Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کو ضائع ہونے سے بچائیے

حاجی اﷲ کے مہمان ہیں ، ان سے لڑنا جھگڑنا یا اذیت دینا ، کیا یہ پروردگار کو ناراض کرنے والا عمل نہیں جو اُن سب کا میزبان ہے ؟
* * * *مولانا محمد عابد ندوی ۔ جدہ* * *
حج ظاہری طورپر چند رسوم اور مناسک کے ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک طرح سے تربیتی کورس ہے۔ اس کے بلند مقاصد و اہداف اور فوائد ہیں جو اسی صورت میں حاصل ہوسکتے ہیں جبکہ ان مناسک کو صحیح طورپر ادا بھی کیا جائے اور ان چیزوں سے اجتناب بھی کیا جائے جو مقاصد اور فوائد کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔ دوا کا صحیح فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب جن چیزوں سے پرہیز کرنا ہے، ان سے پرہیز کا اہتمام بھی کیا جائے۔ جس طرح روزہ صرف صبح سے شام تک کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ اس کے ذریعہ نفس کو خواہشات اور گناہوں سے روکنے کی تربیت اور تقویٰ پرہیزگاری کی مشق مقصود ہے اسی لئے روزہ دار کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ روزہ کی حالت میں خاص طورپر گالی گلوچ ، گناہ کے کام اورلڑائی جھگڑے سے دور رہے ۔اگر کوئی اس پر مجبور بھی کرے تو کہہ دے کہ میں تو روزہ سے ہوں۔ اسی طرح ایک حدیث میں فرمایا گیا : ’’ جو روزہ رکھ کر جھوٹ اور گناہ کے کام نہ چھوڑے تو اﷲ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘(بخاری)۔ اسی طرح حج بھی مکارم اخلاق کی تربیت اور خواہشاتِ نفسانی کو لگام دینے کی مشق ہے۔
قرآن پاک میں خاص طورپر یہ تعلیم دی گئی کہ حج میں نہ شہوانی کام یا بات کرنی ہے ، نہ گناہ کے کام اور نہ لڑائی جھگڑا ۔ صحیح احادیث میں مغفرت اور گناہوں سے پاک صاف ہونے کی بشارت بھی اسی حاجی کیلئے ہے جو اخلاص کیساتھ حج کرتے ہوئے ، حج میں گناہ اور شہوانی تقاضوں سے بچا رہے ، ایسے ہی حج کو اہل علم نے ’’ حج مبرور ‘‘ ( مقبول حج ) کہا ہے جس میں نیکیوں کا اہتمام بھی ہو اور گناہوں سے اجتناب بھی۔ دُعا کے اہتمام کے ساتھ خوب کوشش بھی کیجئے کہ آپ کا حج مقبول ( حج مبرور ) ہو اور یہ سفر کامیاب ہو ۔ قبولیت میں رکاوٹ بننے والی چیزوں یعنی چھوٹے بڑے گناہ ، لڑائی جھگڑا اور شہوانی تقاضوں سے دور رہئے ۔ حج میں دنیا جہاں سے لاکھوں اﷲ کے بندے بندیاں آتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں۔ لاکھوں کے ازدحام میں ، منیٰ ، مزدلفہ ، عرفات ، صفا و مروہ کے درمیان سعی اور خاص طورپر خانہ کعبہ کے طواف کے دوران مرد و زن کا اختلاط ہوجاتا ہے۔ یہ بڑے ادب کا مقام ہے۔ پروردگار کے اس محترم گھر اور اس جگہ کی عظمت کا استحضار کرتے ہوئے بے ادبی و بد نگاہی اور برے خیالات و وساوس سے دور رہئے ۔ روایت ہے کہ دوران طواف ایک عورت کا بازو ظاہر ہوگیا اور ایک شخص نے لذت اندوزی کیلئے بری نیت سے اپنا بازو اس عورت کے بازو سے مس کردیا ۔
وہ دونوں بازو چپک گئے ، کسی طرح جدا نہ ہورہے تھے کہ ایک نیک وصالح شخص نے مشورہ دیا کہ تم دونوں اسی جگہ جاؤ جہاں تم نے یہ گناہ کیا پھر سچے دل سے توبہ کرو اور اس گھر والے رب ذوالجلال سے یہ عہد کرو کہ دوبارہ یہ حرکت نہیں کروگے۔ اس نے ایسا ہی کیا تب اس مصیبت سے نجات ملی اور بازو جدا ہوگئے(ہدایۃ السالک)۔ حضرت ابو یعقوب نہر جوریؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دوران طواف ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کی ایک ہی آنکھ تھی اوروہ طواف کرتے ہوئے یوں دُعا کررہا تھا: اللہم اعوذ بک منک ’’ اے اﷲ ! میں تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے اس شخص سے دریافت کیا کہ یہ کیسی دُعا ہے ؟ اور تم اس کا خاص اہتمام کیوں کررہے ہو ؟ اس شخص نے کہا کہ میں 50 سال سے بیت اﷲ کے پڑوس میں ہوں۔ ایک دن طواف کرتے ہوئے ایک نوخیز لڑکے کو بنظر شہوت دیکھ لیا۔
اچانک مجھ پر ( غیب سے ) طمانچہ پڑا جس کے سبب ایک آنکھ باہر آگئی ، میں نے آہ نکالی ۔ ہاتفِ غیبی نے آواز دی ، یہ ایک نظر بد پر طمانچہ ہے ، پھر یہ حرکت کروگے تو دوبارہ طمانچہ پڑے گا ( ہدایۃ السالک)۔ پورے سفر حج میں اپنے اعضاء و جوارح اور نظر کی حفاظت کیجئے ، گناہوں سے ، شہوانی تقاضوں سے ، بد نگاہی اور لڑائی جھگڑے سے بچنے کا خوب اہتمام کیجئے۔ سرزمینِ حرم میں گناہوں کا وبال حرم سے باہر گناہ کے مقابلے میں زیادہ سخت ہوتا ہے ۔یہاں گناہ کرنے پر ہی نہیں بلکہ ارادۂ گناہ پر بھی پکڑ ہوتی ہے ۔ یہ جگہ بھی محترم ہے اور وقت بھی محترم نیز آپ ایک مقدس فریضہ اور اہم عبادت انجام دینے کیلئے مشاعر مقدسہ پہنچے ہیں۔ حرم کی حرمت اور اس ذات باری کی عظمت کوہر وقت ملحوظ رکھئے جس نے اس علاقہ کو حرمت بخشی ۔ مہمان کی توہین ، میزبان کی توہین ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کیلئے فرشتوں کو نو عمر لڑکوں کی شکل میں بھیجا۔ وہ پہلے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے۔
قوم کو خبر لگی تو وہ دوڑتے ہوئے آئی (کیونکہ وہ بدفعلی کے مرض میں مبتلا تھی ) ۔حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کی طرف سے (اس وقت تک انھیں یہ خبر نہ تھی کہ یہ فرشتے ہیں ) مدافعت کرتے ہوئے قوم سے کہا تھا : یہ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو (الحجر68)۔ سارے حاجی ( مردہوں کہ عورت ) اﷲ کے مہمان ہیں تو ان کی طرف بری نظر سے دیکھنا ، ان سے لڑنا جھگڑنا ، یا کسی طرح کی اذیت دینا ، کیا یہ پروردگار کو ناراض کرنے والا عمل نہیں جو ان سب کا میزبان ہے ؟ کیا سرزمینِ حرم میں گناہوں کے ارتکاب سے بندہ سخت و بال کا مستحق نہیں ہوگا ؟ اور کیا رفث ، فسوق اور جدال ( شہوانی کام ، گناہ اور لڑائی جھگڑے ) سے حج ضائع نہیں ہوگا ؟ کیا یہ ’’ نیکی برباد ، گناہ لازم ‘‘ کا مصداق نہیں ؟۔ الغرض پورے سفر حج میں خاص طورپر ہر طرح کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کا خوب اہتمام کیجئے، چاہے یہ نفس پر شاق گزرے اور خوب صبر وضبط سے کام لینا پڑے۔ یہی مشق و تربیت اور نفس کو گناہ سے بچنے کا عادی بنانے کی محنت اﷲ تعالیٰ کی مدد و توفیق سے اور حج کی قبولیت وبرکت سے حج کے بعد کی زندگی میں بھی ان شاء اﷲ کار آمد ہوگی ۔
گناہوں سے بچنے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کو صحیح استعمال کیجئے ۔خوب سے خوب نیک کام انجام دیجئے۔ کثرت سے طواف کیجئے ، نفل نمازیں پڑھئے ، نفل روزوں کا اہتمام کیجئے ۔قرآن پاک کی تلاوت کیجئے ، ذکرو اذکار ، توبہ و استغفار ، درود شریف اور دُعاؤں کا خوب اہتمام کیجئے کہ سفر حج اور قیام حرمین شریفین کا ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی ہے ۔ یہاں نماز اوردیگر نیکیوں کا اجر و ثواب بھی غیر حرم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن بہت سے حجاج جہالت ، ناواقفیت اور عدم تربیت کے سبب اپنے قیمتی وقت کو لہو و لعب یا غیر ضروری اُمور ومشاغل میں ضائع کرتے ہیں جوکہ بڑی محرومی اور بے توفیقی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے ، تمام حجاج کے حج کو قبول فرمائے ، حرمین شریفین کی زیارت اورقیامِ حرمین کے قیمتی لمحات کی قدر کرنے اور ان سے بھرپور صحیح فائدہ اُٹھانے کی سعادت وتوفیق بخشے، آمین۔

شیئر: