Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی کا ہر دور خوبصورت ہے، وقت گزرنے پر احساس ہوتاہے، عرشی

حالات کی تلخی معصوم سو چو ں کو وقت سے پہلے بالغ کر دیتی ہے، ہوا کے دوش پر گفتگو
انٹرویو ۔ ۔ ۔ تسنیم امجد ۔ ریاض
پردیس کیا ہے، اک انجان سرزمین، جہاں انسان وطن کے بعد پاوں رکھتا ہے۔ وہ اسے لاکھ اپنانا چاہے مگر پردیس اسے اپناکہنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا ۔ کیسی بات ہے،دیسی جب دیس میں ہوتا ہے تو خواہشوں کو پامال کرتا ہے اورجب پردیس پہنچ جاتا ہے تو خواہشیںا سے پامال کرنے لگتی ہیں۔دیس میں ہوتا ہے تو وہ بچوں کی فرمائشیں سن کر سیخ پا ہوجاتا ہے کہ تمہارا باپ کوئی تونگر نہیں جوبچے کی زبان سے نکلی ہر فرمائش پوری کرنے کے قابل ہو۔وہ بیوی کو بھی عید بقرعید پرکوئی تحفہ دینے کی بجائے اسے یہی سمجھاتا ہے کہ میرے پاس اگر ہوتا تو میں اپنی شریک حیات کو سونے میں تول دیتا۔ بیوی اپنے شوہر کی ”دل دہلا دینے والی “ باتیں سن کر مسکرا دیتی ہے اور کہتی ہے کہ میرا سہاگ سلامت رہے، اس سے بڑا کیا تحفہ ہوگا۔ایسی ”تسلیوں“ میں گاہے زندگی گزر جاتی ہے اور گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ قسمت کروٹ لیتی ہے اور شوہر نامداردیس میں اپنی شریک حیات کو چھوڑ کرپردیس میںقید حیات سے نبردآزما ہونے پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں رہ کر وہ اپنی بیوی کو تحائف بھی بھیجتے ہیں، اس کی فرمائشیں بھی پوری کرتے ہیں۔ دیس والوں کی خواہشات بڑھتی رہتی ہیں ا ور پردیسی ان کی تکمیل کی خواہش دل میں لئے زندگی کا پہیاگھمانے میںمگن رہتا ہے ۔وہ اکثر و بیشتر تنہائی میں چپ چاپ بیٹھ کرماضی کے ایام کا آئینہ دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ دیس میںمیرے گھر والوںکی زندگی میں کتنے سوال ہیں اور کتنی حیرت کی بات ہے کہ میں اُن تمام سوالوں کاکامل جواب ہوں۔وہ خود کو تسلی دیتا ہے کہ کیا ہوا اگر میں نے اپنی شریک حیات سے دور رہ کر تنہائی کواپنی حیات میں شریک کر رکھا ہے۔ اس طرح کم از کم یہ تو ہوا کہ میرے گھر کے کسی فرد کی زبان پر کوئی سوال نہیں۔ پردیسی کی یہی زندگی ہے کہ اس کے لئے سوال دیس میں ہےں اور جواب پردیس میں ۔ 
کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ انسان اپنی خواہشو ں کے مدفن پر بیٹھا دوسروں کے لئے جی رہا ہے۔کبھی ما ں ،کبھی بہن اور کبھی باپ کا چہرہ آنکھو ں کے سامنے گھوم جاتا ہے ۔جن پر لکھے سوال اور خواہشیں صرف پردیسی ہی پڑھ سکتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پرایا پن اپنائیت میں بدل جاتا ہے اور پردیس بھی اپنا سا لگنے لگتا ہے ۔ویسے یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جلد ہی ما حول سے ما نوس ہو جاتا ہے کیو نکہ تبدیلی اسے بے حد بھاتی ہے۔خوب سے خوب تر کی تلاش بھی انسانی فطرت کا خا صہ ہے ۔یہی تلاش اسے وطن سے دور لے جاتی ہے۔ خیر یہ مو ضو ع ایسا ہے کہ جس پر جتنا بھی لکھا جا ئے کم ہے۔اس پر لکھتے ہوئے اکثر آ نکھیں بھیگ جاتی ہیںاور قلم لڑ کھڑانے لگتا ہے۔
آج ہوا کے دوش پرہماری مہمان عرشی مسرت حسن تھیں۔ ا نہوںنے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نہایت مسرت کا اظہار کیااور کہنے لگیں کہ اردو کمیونٹی کا یہ جریدہ قارئین کی جس انداز میں خدمات بجا لا رہا ہے وہ بلا شبہ لا جواب ہے ۔ یہ دنیا کے کو نے کونے سے بیش بہا ہیرے چن کر لاتا ہے اور ہوا کے دوش سے قرطاس پر بکھیر دیتا ہے ۔اب کہا ں میں شمالی ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کی دلاری اور کہاں مملکتِ سعودی عرب۔یوپی کے75 اضلاع میں سے آگرہ اور کان پور منفرد ہیں ۔تاج محل، آگرہ کی اپنی پہچان ہے جو محبت کی ایک داستان سموئے ہو ئے ہے جبکہ کان پور آبادی کے لحا ظ سے اتر پر دیش کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کی بھر پور تصویر کشی کرتا ہے ۔ میری جائے پیدائش یہی ہے ۔
میرے والد مسرت حسن اور والدہ بلیغ ا لنساءنے اپنی چاروں اولادوں کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھو ڑی۔والد فارما سسٹ تھے ان کی اپنی ایک فارمیسی تھی ۔والدہ گھر گرہستن تھیں۔وہ صرف 8 ویں پاس تھیں لیکن شعور ایسا کہ یوں لگتا تھا گویاپی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ وہ ہماری تر بیت پر خا ص نظر رکھتی تھیں۔میں سب سے بڑی ہوں،پھر بھائی محمد نعمان پھر فر حین اور پھر بھائی محمد عثمان ۔ایک فا رما سسٹ کے لئے گھرچلانا اور چار بچوں کی تعلیم کے ا خرا جات برداشت کرنا کوئی آسان نہیں تھا ۔بڑی ہونے کے ناتے میں یہ سب محسوس کرتی تھی جبکہ والدین نے کبھی ہمیں یہ سب محسوس نہیں ہونے دیا ۔اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے کسی بھی متوسط فیملی کو کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں،اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
والدین نے ہمیں ایک خوشگوار ماحول فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھو ڑی۔ان دنو ں کی یادیں آج تڑ پاتی ہیں۔پیسہ نہیں تھا لیکن پھر بھی خو شیا ں تھیں ۔سب بہن بھائیوں میں خوب اتفاق تھا ۔اللہ تعا لیٰ نے قنا عت کی دولت سے مالا مال فرما رکھا تھا ۔ہم سب بہن بھائیوں نے ابتدائی تعلیم گھر کے قریب نکڑ کے اسکول میں ہی حا صل کی جو سر کا ری تھا ۔سبھی اچھے اچھے نمبروں سے کا میاب ہوتے تو والدین بہت خوش ہوتے ۔انہی کی دعا ﺅ ں کا نتیجہ ہے کہ میں پوسٹ گریجویٹ ،بھائی ایم اے،بہن گریجویٹ اور چھو ٹا پی ایچ ڈی کر رہا ہے ۔تعلیم کے یہ مدارج ہم نے کان پور کالج و یو نیور سٹی سے مکمل کئے ۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ اسکا لر شپ بھی حا صل کئے ۔
محترمہ عرشی ایک لَے میں بولتے ہوئے رکیں ۔پھر گویا ہوئیں کہ بیتے دنو ں کا بہت کچھ یاد آ گیا ۔تفصیل اس لئے بتانا چا ہتی ہو ں کہ یہ سلسلہ قارئین کو دوسروں کے بہت سے تجربات سے آگاہ کر کے نئی منزلوں سے رو شناس کراتا ہے۔انسانی زندگی کا ہر دور بہت خوبصورت ہوتا ہے جس کا احساس وقت گزرنے کے بعدشدت سے ہوتا ہے ۔ہمیں بچپن کے وہ دن شدت سے یاد آتے ہیںجب سب اکٹھے ہوتے تھے ۔تھو ڑا بر تتے تھے اور بانٹ کر کھاتے تھے ،لیکن خوش تھے۔کبھی کسی محرومی کا احساس نہیں ہوا ۔والدین نے ہنستے ہنستے سب حالات کا اس خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا کہ تلخیو ں نے شرمندگی سے منہ چھپا لیا ۔پھر حالات نے اچانک پلٹا کھایا ۔والد صا حب کو کاروبار میں ایسا خسارہ ہوا کہ فا ر میسی بھی بیچنا پڑ ی ۔ معاشی پریشانیاں کمر تو ڑ دیتی ہیںلیکن امید و یاس ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔امی جان کا کہنا تھاکہ :
دل نا امید تو نہیں،نا کام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام،مگر شام ہی تو ہے 
ہم بہن بھا ئیوں نے اپنے اپنے تئیں ٹیوشن پڑھانا شروع کردی ۔پھر بھی دو وقت کے اخراجات مشکل ہوتے تھے ۔ان دنوں میں بی اے کے دوسرے سال میں تھی ۔امی زیادہ پریشان ہو تیں تو ہم انہیں ما مو ں کے گھر بھیج دیتے تاکہ ان کا دل بہل جائے۔یہاں عرشی کی آواز بھرا گئی ۔ وہ کہنے لگیں:
جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آ تا گیا
اتنی اتنی زندگی میں دل کشی بڑ ھتی گئی 
٭٭٭
بڑے تا باں،بڑے روشن ستارے ٹو ٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا، تا سحر آساں نہیں ہو تا
آ خر والد صاحب کو ایک رشتے دار کی فارمیسی میں ملازمت مل گئی اور زندگی ایک بار پھر روا ںدواں ہو گئی ۔ٹیوشن کو اب ہم نے مشغلے کے طور پر جاری رکھا ۔حالات کی تلخی معصوم سو چو ں کو وقت سے پہلے بالغ کر دیتی ہے ۔گھر میں سبھی ایک دوسرے کا احساس کرتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ زندگی سے انسان کو خود نباہ کرنا پڑتا ہے ۔ خوشیاں کسی دکان پر نہیں ملتیں،یہ ہمارے پاس ہی ہوتی ہیں جنہیں تلاش کرنا پڑ تا ہے ۔والدین کاآنگن ہر بیٹی کے لئے پرایا ہو تا ہے ۔تحت ا لشعورمیں بیٹی سے جدائی کاا حساس اندر ہی اندر روح کو کا ٹتا رہتا ہے ۔ما سٹرز کے پہلے ہی سال میری رخصتی کے انتظامات ہو نے لگے ۔راشد حسین کا نام میرے نام کے ساتھ لیا جانے لگا ۔فائنل کے بعد وہ میری زندگی میں بہاروں کے سنگ شامل ہو گئے ۔سسر ثابت حسین نے محبتوں سے ہا تھو ں ہاتھ لیا ۔ساس زاہدہ بانو کا انتقال ہو چکا تھا۔10 بچوں کو وہ نہایت ہمت و محبت سے سنبھال رہے تھے جبکہ پولیس میں ملا زمت ہونے کے باعث مصروف بھی بہت رہتے تھے۔میر ی بھر ے پرے گھر میں خوب آ ﺅ بھگت ہوتی تھی ۔7 نندوں کی بھا بی تھی آ خر ۔یو ں لگتا تھا کہ ستاروں کے جھر مٹ میں ہوں۔
راشد صاحب تین بھائی ہیں۔ان کی ملازمت اچھی تھی۔مجھے لانے سے پہلے یہ والد کے تعاون سے چار بہنوں اور ایک بھائی کی شادی کا فر ض ادا کر چکے تھے ۔والد کی ریٹا ئرمنٹ کے بعد انہوں نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی ۔میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے زندگی کا ساتھی ایسا ملا جو نہایت ملنسار اوررحم دل فطرت کا مالک ہے ۔والدین کی دعائیںرنگ لائی تھیں۔ازدواجی زندگی کی شروعات احسن طور پر ہو جائیں تو آئندہ کا سفر خوشگوار رہتا ہے ۔یہا ں میں اپنے کچھ تجربات کا ضرور ذکر کروں گی جن سے شاید ہر بیٹی کے والدین کو گزرنا پڑتا ہے۔
شادی پر ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔گو کہ جہیز کا مطالبہ نہیں تھا لیکن باقی معاملات سے نمٹنا بھی جان جو کھوں کا کام تھا ۔گھر کے حالات کا ذکر تو کر ہی چکی ہوں۔پائی پائی جو ڑ نا تب بھی مشکل تھالیکن اللہ کریم مسبب ا لاسباب ہے۔کسی نہ کسی طرح انتظام ہو گیا ۔یہاں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ آج کے اس ارتقاءپذیر دور میںجہاں ترقی کا شور ہر سو©سنائی دیتا ہے، وہاں بے چاری بیٹیو ں کی زندگیوں کو ا خراجات کے پنجو ں سے نجات دلائی جائے ۔ بیٹیاںبے بسی سے، کبھی ما ں کا اترا چہرہ اور کبھی باپ کو آنسوپیتے دیکھ کر ،گھر کے کونے کھدروں میں چھپ کر رو تی ہیں ۔یو ں سبھی ایک دوسرے سے اپنے آنسوچھپانے کی ناکام کوشش کرتے تھے ۔خوش قسمتی سے کبھی کوئی اچھا بر مل جائے جو جہیز کا مطالبہ نہ کے تو تھو ڑی بچت ہو جاتی ہے ورنہ الفاظ کے ہیر پھیرسے لڑ کی والوں کا ناک میں دم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھو ڑی جاتی۔اس کا انجام یہ ہے کہ آج بے شمار بیٹیاںعہدِ شباب کی حدیں عبور کرتی،سر پر اترتی چاندی کو چھپائے،چہرے پر ناس و امید کی دبیز تہیںچڑ ھائے،ادھورے خوابوں کی تعبیر سمیٹے،ترسی نگاہوں سے معا شرے کی بے حسی پر گریہ کنا ں ہیں۔ان کے وجود کی اہمیت کا احساس صرف بطور ضرورت ہے ۔میرا اس معاشرے سے سوال ہے کہ ،کیا ان سنگین رویوں کاقلع قمع ممکن نہیں۔کہاں ہیں اصلاح کرنے والے اور انسانیت کا دم بھرنے کے دعوے کرنے والے ؟
یہ مسئلہ سماج کے ہر عاقل ،بالغ اور با شعور ذی روح کو دعوتِ فکر دیتا ہے ۔کیا انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھو نس رکھی ہیں۔ والدین کی پکار ان تک نہیں پہنچ رہی جو بیٹی بیا ہنے کے بعد قرض کے بو جھ تلے د بے کراہ رہے ہیں ؟ دوسری جانب امیر طبقہ نت نئے شو شے چھوڑ کر مزیدپریشا نیو ں کا باعث بن رہا ہے ۔بے جا تقریبات اور رسمو ں نے نسلِ نو کا دماغ خراب کر دیا ہے ۔وہ والدین پر دباﺅ ڈالتے ہیں کہ ان شو شوں کو اپنایا جائے اور وہ بے چارے ان کی خوشی کی خاطر مر مٹتے ہیں۔اب تو ناچ گانا وہ بھی پرو فیشنلز کا ،لازم ہو چکا ہے ۔یہ ناپسندیدہ طرزِ عمل کسی کو نظر نہیں آتا۔کہا جاتا ہے کہ شادی کوئی بار بار تو نہیں ہوتی اس لئے جیسے تیسے ہر خواہش پوری کر ہی لی جائے۔میڈیا کو اس سلسلے میں اپناکردار ادا کرنا چاہئے نہ کہ ایسے شو دکھا کر جلتی پر تیل کا کام کرنا چاہئے ۔اب تو اکثر تعلیم یافتہ لڑ کیا ں شادی کے نام سے چڑنے لگی ہیں ۔ایک طرف تو یہ راگ الاپے جاتے ہیں کہ” وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“جبکہ دوسری جانب اس رنگ کو پھیکا کرنے کے ہر ممکن حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ عورت کا ہر روپ انتہائی اہم ہے لیکن اس کی چمک دمک کے ذمہ دار معاشرے کے وہ کردار ہیں جو اسے صرف ایک جاگیر گردا نتے ہیں ۔ 
اس مو ضوع پر ایک ہی سانس میں عرشی بولتی گئیں ۔کہنے لگیں اسے میرا آج کا پیغام ہی جانیں۔میڈیا پر آنے کا خوش قسمتی سے مو قع ملا ہے تو سوچا دل کا درد بھی سناتی جاﺅں۔شادی کے دو ماہ بعد شوہر کا مملکت آنا ہو گیا ۔ملاز مت کے معاہدے میں فیملی ویزا شامل نہیں تھا اس لئے میں ساتھ نہ آ سکی ۔ایک دم سے دوری کا احساس بہت کرب ناک تھا لیکن اس کے سوا چارہ ہی نہ تھا ۔ان کی چھٹی ڈیڑھ برس بعد ہوتی۔سسرال میں سبھی محبت کرتے تھے اس لئے وقت کا ٹنا مشکل نہیں رہا ۔
ہماری گفتگو کے دوران ان کے شوہر راشد حسین بھی تشریف لے آئے ۔انہوں نے بیگم کی بات کو اچکتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے دل لگی کا بہترین انتظام کر دیا۔ہمیں ایک چا ند سی بیٹی امامہ ، سے نوازا۔یہ ڈیڑھ برس کی ہوئی تو میں نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ۔بیٹی کے بغیر میرے لئے بھی رہنا مشکل تھا ۔بزرگوں نے صحیح کہا ہے کہ بیٹی کی محبت باپ کے دل میں روزِ اول ہی سے اپنا گھر بنا لیتی ہے ۔وہ اس کے حسین مستقبل کے خواب بننا شروع کر دیتا ہے ۔اب تو تھو ڑی بڑی ہے لیکن میں اس کی وہ توتلی آواز ابھی تک نہیں بھول سکا جب یہ مجھے صبح کواُٹھا تی تھی ،بابا اُ تھ جائیں فافس سے دیر ہو رہی ہے۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ عرشی نے سسرال میں جلد ہی سب کو اپنا بنالیا۔سب بہنو ں کے ساتھ دوستی ہونے سے نند بھاوج والاروایتی رشتہ نہیں بنا۔میرے والد کہا کرتے تھے کہ زندگی کے کئی روپ ہیں جو مختلف دھاگو ں میں پروئے ہوئے مو تیو ں کی مانند ہیں ان کو جو ڑے رکھنے سے ایک خوبصورت مالا بنتی ہے ورنہ ٹوٹ کر بکھر جانے سے کو ئی مو تی نہیں ملتا ۔ کنبہ معاشرتی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔اسی سے مستقبل کے تمام راستے نکلتے ہیں ۔
میرا اپنا نظریہ بھی یہی ہے کہ آج جس طرح زندگی مادیت کی لپیٹ میں ہے اور رشتو ں کی قدرومنزلت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ بچو ں کو تر بیت کے دوران اس اہمیت سے آ گاہ کرنا ضروری ہو چکا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹے عبد اللہ ،سے بھی نواز ا، اس بیٹے نے ہماری ذمہ داریوں میں ا ضافہ کردیا ۔ہمارے سامنے اب ایک مقصد یہ ہے کہ اولاد کی تربیت دینِ اسلام کے احکامِ عالی کے مطابق کرنی ہے ۔
عرشی نے کہا کہ والد صا حب کا انتقال گز شتہ سال ہونے سے ایک دھچکا سا لگا ہے ۔اماں تنہا رہ گئیں ۔سب بہن بھائی اپنی اپنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اماں کا خیال رکھتے تو ہیںلیکن ان کی تنہائی کا احساس ہمیں بہت کھلتا ہے ۔سو چتی ہو ں آج ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ وقت نہیں جو ایک ساتھ ایک آنگن میں گزرا تھا ۔ایک چو لھے کے گردبیٹھ کر امی کے ہاتھ کی پکی رو ٹیاںنہ جانے کتنی کتنی کھا جاتے تھے ۔ قہقہے اور اٹکھیلیا ں،سب وقت کی تہو ں میں دب گئے ۔کبھی کبھی تو ان کو یاد کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔
مجھے ڈائری لکھنے کا شوق زمانہ ¿طا لب علمی سے ہی ہے۔اس کی کبھی کبھی ورق گردانی کرتے ہوئے ما ضی میں نکل جاتی ہو ں ۔وہ ایسے کہ:
کوئی جیسے رگوں کو کاٹتا ہو 
اداسی ایسی بڑھتی جا رہی ہے 
وہاں سے سسکیاں اپنی اٹھا لے
جہاں سے تو پلٹ کر آ رہی ہے
یہاں میں اپنے تجر بات کی روشنی میں اتنا کہو ں گی کہ مل جل کر رہنے والے لمحو ں کو غنیمت جا نیں،گزر گئے تو ہاتھ نہیں آتے۔ ان کی خو شیا ں زیادہ سے زیادہ بٹورلیں ۔اب میںنے انڈین ایمبیسی اسکول میں ملاز مت کی ہے ۔یو ں کہئے کہ مصرو فیت بڑھ گئی ہے جو بہت پر سکون ہے۔ کچھ نہ کچھ کام کرنا اچھا لگ رہا ہے ۔میں شوہر کی محبت اور خلوص کی مشکور ہوں۔ اپنی پسند کے یہ اشعاران کی نذر کرنا چاہوں گی:
یہ کامیا بیا ں، عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
کہا ں بساط جہا ں اور میں کم سن و نا دا ں
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
عرشی نے مزید بتایا کہ وہ کو کنگ کا بہت شوق رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے شوہر اچھی اور مختلف ڈشیں کھانے کے شوقین ہیں اس لئے میرے شوق کو تقویت ملی۔مارننگ شوز اور مصالحہ چینل نے میری مدد کی ۔اس کے علاوہ مجھے ڈرائنگ کا بھی شوق ہے ۔اپنے بچو ں کو بھی اس فیلڈ میں آگے لانا چاہتی ہو ں ۔ہم دو نوں کی خواہش ہے کہ انہیں دین و دنیا کی تعلیم دینے میں کامیاب ہو سکیں، آمین۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: