Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہو،شادی سے پہلے کم گو اور سیدھی ، بعد گھنی اور میسنی

 
 اس کی زبان یتیمی نے رہن رکھ لی تھی ، وہ  غلام کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی رہتی
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
رات کے بارہ بچ چکے تھے اور اس کے کام تھے کہ تمام ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ وہ کمرے میں ٹیبل پر دودھ کی پیالی رکھ کر واپس پلٹ رہی تھی کہ اس کے شوہر نے آواز دی ،ابھی تک تمہارا کام ختم نہیں ہوا۔ جی ابھی کچن میں بہت کام پڑا ہے ۔ مہرین نے اپنی تھکن کو نظر انداز کر کے جواب دیا۔ بھئی گھر کے دوسرے افراد بھی ہیں، ان سے بھی کہا کرو کام کرنے کیلئے تا کہ تمہارا کچھ کام ہلکا ہو جایا کرے۔ عمارہ کو ہی ساتھ لگا لیا کرو، وہ اب بڑی ہو گئی ہے۔ وہ بھی کالج سے جلدی آجاتی ہے۔ اسے کام کرنے کی عادت ڈالو، سارا دن تم خود ہی لگی رہتی ہو، تھک جاتی ہو گی۔
اس کے شوہر کے انداز میں بہت نرمی اور حلاوت تھی۔ عمارہ اب بڑی کلاس میں آگئی ہے اس کی پڑھائی بھی اتنی مشکل ہو گئی ہے اسے کہاں وقت ملتا ہے کہ گھر کے کاموں کی طرف توجہ دے۔ آپ سو جائیں شب بخیر۔ وہ کمرے کی بتی بجھا کر دروازے کی سمت بڑھی اور آہستگی سے دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی کہ کہیں آہٹ سے بچے نہ جاگ جائیں۔
مہرین کی آنکھوں میں لرزتے موتی ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔ دوپٹے سے اس نے اپنے آنسووں کو صاف کیا اور کچن میں آگئی جہاں اس کی نند کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ شکرہے بھابھی آپ آگئیں ،میں آپ ہی کانتظار کر رہی تھی ۔ امی اور نانی کو چائے کی طلب ہو رہی ہے اور آپ کو تو معلوم ہے مجھے اچھی چائے بنانی نہیں آتی۔ ویسے بھی مجھے نیند آرہی ہے ،میں تو جا رہی ہوں سونے ۔آپ پلیز ان کو چائے بنا کر دے دیں۔” اچھا میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔“
گھر میں اس سے کوئی کام کرنے کے لئے کہے ،مجال ہے کہ وہ انکار کر دے۔ اس نے تو شاید انکار کرنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ اسے تو جیسے معلوم ہی نہ تھا کہ لفظ انکار کسے کہتے ہیں۔ وہ شروع سے ہی بہت کم گو اور دھیمے مزاج کی تھی ۔اسے قدرت کا کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے ورنہ وہ اس گھر کے لئے بالکل موزوں نہیں تھی۔ ا سکی ساس نے اس کی معصوم صورت اور کم گوئی سے متاثر ہو کر اس کا رشتہ اپنے بڑے بیٹے سے کر دیا جو ان ہی کی آنکھوں سے دیکھتا، ان ہی کے کانوں سے سنتا اور تو اور ان ہی کے دماغ سے سوچتا بھی تھا۔ساس کو اپنے انتہائی فرمانبردار فرزند کے لئے اس جیسی ڈرپوک اور سلیقہ مند لڑکی چاہئے تھی اور ان کی قسمت بھی اچھی تھی جو اس جیسی بے زبان گائے اس کے ہاں آ گئی ۔شاید وجہ یہ تھی کہ اس کے والدین رندہ نہیں تھے اور اس کے بھائی بھابھی نے اس رشتے کو نعمت سمجھ کر اسے بھرے سسرال میں دھکیل دیا حالانکہ وہ شکل وصورت کے لحاظ سے لاکھوں میں ایک تھی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کے بھائی اور بھابھی نے اس سے اپنی جان چھڑائی۔
اس کے شوہر کی فطرت حاکمانہ تو تھی ہی، ساتھ ہی وہ اپنی ماں کے اشاروں پر چلنا اپنا فرض اولین سمجھتاتھا ۔اس پر بھی وہ اپنے نصیب پر شاکر تھی مگر اس کی ساس جو شادی سے پہلے اسے بہت کم گو اور سیدھی سادھی کہتی تھیں، شادی کے بعد اس کی یہی خوبیاں اس کی خامیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ساس اور نندوں نے اسے گھنی اور میسنی کاخطاب دے ڈالا۔ اس کے ہر کام میں نقص نکالناتو ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ اس کا شوہر بھی اکثر سخت سست سناتا رہتا۔ وہ اپنی نندوں کی آمد پر ان کی خاطر تواضع میںکوئی کسر اٹھا نہیںرکھتی تھی مگر پھر بھی انہیں شکایت رہتی کہ وہ ان کی آمد پر ناک بھوں چڑھاتی ہے اور خود کو مظلوم ظاہر کرنے کے لئے ہر وقت کچن میں گھسی رہتی ہے۔ وہ ہر گزرتے لمحے ان کی باتیں سنتی مگر اپنی زبان سے کچھ نہ کہتی۔ 
اس نے اپنے مکان کو دلہن کی طرح سجا رکھا تھا ۔ ہر ہر کونے سے اس کا سلیقہ اور سگھڑپن جھلکتا تھا مگر اس کے باوجود سبھی اس کے کام میں کیڑے نکالنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ اس کی زبان اس کی یتیمی نے رہن رکھ لی تھی۔ صبر کی بھاری سل سینے پر رکھ کر اس نے ان سب کے ساتھ 23برس گزار دیئے ۔ سارا خاندان اور محلہ اس کی نیک فطرت اور طور اطوار کا قائل ہو چکا تھا۔ ا سکے ہاتھ کے ذائقے کی دور دورتک دھوم مچی ہوئی تھی۔ جو بھی اس کے پکائے ہوئے کھانے کھاتا ،اس کا ذائقہ کبھی نہیں بھولتا۔ اس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کے اندر بھی اتنی خوبیاں موجود ہیں۔ اس کے بچوں پر بھی ددھیال کا خاص اثر تھا ۔خاص کر دادی اور پھوپھیوں کااثر۔ بچے بھی ماں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ایک بے دام غلام کی طرح سب کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی رہتی اور ان کی خدمت کرتی ۔ ان کے کاموں کا خیال رکھتی مگر اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ 
بھائی بھابھی تو شادی کے دوسرے سال ہی کینیڈا جا بسے تھے۔ بھائی اس کا واحد آسرا تھا مگر اب وہ بھی پاس نہیں رہا تھا ۔اس کے شوہر کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی۔ وہ اپنے کاروبار کے نفع و نقصان کے بارے میں بھی اپنے گھروالوں سے ہی گفتگو کرتا۔ اس نے کبھی اپنی بیوی کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اس سے وہ اپنے کاروبار کی باتیں کرتا۔20سال کی مہرین بے آباد آنکھوں میں ڈرے سہمے خواب لئے اس کے آنگن میں آئی تھی او رآج اس کی آنکھوں میں ڈر اورخوف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ نہ شوہر کی محبت اور نہ ہی اولاد کا فخر ۔کچھ بھی تو نہیں تھا ا سکے پاس۔ پھر یوں ہوا کہ اچانک اس کی ساس پر فالج کا حملہ ہوگیا۔ اس نے اپنی ساس کی بے پناہ خدمت کی۔ بے غرض خدمتوں کے صلے میں فقط دعائیں ملتیں اورکبھی کبھار وہ بھی نہیں۔ اس کی ساس وہی عورت تھی جس نے 17سال اس کے صبر کوآزمایا ، جس کی وجہ سے آج وہ اپنے شوہر کی نظروں میں بے وقعت اور بے توقیر ہو چکی تھی اوروہ اپنے بچوں سے بھی دور کر دی گئی تھی مگر وہ کبھی کسی سے حرف شکوہ لبوں پہ نہیں لائی تھی ۔ اسے شکایت تھی تو صرف اپنے شوہر سے جس کے سہارے وہ اس گھر میں آئی تھی۔
انہی دنوں مہرین کے دیور کی شادی ہوئی۔ گھر میں خوب رونق رہی۔ ہر کام اس نے بڑی ہی سلیقہ مندی سے انجام دیا۔ 23سال کے بعد اس کے شوہر کو احساس ہوا کہ مہرین بھی اس گھر کا حصہ ہے۔ آج اس کو احساس ہورہا تھا کہ کس طرح مہرین نے اس گھر کو سنبھالا ،ہر شخص اس کے ساتھ کنیزوں جیسا سلوک کرتا مگر وہ منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بولتی تھی۔ اسے خیال آیا کہ اگر اس گھر سے مہرین کو جدا کر دیا جائے تو یہ مکان نہیں کھنڈر بن جائے گا۔ یہ احساس اس وقت جاگا جب اس نے اپنے چھوٹے بھائی کی ازدواجی زندگی کی خوبصورتی اور ان کی آپس کی محبت دیکھی ۔کس چیز کی کمی تھی مہرین میں مگر اس نے اس کو شریک سفر کا درجہ ہی نہیں دیا تھا۔ ہمیشہ اس کے ساتھ آقا اور کنیز کا سلوک روا رکھا گیا ۔ بچوں کے لئے بھی وہ محض ایک آیا کی طرح تھی جسے ان کی خدمت کے لئے رکھا گیا ہو ۔ گھر میں اس کی حیثیت ایک نوکرانی سے زیادہ نہیں تھی۔ رات اور دن سب کی خدمت کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔ 
مہرین کا شوہرجب اپنی اور اپنے بھائی کی بیوی کاموازنہ کرتاتو اسے ملال ہوتا ۔ مہرین کی تھکی پژمردہ آنکھیں او راس کے چہرے کی گہری اداسی دیکھ کر اسے پہلی بار احساس ہورہاتھا کہ گھر میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا ،غلط تھا۔ اس کی بیوی کے زرد چہرے پر ہرگزرتے لمحے نے دکھ کے گہرے نقوش چھوڑ ے تھے۔ ماں بہنوں کی لگائی بجھائی تو اپنی جگہ تھی ہی مگر اس نے خود بھی کبھی مہرین پرتوجہ نہیں دی تھی۔ اس کو کبھی اپنے برابر نہیں سمجھا تھالیکن اتنے برس بعد اب جا کر اس کو خیال آیا کہ صبح کے 5بجے اٹھنے والی مہرین رات کے 12بجے تک گھر کے کاموں میں مشغول رہتی ہے۔ اس کے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود اس عورت نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ اس کی اپنی بہنیں بھی اپنے بچو ں اور سسرالی ذمہ داریوں میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔ اب تو ان کے پاس بھی بھائی کے گھر آنے کا وقت نہیں رہا تھا۔ سب ہی اپنے اپنے مسئلوں میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔ وہ تو اپنے کاروبار کے نفع نقصان اور معاشی ذمہ داریوں کی ساری باتیں اپنے گھر والوں سے کرنے کا عادی تھا مگر اب کسی کے پاس اس کے لئے بھی وقت نہیں تھا۔ وہ اپنی پریشانیاں کس کے ساتھ بانٹے۔ اس کے شوہر کے دل میں کسک تھی کہ اس نے مہرین کو دل میں وہ مقام اور جگہ کیوں نہیں دی جس کی وہ مستحق تھی ۔اس کے اس رویہ سے گھر کے تمام افراد نے فائدہ اٹھایا۔ مہرین کے شوہر کو بہت دکھ ہو رہاتھا ۔اپنے رویوں پر وہ معافی مانگنا چاہتا تھا مگر ایسا کرنہ سکا۔ اب بچے بڑے ہوچکے ہیں۔ اب اپنے متعلق سوچنے کی عمر گزر چکی ہے۔ 23سال زندگی کا کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں اب اپنے بچوں کے لئے سوچنا ہے۔ مہرین اپنے شوہر کے سامنے میز پر چائے کی پیالی رکھتے ہوئے بہت کچھ کہہ گئی۔ ایک گہری اور سرد آہ اس کے اندر سے ابھری اور وہ چائے کی پیالی اٹھا کر چائے پینے لگاجسے مہرین کافی دیر پہلے رکھ کر جا چکی تھی اورجو اب ٹھنڈی ہو چکی تھی، اس کا ذائقہ بھی تبدیل ہو چکا تھا ۔ اس میں تلخی اور کڑواہٹ شامل ہو چکی تھی ،بالکل اس کی زندگی کی طرح۔ اس نے بددل ہو کر چائے کی پیالی واپس رکھ دی۔ وہ تو چائے تھی ،دوبارہ بن سکتی تھی لیکن کیا انسان کی زندگی میں گزرا وقت لوٹ کر آ سکتا ہے۔ کیا مہرین کی زندگی کے 23سال کوئی واپس لا سکتا ہے۔ اس کی جوانی ، ا س کی صحت و تندرستی اس کی خوشیاں ،کوئی اسے لوٹا سکتا ہے، یقینا نہیں کیونکہ گیا وقت لوٹ کر نہیں آتا۔ اس لئے ہر کسی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ مقام اس کو دے جس کا وہ مستحق ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ بار بار نصیب نہیں ہوتی۔کبھی کسی کی زندگی کو اتنی تکلیف دہ نہ بنائیں۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: