Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے بارے میں چینی رویہ میں تبدیلی

شمالی کوریہ کے تنازعہ پر چین اور روس کا مشترکہ اعلان ’’ہینگ لگی نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آیا‘‘ کے مترادف ہے
* * * *صلاح الدین حیدر* * * *
پُرانی مثل سر منڈاتے ہی اولے پڑے، آج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دِکھائی دیتی ہے۔ پاکستان پچھلے ایک سال سے اندرونی اختلافات کا شکار تھا، وہ اُس سے نکلنے کی کوشش میں سرگرداں تھا کہ بیرونی خطرات نے آلیا۔ اوپر تلے 2 ایسے واقعات ہوئے کہ اہلیانِ وطن (جو ویسے ہی خیر کی دعا مانگتے رہتے ہیں) میں سراسیمگی پھیل گئی، اب تو حکمراں طبقہ بھی پریشان نظر آرہا ہے۔ اولاً یہ کہ کراچی یونیورسٹی جو شہر کی اعلیٰ ترین درس گاہ ہے، اُس میں دہشت گرد چھپے ہوئے ملے، دو ایک گرفتار بھی ہوئے، لیکن جو سوال بہت زیادہ پریشان کُن ہے وہ یہی کہ کیا ملک کے دوسرے علاقوں کی جامعات میں بھی یہی حال ہے، یا وہاں کچھ عافیت باقی ہے ابھی۔ ہم اس پریشانی میں مبتلا ہی تھے کہ ایک اور دھماکا ہوگیا جو ایسے وقت میں ہوا، جب ملک بے شمار خطروں سے دوچار ہے۔
چین جیسا قابل اعتماد دوست ، جو پچھلے 55 سال سے پاکستان کے ہر بُرے وقت میں چٹان کی طرح ہمارا دفاع کرتا رہا، ہند تک کو خبردار کیا کہ پاکستان پر بُری نظر نہ ڈالی جائے،اب اسی چین نے بیجنگ میں ہونے والی5 ملکوں کی اعلیٰ ترین تنظیم برکس(BRICS) (جو مخفف ہے برازیل، روس،انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کا) کی دوسری سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے خلاف ووٹ دے ڈالا۔ ظاہر ہے حکمرانوں پر جو گزری سو گزری، لیکن عوام النّاس جو چین کا دم بھرتے تھے، اُن پر یہ تبدیلی بجلی بن کر گری۔ برکس کانفرنس پہلی مرتبہ ہند کے دارالحکومت دلّی میں ہوئی تھی، جہاں ہندوستانی وزیراعظم مودی نے پاکستان کے خلاف دہشتگرد ملک کی قرارداد پیش کی تھی، لیکن چین اور روس نے اُسے مسترد کردیا تھا۔ مودی کی تمام تر مذموم کوششیں ناکام ہوگئی تھیں۔ تنظیم کی دوسری سربراہی کانفرنس اس بار چین کے دارالحکومت میں ہوئی۔ ایک قرارداد جس میں پاکستان کو ذمے دار ٹھہرایا گیا کہ جیش محمد، لشکر طیبہ اور طالبان تحریک کا حمایتی حقانی نیٹ ورک، پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اسلام آباد اُن کو ملک سے باہر نکالے۔
یہ بہت بڑی بات ہے اور ذرا باریک بینی سے غور کیا جائے تو صورت حال کسی انجانے خطرے کی نشان دہی کررہی ہے۔ سوچنا صرف یہ ہے کہ آخر چین، جس نے ہند تک کو دھمکی دے دی تھی کہ خبردار پاکستان کو میلی نگاہ سے نہیں دیکھنا، ہر بین الاقوامی محاذ پر اُس نے ہماری پشت پناہی کی، ہمیں بہت مشکل اور تکلیف دہ حالات سے باہر نکالا یا نکالنے میں مددگار ثابت ہوا، چین ہمارا ایسا قابلِ قدر اور قابل بھروسا دوست رہا ہے، پھر اچانک اُس کے رویے میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آگئی۔ حافظ سعید کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اُنہیں پناہ نہ دے، لیکن چین نے اُس کا بھرپور جواب دیا، یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، کسی بیرونی قوت کو اس میں مداخلت کی قطعاً ضرورت نہیں۔
امریکہ بہادر خاموش ہوگیا۔ آخر چین اب ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے، اُس کے آگے بڑوں بڑوں کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ شمالی کوریا کی مثال لے لیجیے۔پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے حال ہی میں دئیے جانے والے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے شمالی کوریا کو ایٹمی طاقت بنانے میں مدد دی تھی، اُسے میزائل ٹیکنالوجی بھی فراہم کی۔ شمالی کوریا نے جاپان کے سمندر میں میزائل کا تجربہ کیا، جاپان اور جنوبی کوریا کو اپنی حفاظت کا خطرہ لاحق ہوا تو اُنہوں نے جرمنی، فرانس اور امریکہ کی مدد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرڈالا۔ 15بڑے ممالک نے شمالی کوریا کو تنبیہ بھی کی، لیکن سلامتی کونسل کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اُس کے خلاف کوئی بڑا قدم اُٹھاسکے۔
ایک مبہم سی قرارداد پر اکتفا کیا گیا کہ شمالی کوریا پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں، یہ تو بہت پُرانا نسخہ ہوگیا ہے اور بالکل بے اثر۔ پھر چین اور روس نے مشترکہ طور پر اعلان کیا کہ آبنائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔ گویا شمالی کوریا پر ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں شمالی اور جنوبی کوریا پر یکسر بار ڈال دیا گیا۔ یہ ایک Comprise فارمولا تھا جو چین نے اپنایا اور روس نے اُس کی حمایت کی۔ دوسرے الفاظ میں بات آئی گئی، ٹل گئی، ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آیا۔ اس سارے پس منظر میں چین اور روس سے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن ایسا ہی ہوا۔ ہندوستانی حکومت اور وہاں کا میڈیا تو خوشیوں کے شادیانے بجانے لگا کہ بالآخر ہند کو فتح اور کامیابی حاصل ہوگئی، یہی صورت حال رہی اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اور وزیر خارجہ صرف بغلیں بجاتے رہے تو ہند ایک دن سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بھی بن جائے گا، ہم کھیت سے چڑیاں ہی اُڑاتے رہیں گے۔ پاکستانی قوم کو توقع تھی کہ اُن کی وزارت خارجہ برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف سخت موقف اختیار کرے گی، لیکن وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ خواجہ آصف کی طرف سے ایک جملے کا بے اثر بیان سامنے آیا کہ ہمیں روہنگیاکے مسلمانوں پر تشدد پر تشویش ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردوگان کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے، اُنہوں نے نہ صرف اپنی اہلیہ اور کابینہ کے وزیر کو میانمار بھیجا بلکہ ایران کی طرح یہ اعلان بھی کردیا کہ اُنہوں نے سارے سربراہان مملکت سے رابطہ کیا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی رابطہ کیا ہے، اُمید ہے جنرل اسمبلی کا اجلاس 19 ستمبر کو بلالیا جائے گا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سراسیمگی کے عالم میں یہ بیان ایک ٹیلی وژن پر آکر دیا کہ ہمیں بھی دہشت گردی پر تشویش ہے اور اگر پاکستان میں جہادی تنظیمیں، حکومتی پابندی کے باوجود کام کررہی ہیں تو ہم اُن کے خلاف ضرور تادیبی کارروائی کریں گے۔ یہ پھیکا بیان تھا، نتیجہ وہی ڈھاک کے 3 پات نظر آتا ہے۔ کئی مبصرین نے تو کھل کر کہہ دیا کہ وزیر خارجہ کو فوری طور پر چین اور روس کا دورہ کرنا چاہیے، معلوم تو کریں کہ آخر اُن ملکوں کا ارادہ کیا ہے؟ آخر ہند کی بات کیوں مانی گئی، اتنی بڑی تبدیلی آئی توکیسے آئی ۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا لازم ہی نہیں فوری توجہ طلب بھی ہے، نہ جانے اعلان کے باوجود خواجہ آصف نے اب تک چین اور روس کا دورہ کیوں نہیں کیا۔ ہم نے شروع میں یونیورسٹی اور تعلیم کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں انصار الشریعہ جیسی دہشت گرد تنظیم کا ذکر کیا تھا۔ یہ عقدہ تو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر حملہ ہونے کے بعد کھلا، وہ تو بچ گئے، لیکن پولیس کا سپاہی اور معصوم بچّہ موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا، دو تین لوگ زخمی بھی ہوئے۔
خدا بھلا کرے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا، جنہوں نے اس پر شدید ردّعمل کا اظہار کیا اور سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی قیادت سے فوراً رابطہ کیا جائے اور اُن کے اسمبلی ارکان کی حفاظت کے لئے اقدامات کیے جائیں، اُن کے احکامات سے پوری سندھ حکومت (جو خواب خرگوش میں مبتلا تھی) ہڑبڑا کر جاگ اُٹھی اور وزیراعلیٰ حج سے واپسی پر سب سے پہلے خواجہ اظہار کے گھر تشریف لے گئے۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز، میجر جنرل محمد سعید بھی اُن کے گھر پر گئے، یکے بعد دیگرے دوسرے تیسرے وزیر اظہار الحسن کے گھر آتے جاتے رہے لیکن اس سارے معاملے میں جو بات نکل کر سامنے آئی وہ فوری طور پر توجہ کی طالب تھی، خواجہ اظہار پر حملہ کرنے والا ایک پروفیشنل انجینیئر تھا، اُس کے والد ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔ حسن تو ہلاک ہوگیا، لیکن اُس کے شناختی کارڈ سے پتا چلا کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں Applied physics کا طالب علم ہے، اُس کا باپ انصار الشریعہ (جس کے تانے بانے طالبان اور القاعدہ سے ملتے ہیں) کا سربراہ ہے، کافی چھاپوں اور تفتیش سے پتا چلا کہ جامعہ کراچی اور شہرِ قائد کی2 انجینیئرنگ یونیورسٹیوں میں دہشت گردی پھیل رہی ہے، یہ انتہائی تشویش ناک خبر ہے، اس سے لوگوں میں ایک بار پھر خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر ہماری جامعات میں ایسے لوگ پڑھ رہے ہیں تو پھر اس کے تدارک کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ طلباء کے بارے میں چھان بین کی جائے اور کڑے حفاظتی اقدامات کیے جائیں ورنہ یہ تو خطرے کی گھنٹی ہوگی، جس سے فرار ممکن نہیں ہوگا۔

شیئر: