Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” اس کے پیروں کے حُسن نے سینڈل کو چار چاند لگا دئیے “

وہ اپنی مدد آپ پر زور دیتی کہ ہم سب اپنی تعلیم پر توجہ دیں
اُم مزمل۔جدہ 
وہ اپنی گرے گولڈن سینڈل نما چپل تلاش کر رہی تھی۔آخر پوچھ بیٹھی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے فلاں رنگ کی چپل بنوانے بھیجی تھی ،وہ کہاں گئی؟اس کے ساتھ آنے والا 8 سالہ بھائی فوراً بول اٹھا وہ رہا ۔جفت ساز نے کہاکہ جی میں نے مرمت والی جوتیوں کو الگ رکھا ہواہے۔باقی سارے جوتے اور سینڈل وہ ہیں جن کے مالک انہیںلینے نہیں آئیں گے۔ اس نے بنوائی دے کر اپنی سینڈل پہن لی ۔ اسے لگا جیسے اس سینڈل میں زندگی آگئی ہو۔بالکل اس طرح جیسے بنجر زمین میںبارش کے بعدزندگی آجاتی ہے ۔کھیت کی ہریالی پر نظر نہیں ٹھہرتی۔اسی طرح اس کے پاﺅںکے حُسن نے سینڈل کو چار چاند لگا دئیے تھے۔ وہ نقاب میں نہیں تھی لیکن اس نے مستور انداز میں سر پر بڑا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا ۔ 
وہ سگنل پر رَکی ٹریفک میں اپنے کھٹارا اسکوٹر پر سوار تھا کہ اسے لب سڑک جفت سازی کی ”اوپن ایئر دکان“ نظر آئی جہاں سے وہ اپنی سینڈل پہن کر گئی تھی۔ اسکے ساتھ موجود اسکا بھائی واپسی پر چلانے کے انداز میں کہہ رہا تھاکہ جلدی چلیں باجی! آپکی سہیلی کے گھر درس بھی شروع ہو گیا ہو گا اور میرا میچ بھی۔وہ دونوں پلٹ کر ذیلی سڑک پر مڑ گئے ۔ کوشش کے باوجودوہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا لیکن ارادہ اس امتحان میں کامیابی کے بعد کر لیا کہ اس جگہ ضرور اپنی اماں کو بھیجے گا۔ چھوٹے بھائی کی شکل اسکے ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی۔
وہ ٹیوشن پڑھنے کے لئے آئے ہوئے بچوں کو بتا رہی تھی کہ دنیا میں تین اقتصادی نظام ہےں۔ایک اشتراکیت جس میں ریاست میں تمام افراد کی دولت دراصل ریاست کی ہوتی ہے ۔ چاہے کوئی مزدور ایک سو کماتا ہو اور خواہ کوئی انجینیئر ایک لاکھ، مگر وہ اپنے کمائے ہوئے پیسے کے مالک نہیں ہوتے ۔ ریاست معاشرے میں موجود ہر فرد کو ایک جیسا بنانے کے لئے خوراک، رہائش وغیر ہ کے لئے ایک مقررہ رقم دے دیتی ہے۔ 
سرمایہ دارانہ نظام میں ریاست کی تمام دولت چند ہاتھوں میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے امیر آدمی امیر تراور غریب آدمی غریب تر ہوتا جاتا ہے ۔
اسلامی نظام کا ایک حُسن یہ بھی ہے کہ جو جتنی محنت اور کوشش کرتا ہے اور قسمت اسے جو دیتی ہے، وہ اس تمام کا مالک بنا دیا جاتاہے۔اسلام نے صاحب نصاب مسلمانوںکو زکوٰة ادا کرکے اپنے مال کوپاکیزہ بنانے کا طریقہ بتایا ہے۔ زکوٰة کا پیسہ غریب کودیا جاسکتا ہے اور اسکو اس پیسے کا مالک بنا دیا جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر ہر صاحب نصاب زکوٰة کی ادائیگی کرے تو کوئی ضرورت مند معاشرے میں موجود نہ رہے۔
وہ اپنی مدد آپ پر زور دیتی کہ ہم سب اپنی تعلیم پر توجہ دیں، اپنے اوپر لازم کر لیں کہ کم از کم اپنی زندگی میں ایک سو طالب علموں کا خرچ اٹھا ئیں گے، ان کو تعلیم دیں گے تو ہمارے معاشرے میں کوئی غیر تعلیم یافتہ نہیںرہے گا۔ علم ہمیں آگاہی دیتا ہے، جہالت کی گمراہی سے ایمان کی روشنی کا سفر طے کراتا ہے۔ 
جاننا چاہئے رزقِ حلال ہر روحانی بیماری کا علاج ہے۔
 
 
 
 
 

شیئر: