Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم ایسے پردیسی جن کا کوئی مستقبل نہیں

ہم روہنگیا ، بنگلہ دیشی یا کوئی اور نجانے ہماری شناخت کیا ہے؟ کیا ہمیں کبھی کوئی شہریت ملے گی، کیا ہم اپنے پیاروں کے جنازوں میں شریک نہیں ہوسکیں گے، جائیں تو جائیں کہاں؟
* * * مصطفی حبیب صدیقی* * *
پردیس کے قصوں میں روزگار کیلئے باہر جانے والوں،شادی کے بعد رخصت ہونے والی لڑکیوں یا دیگر حوالوں سے ہی واقعات ملتے تھے مگر ا س مرتبہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کا پورا خاندان روہنگیا میں برمی افواج نے کاٹ ڈالا اور وہ پاکستان میں پردیسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ لیاقت(نام تبدیل) کی زندگی ان دنوں تنہائی اور افسردگی کا مجموعہ ہے ،پہلی ہی ملاقات میں مجھے سے اپنے دل کی ساری باتیں کہہ دینے والا لیاقت کوئی نوجوان نہیں بلکہ ایک ادھیڑ عمر شخص ہے۔60کی دہائی میں عمر کے ایام گزارنے والے لیاقت نے اپنی کہانی کچھ اس طرح شروع کی۔ ’’مصطفی بھائی !ہم تو کہیں کا نہیں رہ گیا،بیوی بچے تو برسوں پہلے ہی بنگلہ دیش میں رہ گئے تھے،بھائی بہن برما کے صوبہ اراکان میں مقیم تھے۔ہم یہاں کراچی میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔کئی سال پہلے بنگلہ دیش جاکر بیوی بچوں سے ملاقات کی مگر معلوم ہوا کہ وہ لوگ اب ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے،سب پرائے ہوگئے ہیں،ہم دکھی دل کے ساتھ واپس آگیا۔‘‘ کیوں :وہ لوگ آپ کے ساتھ کیوں نہیں رہنا چاہتے ؟میرے سوال پر لیاقت نے بتایا۔۔ دراصل میری بیوی کا کہنا تھا کہ میں کراچی سے واپس بنگلہ دیش آجائوں مگر میرا تو یہاں سارا کاروبار تھا،میں کیسے چلا جاتا ،میں یہیں رہ گیا وہ لوگ واپس چلے گئے،میں یہاں سے کما کر پیسے بھیجتا رہا مگر جب میرے تینوں لڑکے اور ایک بیٹی جوان ہوگئے ،پڑھ لکھ گئے اور کمانے لگے تو انہوںنے میرے پیسے کے تعلق کو بھی ختم کردیا۔
میں اب کراچی سے نہیں جاسکتا تھا کیونکہ وہاں جو حالات ہیں ان میں پاکستان سے جانے والے کیلئے رہنا آسان نہیں ۔اس لئے فیصلہ یہی کیا کہ یہیں کراچی میں ہی رہوں مگر گزشتہ دنوں یہ دردناک خبر ملی کہ وہاں برما میں میرے بھائی ،بہن اور بھانجوں کو برمی افواج نے شہید کردیا ہے۔ ہم روہنگیا مسلمانوں کی زندگی بڑی عجیب ہے ،وہاں بنگلہ دیش میں میرے بیوی بچے اس لئے بھی نہیں چاہتے کہ میں واپس جائوں کہ اگر وہاں کی حکومت کو یہ معلوم ہوا کہ ہمارا روہنگیا سے کوئی تعلق ہے تو وہ میرے بیوی بچوں کو بھی نکال باہر کرینگے جبکہ مجھے بھی ہوسکتا ہے پکڑ کر برما بھیج دیں۔ہم تو کہیں کا نہیں رہا۔
ایک ہفتہ پہلے اطلاع ملی کہ اراکان میں میری بہن ،بہنوئی ،بھائی اور بھابھی کو بچوں سمیت بے دردی سے قتل کردیاگیا ہے۔اب تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کیونکہ وہاں موبائل فون ،انٹرنیٹ ہر چیز بند ہے،مگر کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کے رشتہ داروںنے انہیں یہ خبر دی ہے۔ میں یہاں تڑپ رہا ہوں مصطفی بھائی(لیاقت روتے ہوئے مجھ سے لپٹ چکا تھا)،کوئی پرسان حال نہیں،پورا خاندان لٹ چکا، ہم کٹ گئے،ہمارے والدین نے کلکتہ سے ہجرت کی اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں جابسے ۔
میں بچپن میں ہی کراچی چلاگیا اور کام شروع کردیا ،پھر 71ء ہوگیا اور سب الگ ہوگئے۔ مصطفی بھائی !ہمارا قصور کیا ہے؟کیا ہمیں کبھی کوئی شہریت نہیں ملے گی؟کیا ہم اپنے پیاروں کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوسکیں گے۔میں تو کراچی میں برسوں سے ہوں مگر یہاں بھی ابھی تک میں پردیسی ہوں۔میرا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بن رہا ،جو تھا وہ منسوخ ہوچکا۔ہم کہاںجائیں ۔۔۔۔آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے تو آپ کے پاس آیا ہوں مگر ڈرتا ہوںکہ اپنانام بتایا تو کسی اور مشکل میں نہ پڑجائوں اس لئے میرا نام نہ لکھئے گا بس دنیا کو اتنا بتادیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ہم بنگلہ دیشی،روہنگیا یا کوئی اور نجانے ہماری شناخت کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہم ایسے پردیسی ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں ۔

شیئر: