Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسد واحد

مسلمان پر اٹھنے والا ہاتھ یہ ذہن میں رکھے کہ اس ہاتھ کو روکنے والا ایک شخص نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب لوگوں کا جسد واحد ہے
* * * محمد مبشر انوار* * *
اسلام اپنی آفاقیت ،اپنے اصولوں ،مساوات اور دین فطرت ہونے کی حیثیت سے ہر اس شخص کے لئے پہلی ترجیح رہا اور رہے گا، جو معاشرے کی نا انصافیوں کا ستایا ہواہے، جسے معاشرہ کوئی مقام دینے میں تامل کا شکار ہے،یہ دین اس کی پہلی اور آخری پناہ گاہ ثابت ہوتا رہا ہے اور تا قیامت ہوتا رہے گا۔ قباحت اس میں فقط یہ ہے کہ اس آفاقی دین کے ٹھیکیداروں نے اس خوبصورت دین کو انتہاسے زیادہ مقید کر رکھا ہے اور آج اس نفسا نفسی کے دور میں،جب حقیقتاً یہ دین دنیا بھر کے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے،اس کے ماننے والوں نے اپنے کردار سے، اس کی من پسند تشریحات سے دنیا بھر کو اس سے متنفر کر رکھا ہے،آج بھی تمام مذاہب سے زیادہ پھیلنے والا یہ مذہب عالمی ٹھیکیداروں کی نظر میں کھٹکتا ہے،اس کی عبادت کرنے والے دنیا بھر میں آج دہشت کی علامت بنے ہوئے ہیں،امن عالم کا سکون برباد کرنے والوں میں اسلام،مسلمان سر فہرست گنے جاتے ہیں، دنیا کے کسی بھی عالمی ایئر پورٹ پر سب سے زیادہ تفتیش مسلم ممالک کا پاسپورٹ رکھنے والوں کی ہوتی ہے،تفتیش کے نام پر سب سے زیادہ تذلیل کا شکار مسلمان مرد ،عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ سازشی تھیوری کے حامی و مخالف ہر دو فریق ممکن ہے اس سے متفق نہ ہوں کہ مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ کی حیثیت دینے میں ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا عمل دخل ہے،جس کی واضح مثال افغان جنگ میں پہلے ’’مجاہد‘‘ اور بعدا زاں ’’دہشت گرد‘‘بنانے میں کس عالمی طاقت کا کیا کردار رہا ، ڈھکا چھپا نہیں لیکن مغرب زدہ دانشوروں کے لئے یہ ہضم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے کہ وہ اس کا سارا ملبہ اور قصور نا اہل قیادت کے سر تھوپتے ہیں۔
مؤخرالذکر سے کلی طور پر انکاربھی ممکن نہیں کہ مال وزر اور اقتدار کے پجاریوں نے اسلام کا نام انتہائی بے دردی سے بیچا ،جس کی قیمت انہوں نے نقد و دوام اقتدار کی صورت حاصل کرنے کے علاوہ اپنے زمینی آقاؤں کے احکام کی بجا آوری کی صورت کی۔ علاوہ ازیں مغرب ،جو ساری دنیا پر بالواسطہ حکمرانی کر رہا ہے ،نے فقط روز مرہ زندگی کے اصولوں کی تعریف ہی نہیں بدلی بلکہ اس نے صدیوں سے قائم ’’قوموں‘‘ کی تعریف کو بھی اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کر کے رکھ دیا ہے،کل تک کروسیڈ کے علم تلے ’’قوم‘‘ کہلوانے والوں نے آج قوم کو ’’جغرافیائی‘‘حدود کا پابند بنا کر امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کر دیا ہے، ان کے اندر مسالک کی بنیاد پر اختلافات کی خلیج ایسے حائل کر دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی صورت اکٹھے نہیں ہو پاتے اور بمثل منمناتی بھیڑوں کے بھیڑیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر پہلے ہی ایسے مسلم ممالک موجود ہیں جو بری طرح خارجی جارحیت کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا شکار ہیں مگر الکفر ملت و احدہ کے عالمی ادارے ان کی داد رسی کرنے سے بری طرح قاصر ہیں کہ کہیں ایک ویٹو پاور تو کہیں دوسری ویٹو پاور حیلے بہانے سے ان ممالک میں امن قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں یہی وجہ ہے کہ نہتے فلسطینی ہوں یا کشمیری،اگر اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھائیں ،جارح فوجوں پر پتھر برسائیں تووہ مسلمہ دہشت گردہیں جبکہ عالمی اداروں کے پاس اپنی ہی قراردادیں موجود ہیں، جن میں فلسطین اور کشمیر کو مظلوم کہا گیا ہے،ان کے حقوق پر ڈاکہ زنی تسلیم کی گئی ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ آج کی بدلتی دنیا میں جہاں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے، عالمی طاقتیں اور ان کے گماشتے ادارے، تمام اصولوں کو در خور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے اپنی سہولت کے مطابق نئی تعریف کر دیتے ہیں۔
جانوروں ، حشرات الارض، نباتات کی حیات سے متعلق ہزاروں لاکھوں این جی اوز موجود ہیں جو ،ان کے تحفظ کے لئے دن رات کام کرتی ہیں لیکن خون مسلم اس قدر ارزاں ہے کہ عالمی ادارے لمبی تان کر سوتے رہتے ہیں تا وقتیکہ پانی سر سے اونچا نہ ہوجائے۔ میانمار میں ہونے والے مظالم اس کا بین ثبوت ہیں کہ ساری دنیا میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر حرکت کا علم ان بڑے ممالک کو ہوتا رہتا ہے مگر اپنے مفادات کی خاطر اس وقت تک مصلحت کی خاموشی طاری رہتی ہے،جب تک معاملات ان کی طے کردہ ترجیحات کے مطابق نہیں ہوجاتے۔ میں یہ تسلیم کرنے سے عاری ہوں کہ 2012ء سے جاری اس سانحے سے عالمی طاقتیں لاعلم تھیں،جہاں انسانیت سوز مظالم کرہ ارض کے اس خطے میں رونما ہو رہے تھے۔ بدھ بھکشو (جو امن کے پجاری کہلاتے ہیں)بے دریغ انسانی جانوں کے در پے ،انسانیت کی تذلیل پر اترے ہیں اور عالمی طاقتیں اس کو قابل اعتنا ہی نہ سمجھیں؟امریکہ اپنے مفادات اقتدار اور عالمی دارالمہام بنا ،دنیا کے ہر کونے میں براجمان ہے جبکہ امریکہ کی اس عالمی حیثیت کو چین براہ راست چیلنج کر رہا ہے۔ چین کی گو شمالی کی خاطر امریکہ ہر اس خطے میں بیٹھنے کی سعی کر رہا ہے ،جس کا اظہار چین اپنی مستقبل کی معاشی پالیسی میں کر چکا ہے۔
امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ کسی بھی طرح چین کی معاشی ترقی کو لگام دی جائے یا اس کی رفتار کو کم کیا جا سکے تا کہ امریکہ یونی پولر دنیا میں اپنے اقتدار کو مزید بڑھا سکے۔ دوسری طرف مسلم ممالک ہیں جنہیںاس وقت اپنی بقا ء کے مسائل کا سامنا ہے تو تیسری طرف امت کے مدارالمہام وہ علمائے کرام ہیں جن کے نزدیک ایسا کوئی بھی سانحہ انہیں ’’جہاد‘‘ سے قریب تر کر دیتا ہے اور وہ فوری طور پر ساری دنیا کے مسلمانوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلا شبہ جہاد دین اسلام کا اہم ترین رکن ہے مگر نبی اکرم کی حیات طیبہ اس امر کا مظہر ہے کہ جہاد کی فرضیت کب اور کن حالات میں ہوئی،اس وقت آپ کے پیروکاروں کی اخلاقی ساکھ کیا تھی،ان کا کردار کیا تھا،ان کے جذبے کیسے تھے،ان کا رہن سہن،ان کی زندگی اور طرز حکومت کیسا تھا؟جب اسلامی حکومت مضبوط تھی تو قرب و جوار کی غیر مسلم حکومتیں کس طرح دبتی تھی،کیا بعینہ یہی صورتحال آج غیرمسلم مضبوط و طاقتور حکومتوں کے ساتھ نہیں؟دنیا بھر میں کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ کسی مضبوط و طاقتور حکومت کے باشندوں یا شہریوں کو اس بے دردی سے قتل کیا جا سکے؟ایسی کسی بھی کوشش میں عراق یا افغانستان کی مثالیں سامنے ہیں کہ کس طرح طاقتور ان کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ مسلم حکومتیں ذمیوں کا خیال اسلامی اصولوں کے مطابق رکھتی تھیں جبکہ غیر مسلم طاقتیں ایسے کسی اصول کو نہیں مانتیں۔ جسد واحد کہلانے والی اس امت کو اپنے کردار اور اعمال سے اتنا طاقتور ہونا چاہئے ، جیسا طیب اردگان نے دبنگ بیان دے کر کیا ہے کہ دنیا کی 25فیصد آبادی کے کسی فرد پر کوئی ہاتھ اٹھنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ اس کے پیچھے ڈیڑھ ارب لوگ ہیں مگر بد قسمتی یہ بکھرے ہوئے ، منتشر ہجوم کی مانند ہے،جسے کوئی بھی کہیں بھی نہ صرف للکار سکتا ہے بلکہ انہیں قتل بھی کر سکتا ہے۔میانمار میں ہونے والی اس قتل و غارت میں فقط مسلمان ہی مقتول نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی قتل کیا جا رہا ہے۔ اسلام تو ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے تو ہمارے علمائے کرام کس برتے پر اس بنیادی اصول سے لا تعلق ہو کر فقط مسلمانوں کے حقوق اور خون مسلم کی بات کرتے ہیں؟مسلم حکمرانوں اور علمائے کرام کو میانمار میں جاری ظلم و ستم کو انسانیت کے حوالے سے دیکھتے ہوئے صرف اس کی مذمت نہیں بلکہ اس کو روکنے کے اقدامات کرنے ہوں گے اور خود کو اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ دنیا کہ کسی بھی خطے میں مسلمان پر اٹھنے والا ہاتھ یہ ذہن میں رکھے کہ اس ہاتھ کو روکنے والا ایک شخص نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب لوگوں کا جسد واحد ہے۔

شیئر: