Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تندرستی بیش بہا نعمت

ہمیں صحت کی قدر نہیں ہوتی، جوں ہی یہ ساتھ چھوڑتی ہے فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی
* * * *عابدہ رحمانی۔امریکہ* * * *
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں میں صحت و تندرستی ایک بیش بہا نعمت ہے۔ بالکل درست کہا گیا ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے۔ اگر انسان صحت مند نہ ہو تو دنیا کی تمام رنگینیاں ، دلچسپیاں ، گونا گوں نعمتیں ہیچ نظر آتی ہیں۔صحت وتندرستی کے عالم میں انسان کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا قطعی احساس نہیں ہوتا ،لیکن بیمار ی ،دکھ اور تکالیف جھیل کراور پھر خوش قسمتی سے بیماری سے مکمل شفا یابی پا کر اسے اس انمول اور بیش بہا نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے اور جان ہے تو جہاں ہے۔ کسی بیمار شخص کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش صحت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتی۔اسوقت جبکہ دنیا میں بھانت بھانت کی جاں لیوا بیما ریاں پھیلی ہوئی ہیں ،صحت و تندرستی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اسی صحت و تندرستی کے حصول کیلئے ہم کسقدر کوششیں کرتے ہیں۔
بہترین صحت بخش غذا کا حصول ، ورزش، آرام ، ذہنی اور دماغی سکون ، بروقت علاج معالجہ ہماری زندگی کو پر سکون اور صحت مند بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے انسانی جسم میں ایک خود مدافعتی انتظام رکھا ہے جو ہمیں بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور صحت یاب ہونے میں مدد دیتا ہے۔ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے4 ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں ہمارے جسم میں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوتِ مدافعت،ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں،مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے،ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں۔یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں،کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی ،یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا۔ گردوں کی پیوند کاری 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے2 گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے۔
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلاکہ دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں۔یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے نہ اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں، نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں۔سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے ۔ ہمارا جگرجسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔ہماری انگلی کٹ جائے،بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جبکہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے۔ سائنس دان حیران تھے کہ قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلاکہ جگر عضو ئے رئیس ہے۔
اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے۔آپ دوسروں کو جگر عطیہ کر سکتے ہیں،یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جبکہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔ ایک لقمہ منہ سے معدہ میں اتارنے کا اتنا اہتمام قدرت نے کیا ہے کہ اگر گرم ٹھنڈا ہے تو ہاتھ بتادیتے ہیں۔تازہ یا باسی ہے تو ناک بتادیتی ہے۔کڑوا ترش، بے انتہاء مرچ مسالحہ ہے تو زبان بتادیتی ہے۔سخت ہے تو دانت بتادیتے ہیں۔الغرض ایک لقمہ معدہ تک پہنچانے کیلئے اسقدر انتظام و اہتمام اور حفاظت کی گئی ہے۔ اور اگر پھر بھی کوئی ثقیل چیز حلق سے اتر ہی جائے تو معدے میں ایسڈاُسے گلا دیتے ہیں۔یہ سب انسانی زندگی کو قائم رکھنے کیلئے کیا گیا ہے۔الحمدللہ رب العالمین علی کل حال۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک چھوٹا سا کام انسان کو دیا ہے کہ’’دیکھنا میرے بندے!حلال لقمہ ہی حلق سے اتارنا‘‘۔ پُر سکون اور گہری نیند ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ایک نارمل انسان کو8,7 گھنٹے کی نیند پوری کرنی چاہئے۔میں پچھلے دنوں بے خوابی کے عارضے سے دوچار تھی۔خواب آور دوائیوں سے طبیعت اور گری گری رہتی تھی ۔دوا استعمال نہ کر نیکی صورت میں بیشتر رات جاگتے ہوئے ، دعائیں کرتے ہوئے گزرتی تھی۔
اس تکلیف کا احساس وہی کرسکتا ہے جو اس دور سے گزرا ہو۔ اچھی نیند بھی اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت ہے۔ اس نیند کا اسرار بھی خوب ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں: اللھم باسمک اموت واحیا’’اے اللہ! تیرے نام سے میں مرتی ہوں اور زندہ ہوتی ہوں۔‘‘ نیند اور خوابوں کی دنیا کی غفلت کو موت کہا گیا ہے۔ جب تک سانس چلتی رہے تو نیند کی کیفیت ہوتی ہے، اس کیفیت سے جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو گویا دوبارہ زندہ ہوتے ہیں۔ صحت دنیا کی اُن چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ۔ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی۔ ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک صحت کاتخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے۔ ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اِس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لئے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسوکے برابر مائع ہوتا ہے۔یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے۔
ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں۔یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ۔ لوگ صحت مند گردے کے لئے40,30 لاکھ روپے دینے کیلئے تیار ہیں۔آنکھوں کاقرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے۔دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کیلئے لاکھوں روپے دینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے،انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے۔دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے۔آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے۔شوگر‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں اور آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگرآپ کو شفا نہیں ملے گی۔ منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ ہم اس عظیم مہربانی پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔
ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں‘ ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے‘ ہم سیدھا چل سکتے ہیں‘ دوڑ لگا سکتے ہیں‘ جھک سکتے ہیں اور ہمارا دل‘ دماغ‘ جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں‘ ہم آنکھوں سے دیکھ‘ کانوں سے سن‘ ہاتھوں سے چھو‘ ناک سے سونگھ اور منہ سے چکھ سکتے ہیں …تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل،اس کے کرم کے قرض دار ہیں اور ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے،ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ اسی لئے ربِ رحمان سورۃ الرحمن میں فرماتے ہیں: ’’ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے!!‘‘ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اللہ سے معافی اور صحت کا سوال کرتے رہا کرو کیونکہ ایمان کی نعمت کے بعد تندرستی سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔‘‘ اللہ پاک ہم سب کو ہمیشہ تندرست اور آباد رکھے،آمین یارب العالمین۔

شیئر: