Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت کا قتل

گوری لنکیش کے بہیمانہ قتل کیخلاف قومی اور عالمی سطح پر جو زبردست احتجاج کیاگیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے
* * *معصوم مرادآبادی* * *
وہ ایک کمزور اور ناتواں عورت سے اتنے خوفزدہ تھے کہ اسے رات کی تاریکی میں قتل کردیا۔ اس کے ناتواں جسم میں گولیاں پیوست کرتے وقت انہیں اس بات کا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ خود کو بہادروں کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ بہادر کبھی کمزور اور نہتے لوگوں پر وار نہیں کرتے مگر انہوں نے تاریکی کا فائدہ اٹھاکر ایک نڈرعورت کو اس کے آنگن میں بے دردی سے قتل کردیا۔ اب وہ سوشل میڈیا پر اپنی بہادری کے قصے اتنی بے شرمی سے بیان کررہے ہیں کہ سبھی کو اس پر شرم آرہی ہے۔ موت کسی کی بھی ہو صدمے کا احساس دلاتی ہے لیکن انہوں نے گوری کی موت پر جو بے ہنگم رقص پیش کیا ہے، وہ ان کے انسان ہونے پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ گوری کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک بیباک صحافی تھیں اور پوری جرأت کے ساتھ ظلمت پسند طاقتوں کے خلاف لڑرہی تھیں۔
وہ فرقہ وارانہ منافرت اور ہندتو کیخلاف اپنے قلم سے تلوار کا کام لیتی تھیں۔ گوری کے وحشیانہ قتل پر پورے ملک میں غم وغصے کی شدید لہر ہے اور بے شمار لوگ اس کی تصویریں لے کر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوری کا قتل ایک بزدلانہ حرکت ہے اور یہ ملک میں آزادانہ صحافت اور جمہوریت کے خلاف سب سے سنگین جرم ہے لہٰذا گوری کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔ گوری ایک عرصے سے ہندتوا بریگیڈ کے نشانے پر تھیں کیونکہ وہ اپنی تحریروں میں فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کیخلاف کھل کر اظہار خیال کرتی تھیں۔ ان کی یہ جدوجہد محض قلمی جہاد تک محدود نہیں تھی بلکہ ایک سماجی کارکن کے طورپر وہ فرقہ واریت مخالف پروگراموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ انہوں نے خود کو جمہوریت اور سیکولرزم کیلئے وقف کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فسطائی طاقتیں گزشتہ ایک عرصے سے ان کی جان کے پیچھے پڑی ہوئی تھیں۔ پچھلے سال ان کیخلاف بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ پرہلاد جوشی نے قابل اعتراض رپورٹ چھاپنے کے الزام میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ وہ کنڑ زبان میں شائع ہونے والے ایک مقبول عام ہفتہ وار’’گوری لنکیش پتریکا‘ ‘کی ایڈیٹر تھیں اور اسی ہفتہ وار میں مذکورہ رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس مقدمے میں انہیں مقامی عدالت نے6 ماہ کی سزا سنائی تھی۔
وہ فی الحال ضمانت پر تھیں لیکن فرقہ واریت اور سنگھ پریوار کی جھوٹی پروپیگنڈہ مہم کیخلاف ان کا قلمی جہاد پہلے ہی کی طرح جاری تھا۔ انہوں نے اپنے آخری اداریے میں بھی سنگھ پریوار کے جھوٹے پروپیگنڈے کی پول کھولی تھی۔اس کمرشیل دور میں بھی ان کے ہفتہ وار میں کوئی اشتہار شائع نہیں کیا جاتا تھا اور اس جریدے کو 50 لوگوں کا ایک گروپ مل کر چلاتا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں ریاست کرناٹک میں یہ کسی صحافی یا ادیب کے قتل کی تیسری سنگین واردات ہے۔
30 اگست2013کو نریندر دابھولکر اور 30اگست 2015کو گووند پنسارے کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ یہ دونوں توہم پرستی اور فرقہ واریت کے خلاف سنگھرش کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ ان دونوں دانشوروں کے قاتلوں کو آج تک سزا نہیں مل سکی کیونکہ یہ ہنوز قانون کی گرفت سے دور ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ گوری کے قاتل قانون کی گرفت میں آئیں گے یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب سے ملک کے اقتدار پر فسطائی طاقتوں کا قبضہ ہوا ہے، تب سے ان آوازوں کو کچلنے اور خاموش کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں جو ملک میں فرقہ واریت اور فاشزم کیخلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔
فسطائی طاقتوں کا نشانہ صحافیوں کے علاوہ ایسے ادیب اور دانشور بھی ہیں جو آزادانہ سوچ رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کا دباؤ قبول نہیں کرتے۔ ان صحافیوں اور دانشوروں کوخوف زدہ کرکے انہیں اپنی سرگرمیوں سے باز رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ حاکمانِ وقت کے تمام جوروستم کے باوجود یہ عناصر اپنے مشن پر گامزن ہیں۔ ان کی یہ جرأت اور بہادری حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھارہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوری قدروں کے فروغ ، سیکولرازم کی بقاء اور اظہار خیال کی آزادی کا دفاع کرنے والے عناصر اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ارباب اقتدار نے میڈیا کے ایک حصے کو اپنا ترجمان بنالیا ہے اور میڈیا میں وہی کچھ دکھایا جارہا ہے، جو حاکمانِ وقت کو پسند آتا ہے۔ ایسی کوئی بات میڈیا میں نہیں آنے دی جاتی جس سے حکومت کی ناکامی یا حکمرانوں کے نکمے پن کا پتہ چلتا ہو۔ گوری لنکیش ملک کے اُن نامور اور بیباک صحافیوں میں شامل تھیں جو تمام تر خطرات کے باوجود ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ گوری کا بہیمانہ قتل درحقیقت ایسی آزادانہ آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش ہے جو مظلوموں کے حق میں یا بنیادی انسانی آزادی کیلئے بلند ہوتی ہیں اور اس ملک سے اندھیروں کو مٹاکر یہاں روشنی پھیلانا چاہتی ہیں۔گوری نے آخری سانس لینے سے پہلے روہنگیا مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم کیخلاف ٹوئٹ کیا تھا۔ ان کا بنیادی سروکار ملک وبیرون ملک میں کمزور اور لاچار لوگوں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔ وہ اپنے مشن میں اس حد تک منہمک تھیں کہ مخالفانہ آوازوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔
گوری لنکیش کے بہیمانہ قتل کیخلاف قومی اور عالمی سطح پر جو زبردست احتجاج کیاگیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔گوری کے قتل پر احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک جمہوریت اور سیکولرزم کو بچانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ گوری کے قتل پر صحافتی ، سماجی اور ادبی حلقوں میں جس شدید ردعمل کا اظہار کیاگیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کی تعداد کم نہیں۔یہی دراصل وہ لوگ ہیں جن کے دم سے جمہوریت زندہ ہے۔ حکومت کو بہرحال یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کی زندۂ جاوید آوازوں کو خاموش کرنے اور اظہار خیال کی آزادی کو کچلنے کی کوششیں ہمیشہ ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ جب تک یہ آوازیںزندہ ہیں،اس وقت تک فاشزم کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔

شیئر: