تعداد میں اضافہ ہو گا جن کی نبض چلتی اور دل دھڑ کتا ہو گا ۔ وہ زندہ درگور ہوں گے۔عالمی بینک کی گزشتہ رپورٹ کے مطابق وطن میں 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ 21 فیصد اس سے بھی نچلی سطح پر ہے۔ 
 
 
 
 
 

شیئر: