Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’داغ اور کہانی‘‘

ہم نے بھانت بھانت کے اسکولوں سے تعلیم حاصل کی ہے جن میں ایسے اسکول بھی تھے جن کا نام لینے سے پہلے گردن خود بخود اکڑ جاتی تھی
***شہزاد اعظم***
ہمیں ایک بات آج تک سمجھ میں نہیں آ سکی کہ آخر ہمارے معاشرے میں بعض سرکاری اسکولوں کو غیر معیاری اور بعض کو گھٹیا کیوں شمار کیا جاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان اسکولوں میں پڑھائی معیاری نہیں ہوتی۔اساتذہ طلبہ پر توجہ نہیں دیتے۔ اس حوالے سے ہمارا تجربہ بالکل ہی مختلف ہے کیونکہ ہم نے بھانت بھانت کے اسکولوں سے تعلیم حاصل کی ہے جن میں ایسے اسکول بھی تھے جن کا نام لینے سے پہلے گردن خود بخود اکڑ جاتی تھی اور نام ادا کرتے وقت منہ ٹیڑھا کرنا پڑتا تھا۔ اسے سننے والا فوراً اس طرح مرعوب ہو جاتا تھا جیسے ٹشو پیپر پر پانی پڑ گیا ہو۔ ان کے علاوہ ہمیں ایسے اسکولوںسے بھی حصولِ علم کا اعزاز حاصل ہوا جن کے نام سن کرسامنے والے قہقہہ لگانے اور رسوا کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا ۔مثلاً ہم بچپن میں اپنے امی ابو کے ساتھ ایک شہرمیں مقیم ہوئے تو وہاں جس سرکاری اسکول میں داخلہ لیااس کا نام تھا’’ کالا اسکول‘‘۔
ہماری’’ اول کزن‘‘ نہایت امیر ماں باپ کی بیٹی تھیں۔ہم متوسط طبقے میں شمار ہوتے تھے اس لئے وہ ناک بھوں چڑھا کرسال ، ڈیڑھ سال میں ایک مرتبہ ہمارے گھر آجاتی تھیں اور چند منٹ بیٹھ کر واپسی کی راہ لیتی تھیں ۔ اس کی 2 وجوہ تھیں : ایک یہ کہ گلی تنگ و تاریک ہونے کے باعث ان کی عالی شان گاڑی ہمارے گھر کے دروازے تک نہیں آ سکتی تھی اور دوسری بات یہ کہ اتنی چمچماتی عنابی رنگ کی حَسین و خوبصورت گاڑی دیکھ کر وہاں سے گزرنے والی ہر ہستی حسرت و یاس سے اسے دیکھتی اور اس پر ہاتھ پھر کر کسی حد تک اپنی بھڑاس نکالتی جس کے باعث گاڑی پر بعض معمولی اور بعض ضدی قسم کے نشانات پڑ جاتے تھے۔بہر حال اس ’’کزنِ اول‘‘نے ہم سے دریافت کیا کہ آپ کس اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہم نے حقیقت آشکار کرنے کے انداز میں قدرے چلا کرکہا کہ ’’گورنمنٹ سیکنڈری کالا اسکول‘‘۔
اب ہم نے جوابی وار کرتے ہوئے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کس اسکول میں پڑھتی ہیں۔ انہوں نے افشائے راز کے انداز میںپہلے تو گردن ٹیڑھی کی اور پھر اسی ٹیڑھ پن کے تناسب سے منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے بصد افتخارکہا’’جارج اسٹی فن سن سینٹ جوڈز ہائی اسکول فار گرلزاینڈبوائز‘‘۔ یہ کہہ کر وہ صوفے سے اٹھیں کیونکہ ان کی ’’مدر‘‘ ، ہماری ’’اماں‘‘ سے جانے کی اجازت طلب کر چکی تھیںجسے ہماری اماں نے بصد تشکر قبول کر لیا تھا۔
ہمارا دوسرا استدلال یہ ہے کہ شہرت ہمیشہ اسی نام، جگہ یا چیز کو ملتی ہے جوکسی اوجِ کمال کو پہنچ جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسکول ہر خاص و عام میں مقبول ہوتے ہیں۔ہم چونکہ ہر بات دلیل کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں، اسلئے سرکاری اسکولوں کی شہرت کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔وہ یہ کہ ہم کراچی کے علاقے ٹاور سے ڈبلیو 11میں یوسف گوٹھ جانے کیلئے سوار ہوئے۔کنڈکٹر نے سواریاں بٹھانے کیلئے آواز لگانی شروع کی۔ یہاں ہم اس آواز میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے صوتیات کو لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آواز کچھ یوں تھی: ’’لالی کھے، واٹر پمپ ، سہراب گوٹھ، شفیق مل، پاور ہائوس، گودھرا، نیلا، پیلا، کالا، اسکول فرحانہ، نئی کراچینئی کراچی۔‘‘ اب اس پر ہی غور فرما لیجئے کہ سرکاری اسکول اتنے معروف ہوتے ہیں کہ ان کے نام پر بس اسٹاپ بھی قائم ہو جاتے ہیں۔بہر حال یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ ۔
یہ سرکاری اسکولوں کے مذکورہ ناموں کے حوالے سے بالکل درست ہے کیونکہ ہم جس کالے اسکول ’’ٹاٹ کے اوپر، زیر تعلیم‘‘تھے ، وہاں سوائے تختۂ سیاہ کے ،کوئی بھی شے کالی تو دور کی بات سانولی تک نہیں تھی۔ ہماری مس شکیلہ، چہارم کی مس جمیلہ، پنجم کی مس عقیلہ، ششم کی مس انیلہ، ہفتم کی مس نبیلہ، ہشتم کی مس خلیلہ،نہم کی مس راحیلہ اور دہم کی مس شہنیلہ، ایسا لگتا تھا جیسے ’’دودھوں نہا تی‘‘ ہوں۔ہاں ان کے بال سیاہ ضرور تھے مگر تدریسی عملے کے بالوں کی سیاہی کو ’’مرکز مان کر‘‘ اسکول کا نام ’’کالا‘‘ نہیں رکھا جا سکتا۔ اسکول کی یہ مؤنث ہستیاں چونکہ ابھی تک کسی کی حیات میں شریک نہیں ہوئی تھیں اس لئے ان کا لباس بھی نہایت سادہ ہوتا تھا۔ پھولدارقمیص، شلواراور اس پر سفید دوپٹہ ، وہ بھی اتنا لمبا کہ پیدل چلتے وقت زمین پر لٹکتا تھا۔ سرکاری اسکولوں کا ٹھٹھا اڑانے والے ایک الزام یہ بھی دھرتے ہیں کہ وہاں طلبہ و طالبات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
یہ بات بھی بالکل غلط ، بے بنیاد، من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ ہماری مس شکیلہ نے ہم پر اتنی توجہ دی، اتنی توجہ دی کہ آج کتنی ہی دہائیاں بیت چکی ہیںاس کے باوجودوہ ہمیں بھول نہیں پائیں کیونکہ ان کی عطا کی ہوئی آگہی قدم قدم پر ہمیں راستہ دکھاتی ہے،وہ آگہی غیر کو اپنا بناتی ہے، روٹھ جانے وا لے کو مناتی ہے ،زندگی کیا ہے ، سمجھاتی ہے ،زمانے کے ساتھ چلنا سکھاتی ہے ۔ہماری وہ ’’کزنِ اول ‘‘ یا ’’فرسٹ کزن‘‘ امریکہ کی کسی ’’انتہائی مشکل‘‘ یونیورسٹی سے عجیب و غریب سی ڈگری لے کر آ چکی ہیں۔ اسے اپنی کوئی مس یا ماسٹر یاد نہیں۔ وہ ایک ہی بات کہتی ہے کہ ’’ایوری تھنگ از رِٹن دیئراِن دا بُکس۔‘‘ مگر ہم سے پوچھیں، ہمیں مس شکیلہ نے جو کچھ سکھایا، بتایا، سنایا، لکھایا ،سجھایا،وہ کسی کتاب میں نہیں۔ یہ فرق ہے سرکاری اسکولوں اور ’’نجی معیاری‘‘ اسکولوں میں۔ہماری اس امریکہ پلٹ کزنِ اول نے شادی وادی کر لی،پھر اس کے بچے شچے ہوگئے ۔
اب وہ اپنے آپ کو ایسی ’’ڈیسنٹ مدر‘‘ بنانے کی کوششوں میں ہے کہ جسے دیکھ کر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وہ 2بچوں کی ماں ہے۔ اسے اپنے اسکول سے عطا ہونے والی آگہی بالکل بھی یاد نہیں۔ اِدھر ہم ہیں کہ کل ہی ایک اشتہار کے بول ہماری سماعتوں سے متصادم ہوئے تو فوراً مس شکیلہ کی شبیہ یادوں کے سینما گھر کے زریں پردے پر کسی انمٹ نقش کی مانند ابھر آئی۔ جس میں وہ ہمیں باور کرا رہی تھیں کہ پتا ہے ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ضرور ہوتی ہے مگر ہر کہانی کے پیچھے داغ ہو یہ ضروری نہیں۔انہوں نے ہمیں یہ بھی سمجھایا تھا کہ اشتہار ہمیشہ ایسے بنائے جاتے ہیں جو معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہوں۔اگر ان میں لمحۂ موجود کی جھلک نظر نہ آئے تو عوام انہیں مسترد کر دیتے ہیں اور ان اشتہارات میں دکھائی جانے والی اشیاء لوگوں میں مقبول ہونے سے قاصر رہتی ہیں اسی لئے اشتہاروں کو حالا تِ حاضرہ کے عین مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کل ہم نے جو اشتہار دیکھا وہ کپڑوں کی دھلائی کیلئے تیار کردہ پوڈر کا تھا مگر اس نے جو آگہی دی وہ موجودہ حالات کے عین مطابق تھی جس میں ایک جہاں دیدہ خاتون فرما رہی تھیں کہ ’’ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔‘‘ دیکھا آپ نے سرکاری اسکولوں کا معیار ،40سال بعد بھی مس شکیلہ کی عطا کی ہوئی آگہی کیسی سر چڑھ کر بول رہی ہے جبکہ ہماری کزنِ اول کی آگہی ’’ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔واقعی’’ سرکاری اسکول، زندہ باد۔‘‘

شیئر: