Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غربت میں دل امیر، امارت میں غریب ہو سکتا ہے

 نوکرانی نے اپنا نام ”شہزادی“بتایا، اُسے ایسا لگاکہ نوکرانی نے ”طنز“ کیا ہے
زینت شکیل۔ جدہ
وہ نئے گھر میںشفٹ ہوئی تھی۔ درجن بھر کمروں اور کئی راہداریوں سے گزرتے ہوئے وہ صفائی کا جائزہ بھی لیتی جا رہی تھی ۔جیسے ہی اسے سامنے سے آتی نوکرانی پر نظر پڑی، اسکی تعریف میں کہاکہ پرسوں ہی تم لوگوں کو ہمارے یہاں آنے کی اطلاع دی گئی تھی اور ڈھائی دن میں تم نے گھر کا کونا کونا چمکا دیا ۔ لگتا ہے ایمان دار ہو اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا اصول بنا یا ہے ورنہ کوئی اور ہوتاکام چور یا سست و کاہل تو اس کے لئے اتنا بہانہ کافی ہوتا کہ اتنے کم وقت میں کیسے سارے کام مکمل ہوسکتے ہیں،اس کے لئے تو کم ازکم ایک ہفتہ درکارہے۔ 
اس پر غور کیا تو احساس ہوا کہ وہ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس تھی ململ کے دوپٹے میں لپٹے بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ ابھی ابھی نہا دھوکر آئی ہے ۔وہ اپنے رکھ رکھاو کے باعث لگ ہی نہیں رہی تھی کہ وہ ایک نوکرانی ہے۔ کچھ خیال آنے پر اس نے سوال داغ دیاکہ کیا نام ہے تمہارا؟ اس نے بصد اطمینان جواب دیا ”شہزادی“۔یہ سن کر اُسے ایسا لگا جیسے نوکرانی نے جواب نہیں دیا بلکہ ”طنز“ کیا ہے۔ وہ حیرانی سے اس کا نام دھرارہی تھی ۔ اس نے اپنی فضائے حیرت سے لمحے بھر کے لئے باہر نکل کر پھر استفسار کیا کہ کیا واقعی تمہارا نام شہزادی ہے؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ان غریب لوگوں کو اپنے بچوں کے امیرانہ نام رکھنے کا کس قدر شوق ہوتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا تم شہزادہ نام رکھنے سے سچ مچ شہزادے بن جاو گے؟یہ نوکرانی ہے جسے نجانے کیوں شہزادی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔بہرحال اب تک دنیا کے کسی ملک میں یہ قانون نافذ نہیں ہوا کہ غریب لوگ امیرانہ نام نہیں رکھ سکتے ۔ کسی ملک کی اسمبلی نے ایسی کوئی آئینی ترمیم منظور نہیں کی کہ بھکاری اپنا نام جہانگیر نہیں رکھ سکتا۔ 
   وہ کانفرنس کال ملائے دونوں بیٹوں سے جو کہ الگ الگ ممالک کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، بیک وقت فون پر بات کر رہی تھی۔ پڑھائی، لکھائی کی بات سے زیادہ اسے اپنے بچوں کے لئے حلال اشیائے خورونوش کی دستیابی کی فکر تھی۔ اسی لئے بتا رہی تھی کہ جھٹکے کا گوشت کسی اسٹور سے مت خریدنا کہ اس میں خون موجود رہ جاتا ہے جس میں بےشمار جراثیم ہوتے ہیں ۔ وہ انسان کو بیمار کردیتے ہیں ۔اس کے بیٹے نے بتایا کہ ہمیں ان سب چیزوں کی کوئی پریشانی نہیں۔بس وہ جو یہاں پہنچنے پر ایئر پورٹ والوں نے ہمیں ہمارے پاسپورٹ کے ساتھ قطار سے علیحدہ کر کے مختلف راہداریوں سے گزارتے ہوئے خالی کمرے میں لے جا کر بٹھایا اور ڈیڑھ گھنٹے تک انتظار کروانے کے بعد انٹرویو شروع کیا، اس وقت دل چاہ رہا تھا کہ کسی طرح پر لگ جائیں اور میں اڑ کر اپنے وطن جا پہنچوں ۔آج بھی اس دن کا خیال آجاتا ہے تو وہ دن عجیب خوف کے عالم میں گزرتا ہے۔
ماں نے فوراًاس واقعے کی طرف سے ذہن ہٹاتے ہوئے کہاکہ اس واقعے کو بھول جاﺅ۔ ہر ملک اپنے قواعد و ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔اس میں اجنبی لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن اب تو بہت اچھا وقت گزر رہا ہے ناں۔ بڑی یونیورسٹی کی ڈگری لینا ہی بڑی بات ہے۔ چاہے تم اپنے والد کا بزنس ہی کیوں نہ سنبھالو لیکن باہر کی ڈ گری آجکل خاندان بھر کی عزت بڑھا دیتی ہے ۔تم بس پڑھائی پر توجہ دو۔ 
دوسرے بیٹے نے بتایا کہ یہاں غیرملکی بہت کم ہیں اس لئے میس میں الگ سے کوئی انتظام نہیں۔ جب سے آیا ہوں، فش برگر پرہی گزارا کر رہا ہوں۔اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس نے فوراًشیئر کیا کہ میں تمہارے ڈیڈی سے کہوں گی کہ جس طرح دوسرے ملکوں میں ہمارامختلف چیزوں کا بزنس ہے، اسی طرح اس جگہ بھی ایک اسٹور کھول دیں تاکہ ہمارے بچوں کو آرام ہو۔اس دن وہ اپنے بچوں کو بتا رہی تھی کہ اب میں وزٹ ویزا لیکر باری باری تم لوگوں کے یہاں ٹھہروں گی۔ بچوں نے ابھی سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فلاںفلاں چیزیںآپ سے بنوا کرضرور کھانی ہے۔وہ شور کی آوازسن کر سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ،کیا دیکھتی ہے کہ پچیسیوں بچے انیکسی کے قریب دیوار کے دوسری طرف دسترخوان پر دونوںاطراف بیٹھے ہیں اور وہ شہزادی جیسی لڑکی ، آن بان سے تنور سے نکلی روٹی کے ساتھ اچار سب میںتقسیم کر رہی ہے۔چند دنوں کے بعد معلوم ہواکہ وہ جس پولی ٹیکنک اسکول میں پڑھتی ہے ،وہ لوگ دو ہفتے کے لئے ملکی سطح پر سیاحت پر لے جا ئیں گے۔ وہاں سیاحت کے شوقین لوگوں کی کمی نہیں تھی۔ ہر جگہ کے ملکی و غیر ملکی وہاں موجود تھے۔ ہر ایک اپنے اپنے شوق کے تحت مختلف مقابلوں میں حصہ لے رہا تھا۔وہ غیرملکی سیاح نجانے کیسے سائیکل کی سواری کرتا اوپرسے ڈھلوان کی جانب جاگرا۔ معمولی چوٹیں آئیں لیکن اسی دوران کسی جگہ اس کا بٹوہ گر گیا اور نہیں مل سکا ۔
وہ ہمدرد لڑکی تھی، اس نے اپنے پاس موجود پیسوں سے کلینک کا بل ادا کیا۔ وہ تو اپنے گروپ کے ساتھ واپس آگئی لیکن اس کے بارے میں معلوم کرتا وہ بھی پہنچ گیا اور اس نے شادی کی درخواست کردی جو اس کے گھر والوں نے مان لی اور اب وہ واقعی شہزادی
 جیسی زندگی گزار رہی تھی لیکن اپنا ماضی نہیں بھولی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ اس نے اس علاقے کی بہبود کے لئے کئی اقدام کئے۔مفت اسکول اور خوراک کے ساتھ رہائش کاانتظام بھی کیا۔
وہ اس کے بارے میں غور کر رہی تھی کہ وہ دل کی غنی تھی ۔اسی لئے اسکا دل کشادہ تھا ۔ بچوں کو اچار روٹی ہی سہی لیکن وہ اسکا انتظام اپنی تنخواہ سے کیا کرتی تھی۔ قدرت کوشاید اس کی کھانا کھلانے کی ادا ہی بھائی ہو گی کہ اسے اتنی کشادگی عطا کر دی کہ اب وہ بڑے پیمانے 
پر لوگوں کے بہبود کا کام کرتی تھی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ غربت میں بھی دل امیر اور امارت میں غریب ہو سکتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ غریبوں جیسا نام رکھنے سے کچھ غریبانہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑجائے۔
جاننا چاہئے کہ شکر گزاری کا مطلب اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنانا ہے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: