Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے شوہر خاندان کےلئے باعث فخرہیں، رشیدہ زبیری

 
انہوں نے اپنے والد کی کہی ہوئی ہر بات کو زندگی میں شامل کرلیا، ہوا کے دوش پرگفتگو
 زینت شکیل۔ جدہ
کائنات کی ہر شے متحرک ہے۔ نظام کائنات ہمیں پابندی¿ وقت کا درس دیتا ہے۔ جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں وقت انہیں قابل قدر بنا دیتا ہے۔ وقت کی پابندی کے ساتھ ایمانداری سے ہم سب محنت کو اپنا شعار بنا لیں تو ہم اپنے ملک کی اقتصادی حالت درست کر سکتے ہیں اور باوقار قوم بن کر دوسرے کمزور ممالک کی مدد کرنے کی مستحکم پوزیشن میں آسکتے ہیں ۔
ہوا کے دوش پر اسی سلسلے میں ہماری گفتگو ضیاءالاسلام زبیری اور انکی اہلیہ محترمہ رشیدہ زبیری سے ہوئی۔محترمہ رشیدہ نے کہاکہ تاریخ شاہد ہے کہ بروقت درست فیصلہ نہ کرنے اور اہم کام کو بروقت سر انجام نہ دینے سے بڑے بڑے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ نپولین کا جرنیل میدان جنگ میں کچھ ہی تاخیر سے پہنچا تھا لیکن اس تاخیر نے نپولین کی فوج کو ایک ہزیمت آمیز شکست سے دوچار کر دیاتھا۔
طالب علمی کا زمانہ سب سے اہم دور حیات ہوتا ہے۔ جو اس حقیقت کا ادراک کر لیتے ہیں اور وقت کی پابندی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں، وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ دراصل یہی دور انسان کی زندگی کی تعمیر کا بہترین دور ہوتا ہے۔
محترمہ رشیدہ زبیری اور جناب ضیاءالاسلام طالب علمی کے دور کو آج بھی یاد کرتے ہوئے اپنے ہم جماعتوں کے بہترین قصوں کو دہراتے ہیں اور اکثرہم جماعتوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔محترم ضیاالاسلام زبیری نے 1971ءسے آج تک اردو اور انگریزی میں مختلف جرائد میں10 ہزار سے زیادہ مضامین لکھے ہیں جن میں فلموں پر تبصرے،سیاحت،معاشی اور معاشرتی مسائل اور سیاسی امور
پر مضامین شامل ہیں ۔ان کا مقبول کالم ” آوازِخلق“ پچھلے 20 سال سے زیادہ عرصے سے ایک روزنامے میں شائع ہو رہا ہے ۔اس میں انہوں نے خلیج کی جنگ کے دوران 42 روز تک اس جنگ کا تجزیہ بھی تحریر کیاجو اس وقت قارئین کے دل کی آواز بن گیا تھا۔ کالج کے زمانے سے ہی وہ مختلف پروگراموں کے حوالے سے ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور اب بھی ٹی وی کے پروگراموں میں شریک ہوتے رہتے ہیں ۔ 
محترم ضیاءالاسلام زبیری نے مختلف معاشی اور سیاسی فکر کے مطالعے کی اہمیت کو جانا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاسی ومعاشی مفکرین معاشرے میں ایک صالح اور منصفانہ نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اچھی زندگی بسر کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش ایک منصف معاشرے میں ہی ممکن ہے۔ 
رشیدہ زبیری نے کہا کہ ہندوستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے تمام لوگ ایک شہر میں رہائش رکھنے کے باعث ایک جیسے ماحول میں ڈھل گئے۔ شادی کے بعد کی زندگی میں ایک جیسا ہی رکھ رکھاﺅ رہا۔ ایک جیسی ہی رسومات ہوئیں ۔ یوں بالکل ایسامحسوس ہوا جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ پکوان بھی ایک جیسے ہی ملے ۔زندگی آسودہ حا لی میں گزری ۔آجکل مشترکہ خاندانی نظام کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی نظام بھی مستحکم نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ معاشرے کا ہرفرد انسانیت کی خدمت اپنی وسعت میں رہ کر انجام دے سکتا ہے۔ اس کے لئے مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔
ضیاءالاسلام زبیری ہندوستان کے شہر ممبئی میںپیدا ہوئے۔ ان کے والد شمس الحسن زبیری اے جی پی آر میں ملازم تھے اور اپنی دیانت داری اوراسلام سے لگن کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ۔انکی زندگی کا محور حق حلال کی کمائی تھا جس کی وجہ سے انہو ں نے ساری زندگی اپنی کمائی کے سوا کہیں سے کچھ نہ کھایا اور پیا اور اسی منفرد عادت کی وجہ سے وہ خاندان اور خاندان سے باہر پہچانے جاتے تھے ۔وہ اپنے بچپن کے ایسے واقعات کا ذکر کر رہے تھے کہ جب وہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ کسی بزرگ رشتہ دار کے گھر جاتے تو وہ آواز دے کر کہتے کہ شمس صاحب تو کچھ کھائیں گے نہیں، ضیاءکوکچھ کھلا پلا دو۔ 
ضیاءالاسلام زبیری کی والدہ یوپی کے ایک دیندار اور عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔وہ اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں ۔انکے ایک بھائی امریکی ریاست کیلیفورنیاکے رہائشی اور دوسرے ٹورانٹو میں رہائش پذیرہیں ۔انکی دونوں بہنیں کراچی میں ہی قیام پذیر ہیں۔ضیاءالاسلام زبیری نے ابتدائی تعلیم سینٹ پال اسکول ،کراچی اور پھر نیشنل کالج اور سینٹ پیٹرکس کالج، کراچی سے حاصل کی۔ بیچلرز ڈگری کے حصول کے بعد وہ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے بھی وابستہ رہے ۔ انہوں نے جامعہ کراچی کی انتخابی اور سماجی سرگرمیوں میںبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انہیں 1972-73ءکے لئے جامعہ کراچی کا انگریزی زبان کابہترین مقرر قرار دیا گیا ۔اس سے پہلے وہ1968ءمیں سینٹ پیٹرکس کالج کی انجمن طلبہ کے سیکریٹری اور 1969ءمیں اسکے نائب صدر منتخب ہوئے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ اخبارات میں لکھ رہے ہیں اور 1971ءمیں ایک اخبار میں طالبعلموں کے صفحے کے انچارج تھے۔وہ 1972ءسے1976ءتک سندھ اسمبلی میںقائد حزب اختلاف کے پریس سیکر یٹری کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے اور پھر5سال کے لئے 
کینیڈا میں رہائش اختیارکر لی مگر وطن کی محبت 1982ءمیں انہیں پھر پاکستان کھینچ لائی۔ جہاں انہوںنے شعبہ تعلقات عامہ میں کریئر بنانے کی ٹھان لی۔
ضیاءالاسلام کی ابتدائی تربیت تو سندھ اسمبلی میں ہو ہی چکی تھی۔ اب انہوں نے نجی شعبے کا انتخاب کیا اور ایک کثیر القومی دواساز کمپنی میں منیجر شعبہ تعلقات عامہ کے طور پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے مامور کر دیئے گئے ۔اس کمپنی میں وہ تقریباً12سال تک فرائض انجام دیتے رہے اور بے شمار ایواڈ اور گولڈ میڈل بھی اپنی کارکر دگی پر حاصل کئے۔ اس دوران وہ 1989ءمیں شعبہ تعلقات عامہ کی بین الاقوامی انجمن سے پاکستان کے پہلے رکن کے طور پر منسلک ہو گئے اور اسکی بین الا قوامی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیاپھر کینیڈا ، جنوبی افریقہ، یورو گائے اورترکی وغیرہ میں کانفرنسوںمیں پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کی نماندگی کی ۔انکے تجربے اورلگن کو دیکھتے ہوئے انہیں 2007ءمیں اس بین الاقوامی جیوری میں شرکت کی دعوت دی گئی جو تعلقات عامہ کی عالمی انجمن کی جانب سے منعقدہ بین الاقوامی ایوارڈ کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس جیوری میں پوری دنیا سے15ماہرین تعلقات عامہ کو دعوت دی جاتی ہے۔
محترم زبیری 3 سال سے اس جیوری کے رکن نامزد ہو رہیں۔ وہ پاکستان میں اس انجمن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ضیاءالاسلام زبیری شعبہ تعلقات عامہ کے صف اول کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ پاکستان ایڈ ور ٹائزنگ انسٹیٹیوٹ میں کئی سال اس شعبے کی درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ وہ وزارت خارجہ حکومت پاکستان کے علاوہ کئی اداروں اور درسگاہوں میں لیکچر دے چکے ہیں۔
ضیاءا لاسلام زبیری اپنی اہلیہ رشیدہ زبیری کی بے حدتعریف کرتے ہیں اور ان کی عادات و اطوار کو سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی اہلیہ زندگی میں ان کی بہترین معاون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے ہرہر موقع پر حوصلہ افزائی کی۔ میری ذمہ داری چونکہ مختلف شہروں اور ممالک میں اپنے فرائض کی انجام دہی ہے، اس وجہ سے اکثر سفر بھی درپیش رہتا ہے ۔ تینوں بچیوں کی تعلیم وتربیت میں انکی محنت رنگ لائی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بڑی صاحب زادی اپنے شعبہ تعلیم میں ماہرمانی جاتی ہیں۔ اپنی والدہ کی بہترین تربیت کے باعث زندگی کے فیصلے کامیابی کے ساتھ کرتی ہیں۔ 
دوسری صاحبزادی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آج بھی کوشاں ہیں ۔ تیسری صاحبزادی اپنے شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں اور مستقبل میں بہترین ترقی کی خواہاں ہیں ۔
ضیاءالاسلام زبیری کی والدہ کا نام رشیدہ شمس الحسن ہے جبکہ انکی اہلیہ کا نام رشیدہ زبیری ہے ۔نام کی مناسبت سے ان میںکئی خوبیاں مشترک ہیں ۔دونوں کم آمیز ہیں ، دونوں دینی رجحان رکھتی ہیں ، دونوںنے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لی۔
کسی ورلڈ کلاس کرکٹر سے کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ کسی چینل پر آکر اپنے کھیل کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیتے، کچھ نہیں کہتے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟کرکٹر نے جواب دیاکہ میں نہیں بولتاکیونکہ میرا بلا بولتا ہے۔ 
رشیدہ زبیری کا کہنا ہے کہ مطالعہ ادب اور زندگی کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم کرتا ہے۔ کلاسک کے اعلیٰ نمونے ہومروغیرہ کی تخلیقات ہیں جو ہر فنکار کی ادبی نشوونما کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔رشیدہ زبیری نے اپنے شوہر نامدار کے حوالے سے کہا کہ زبیری صاحب اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں۔ والدین کی جانب سے دی جانے والی تربیت میںیہی باور کرایا جاتا رہا کہ ہمیشہ اپنا کام ایمانداری سے انجام دو اور وقت کی پابندی کرو، سچائی اور سادگی اپناﺅ۔انہوں نے اپنے والد کی کہی ہوئی ہر بات کو زندگی میں شامل کرلیا ۔وہ اپنی صاحبزادیوں کے لئے انتہائی مشفق باپ ہیں اور خاندان بھر کے لئے فخرکا باعث ہیں۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: