Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرجدار آواز، سرخ آنکھیں، سیاہ صندوق

 یہاں پڑھائی بھی ہے، دھنائی بھی،فیسیں بھی ہیں ، ٹیسیں بھی، ٹیچر بھی ہیں، پھٹیچر بھی
 شہزاد اعظم
اسکول چاہے ٹاٹ والا ہو یا ٹھاٹ والا، وہاں گزارے ہوئے لمحات زندگی بھر ذہن و دل پہ سایہ فگن رہتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں مگر چنیدہ وجوہ میں سے ایک دو یہ ہیں کہ اسکول وہ مادر علمی ہوتی ہے جہاں بچہ لکھنے پڑھنے کی ابجد سے واقف ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اسکول اس معاشرے کی عکاسی بھی کرتا ہے جس میں بچے کو ساری زندگی گزارنی ہوتی ہے۔یہاں پڑھائی بھی ہوتی ہے اور دھنائی بھی۔فیسیں بھی ہوتی ہیں اور مختلف ٹیسیں بھی۔یہاں ٹیچر بھی ہوتے ہیں اور پھٹیچر بھی۔استاد بھی ہوتے ہیں اور استانیاں بھی ۔یہ تمام ”موجودات“ ایک ایسا ”معاشرہ“ تشکیل دیتے ہیں جو انسان کو چلنا پھرنا، لکھنا پڑھنا، ہارنا جیتنا، لڑنا مرنا،لڑکھڑانا اور سنبھلنا سبھی کچھ سکھا دیتا ہے۔
ہم نے ٹاٹ والے اسکول سے تعلیم کے گوہر چنے۔ہمارے ساتھ ایک ہردلعزیز ہستی بھی زیر تعلیم تھی۔ اس کا نام ”پاکستان“ تھا۔ ہم نے جب بھی وجہ تسمیہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا کہ میرے والد تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماوں میں سے ایک تھے۔ انہیں پاکستان سے جنون کی حد تک محبت تھی۔اتفاق یہ ہوا کہ میری پیدائش بھی 14اگست کو ہی ہوئی۔امی بتاتی ہیں کہ میری پیدائش سے زیادہ اباجان کو اس بات کی خوشی تھی کہ میں14اگست کو پیدا ہوا ۔میری ولادت کی خبر سنتے ہی انہوں نے آو دیکھا نہ تاو،میرا نام ”پاکستان“ تجویز کر دیا۔
پاکستان بہت ہی شریف النفس، متین الطبع،ذہین و فطین، صحتمند و چاق و چوبند لڑکا تھا۔ وہ ہمارے ”ٹاٹ اسکول“ میں سب سے امیر کبیر باپ کا بیٹا تھا۔ ہم روزانہ سوراخ والا پیسہ لے کر اسکول آتے تھے مگر پاکستان کی جیب میں بٹوہ ہوتا تھا جس میں وہ روزانہ اباجان کے دیئے ہوئے نوٹ لے کر آیا کرتا تھا۔ ہماری جماعت کے باقی لڑکے اس کے بٹوے کو دیکھتے توگویا ان کی رال ٹپکنے لگتی۔ہمارے اسکول میں ”آدھی چھٹی“ کے بعد بھی اسمبلی ہوتی تھی۔ اس اسمبلی میں آئے روز کوئی نہ کوئی پاکستان کی جیب سے نوٹ اڑا لیتا تھا مگر آفرین ہے اس کی شرافت پر کہ اس نے کبھی شکایت نہیں کی۔
وقت گزرتا گیا ۔ پاکستان، ہمارے ساتھ جب دسویںجماعت میں پہنچا تو اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔چچوں نے اس کے اباجان کا تمام کاروبار سنبھال لیا ، اپنی بیوہ بھابھی اوراس کے بچوں کو کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا۔ اب وہ دن بھی آ گیا جب سب بچے گھر سے میٹرک میں داخلے اور رجسٹریشن کی فیس لے کر آئے ۔اس روز بھی اسمبلی ہوئی۔ کسی نے پاکستان کی جیب سے داخلہ فیس بھی نکال لی۔ کمرہ¿ جماعت میں جب سب سے فیس جمع کرانے کے لئے کہا گیا تو پاکستان نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ میرے کسی ہم جماعت نے میری جیب سے داخلہ فیس ہی نکال لی ہے۔ میری جیب سے پیسے نکالنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، گزشتہ 10برسوں سے میرے ساتھ یہی ہوتا چلا آ رہا ہے مگر میں نے آج تک اس کی کوئی شکایت نہیں کی کیونکہ میں یہی سوچتا رہا کہ جس نے پیسے نکالے ہیں وہ بھی میرا ہم جماعت، ہم وطن، ہم زباںاور بھائی ہے ۔ میرے اباجان کا انتقال ہو ا، چچوں نے ہمیں ایک پیسہ نہیں دیا۔ میری امی جان لوگوں کے کپڑے سی کر مجھے پڑھا رہی ہیں۔ ان کے دیئے ہوئے پیسے بھی میرے ان دوستوں نے جیب سے نکالے، میں نے پھر بھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ آج میری داخلہ فیس ہی کسی نے چوری کر لی۔ یہ میری امی جان کسی سے ادھار لے کر آئی تھیں۔ میں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ میری فیس کے پیسے مجھے واپس کر دیجئے۔
جماعت میں کسی بچے نے کوئی جنبش نہیں کی۔پاکستان کی آہ و بکا پرنسپل تک جا پہنچی۔وہ کلاس میں آئے ، ماجرا دریافت کیا ۔ پاکستان کی شکایت سن کر ان کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں۔ انہوں نے گرجدار آواز میں سب بچوں سے کہا کہ آج تک پاکستان کے پیسے جس جس نے چوری کئے ہیں، کل وہ سب واپس لے آئیںورنہ میں سب کو گرفتار کروا دوں گا۔
اگلے روز کلاس میں ایک سیاہ صندوق لا کر رکھ دیا گیا۔اس کے اوپر ایک سوراخ تھا جس میں ایک ہاتھ بمشکل داخل ہو سکتا تھا۔ پرنسپل صاحب آئے اور انہوں نے تمام لڑکوں کو کلاس سے باہر نکال کر قطار میں کھڑا کر دیا۔ کمرہ جماعت کا دروازہ بند کر دیا گیا اور پھر انہوں نے حکم دیا کہ ہر لڑکا کلاس میں جائے،د روازہ بند کرے اور بکس کے اندر سوراخ سے اتنی ہی رقم ڈال کر واپس آ جائے جتنی اس نے ”پاکستان“ کی جیب سے گزشتہ 10برسوں میں نکالی تھی۔تمام 250لڑکوں نے پرنسپل کے حکم پر عمل کیا۔ جب آخری لڑکا بھی کمرے میں جا کر واپس آگیا تب پرنسپل نے ماسٹر صاحب سے بکس کھولنے کے لئے کہا۔ بکس کھلا تو اس میں نوٹ ہی نوٹ بھرے ہوئے تھے۔یہ تمام رقم پاکستان کو واپس کر دی گئی۔ اس نے نہ صرف اپنی فیس ادا کی بلکہ اس کے بعد اپنا کاروبار بھی شروع کر دیا۔آجکل پاکستان کے وہی چچا جنہوں نے اس کے اباجان کے کاروبار پر قبضہ جما لیا تھا،ان کی اولادیں پاکستان کے ہاں نوکری کرتی ہیں۔
جیسا کہ ہم نے کہا ناں، اسکول ایک چھوٹا سا معاشرہ ہوتا ہے،آج ہمیں ہمارا معاشرہ ، ہمارے محلات اور ایوان،اپنے اسکول جیسے ہی لگتے ہیں۔”پاکستان“ آج دہائیاں دے رہا ہے۔ کاش اس ”معاشرے کا پرنسپل“ بھی ٹاٹ اسکول کے اس پرنسپل کی طرح غصے سے سرخ آنکھوں، گرجدار آواز میں سب کو دھمکی دے اورویسا ہی سیاہ صندوق لا کررکھ دے۔اگر ایسا ہو گیا توہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان عالمی اداروں کا نہیں بلکہ عالمی ادارے پاکستان کے مقروض ہو جائیں گے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: