Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم قافلہ صلہ رحمی لے کر چلے

صلہ رحمی میں جو مزا اور لطف ہے وہ اسی کو حاصل ہوتا ہے جو خود صلہ رحمی کرتا ہے، جو بزرگوں سے پیار لیتا ہے
* * *عبد المالک مجاہد ۔ریاض* * *
(گزشتہ سے پیوستہ)
ڈاکٹر محمد نواز سجاد کھیالی کی معروف شخصیات میں سے ہیں۔ سپرا برادری کا یہ نامور سپوت رشتہ میں ہمارا بہنوئی بھی لگتا ہے۔ میرا ہم عمر اور دوست بھی ہے۔ کھیالی میں تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ان کا وسیع سلسلہ ہے۔ بیٹے فرماں بردارومطیع اور والد کے دست بازو ہیں۔ ان کا ایک بیٹا حافظ عبدالباسط میری سگی بھتیجی سے بیاہا ہوا ہے۔ کھیالی شاہ پور میں ہمارے خاندان کے11,10گھرانے ہوں گے۔ کھیالی اور شاہ پور جڑواں محلے، بلکہ ایک دوسرے سے متصل چھوٹے شہر ہیں۔ اگر ہم گوجرانوالہ سے شیخوپورہ جانے والی روڈ پر کھڑے ہوں تو سڑک کے مشرقی جانب والی بستی کو شاہ پور اور مغربی جانب کی بستی کو کھیالی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دونوں جگہ ہمارے رشتہ دار بستے ہیں۔ جب ہم شاہ پور میں اترے تو ڈاکٹر محمد نواز صاحب کے ا سکول میں ہمارا تاریخی استقبال ہوا۔
ہم گلی میں داخل ہوئے تو برادری کے کم و بیش سارے ہی مرد حضرات پھولوں کے گلدستے لئے کھڑے تھے۔ خیرمقدمی کلمات پر مشتمل بینرز گلی میں آویزاں تھے۔ ہمارے گلے میں ہار ڈالے گئے۔ پورے احترام کے ساتھ ہمیںا سکول میں لے جایا گیا۔ا سٹیج سیکریٹری ڈائس پر آئے اور قافلہ کو خوش آمدید کہا اور پھر تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن ‘ آصف سپرا‘ انعام اللہ‘ چچا سیف الرحمن‘ ڈاکٹر محمد نواز سجاد اور راقم الحروف نے صلہ رحمی کے حوالے سے اس زبردست استقبال پر اپنے اپنے تاثرات پیش کیے۔ یادگار استقبالیہ تقریب‘ خوبصورت تقاریر ‘ الحمدللہ! میری خواہش پوری ہو چکی تھی۔ تقاریر کا سلسلہ ختم ہوا تو ناشتہ چن دیا گیا۔ اسی دوران برادرم خالد محمود کیلانی تشریف لے آئے۔ یہ برادری کے سرپرست ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے قافلہ صلہ رحمی کو ایک تاریخ ساز اور یادگار کارنامہ قرار دیا۔
برادرم عبدالقوی لقمان مدتوں سے دبئی میں پاکستان اکیڈمی میں معلم کے منصب پر فائز ہیں۔ وہاں کی جامع مسجد کے خطیب بھی ہیں‘یہ بڑے زبردست مقرر ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل بھی ہیں۔بڑے عمدہ نکات اٹھاتے ہیں۔ ہم نے ان کے مشوروں کو بھی توجہ سے سنا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ اس قافلہ صلہ رحمی کو مستقل چلتے رہنا چاہیے۔ ہم نے بڑا لذیذ ناشتہ کیا۔گوجرانوالہ کی لسی اور مزیدار چائے سے لطف اندوز ہوئے۔ کچھ تحائف کا تبادلہ ہوا۔ میں اپنی بھتیجی سے ملا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ کئی دنوں سے اپنے چچا کے انتظار میں ہے۔ قافلہ کا رخ اب کھیالی میں برادرم عطاء الرحمن صاحب کے گھر کی طرف تھا۔یہاں پر برادرم عطاء الرحمن نے اپنے صاحبزادوں اور خاندان کے معززین کے ہمراہ استقبال کیا۔ یہاں پر کتنی ہی بزرگ خواتین نے سروں پر شفقت بھرے ہاتھ رکھے۔ بڑوں اور چھوٹوں نے ہاتھ ملائے ۔ میں نے ان کے حالات دریافت کیے۔ بعض ملنے والے مسجد میں انتظار کر رہے تھے۔ برادرم عبدالوحید اور ان کے صاحبزادے حافظ ساجد الرحمن کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مزیدار ناشتہ کے پیچھے انہی کا ہاتھ تھا۔ آصف واقعی اچھا کوآرڈی نیٹر ثابت ہوا۔ میری کمزوری ہے کہ مزاج میں مروت ہے، کوئی بات کرنا یا سنانا چاہے تو پوری توجہ سے سنتا ہوں ۔وقت کی پرواہ نہیں کرتا وہیں بیٹھ جاتا ہوں ۔
جب تک اس کی بات مکمل نہ ہو بیٹھا رہتا ہوں، مگر اس طریق کار میں وقت خاصا صرف ہو جاتا ہے۔ آج ہمارے پاس وقت کی بہت قلت تھی۔ ہمیں 12مختلف مقامات پر جانا تھا۔ آصف نے کمالِ حکمت سے ہمیں کھیالی سے نکلنے پر مجبور کیا اور کوسٹر کو گوجرانوالہ شہر کی جانب موڑنے کا حکم دیا۔ اب ہمارا رخ اپنے چچا زاد بھائی محمود الحسن سپرا کے گھر کی طرف تھا ۔ گوجرانوالہ شہر اب پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گیا ہے ۔ عزیزم عمر فاروق اور حسین فاروق ہمارے استقبال کے لئے نوشہرہ روڑ پر سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ ہم گلی سے گزرتے ہوئے جب برادرم محمود الحسن کے گھر پہنچے تو یہاں بھی استقبال پھولوں کے گلدستوں سے کیا گیا۔ گلے میں ہار ڈالے گئے۔ ہر ایک کے ساتھ معانقہ ہوا۔ شرکاء پر پھول نچھاور کیے گئے۔ برادرم محمود الحسن ہماری برادری کے ان بزرگوں میں شامل ہیں جن کی عمر اب 70 سال کے لگ بھگ ہے،مگر ماشاء اللہ بالکل صحت مند اور متحرک ہیں۔ یہاں پر بھی پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔
بزرگوں کے واقعات،ان کا ذکر خیر،بچوں کی تعلیم و تربیت،ان کا تعارف۔یہ وہ باتیں تھیں جو ہر جگہ زیر بحث آئیں ۔ اس قافلہ کا اصل مقصد آپس میں پیار و محبت کو فروغ دینا تھا۔ آپس کے رشتوں کو جاننا اور پہچاننا تھا۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں گوجرانوالہ میں برادرم محمود الحسن کے گھر پہلی مرتبہ آیا تھا، اگرچہ کافی عرصہ سے ان سے ملاقات کی خواہش دل میں مچل رہی تھی۔ وہ کچھ ہی سال پہلے آبائی گاؤں کیلیانوالہ سے گوجرانوالہ منتقل ہوئے ہیں۔ بڑا خوبصورت گھر،نیا اور عمدہ فرنیچراور آج تو گھر کو بطور خاص ہمارے لئے سجایا گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ جوانی تھی۔ہم پنجاب کی مشہور سوغات’’ کھیر ‘‘بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔ خواتین بڑی مزیدار کھیر بناتی ہیں۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ ان چیزوں سے پرہیز ہوتی جا رہی ہے۔ کہنے لگے: گھر کی خواتین ساری رات بڑے شوق سے کھیر پکاتی رہی ہیں۔ واقعی یہ ڈش مزیدار بلکہ بہت ہی مزیدار تھی۔
اس میں مجھے خاندان کی محبتوں کی مہک آ رہی تھی۔ اصل بات محبت، پیار اور الفت کی ہے جو ہمیں مطلوب تھا۔ میں نے آج صبح تہجد کے وقت اس قافلہ کی کامیابی کیلئے بے حد دعائیں کی تھیں۔ صلہ رحمی میں جو مزا اور لطف ہے وہ اسی کو حاصل ہوتا اور ملتا ہے جو خود صلہ رحمی کرتا ہے۔ جو بزرگ مرد و خواتین سے پیار لیتا ہے، بیٹیوں اور بہنوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتا ہے۔ ہم نے برادرم محمود الحسن اور ان کے قابل فخر بیٹوں عمر فاروق اور حسین فاروق کی ضیافت کے مزے لئے۔ عمر فاروق بڑے زبردست خطیب ہیں۔ بڑے ہی قابل نوجوان رہنما ہیں۔ انہوں نے چند منٹ بڑی خوبصورت گفتگو کی۔ الفاظ کا جادو چلایا،ہم اس کی لذت لیتے ہوئے اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے الوداع ہوئے۔ ہم نے یہاں سے برادرم محمود الحسن صاحب اور ا ن کے صاحبزادے حسین فاروق کو اپنے ہمراہ لیا اور علی پور چٹھہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جس جگہ آدمی کا بچپن گزرا ہو، وہاں کے سفر کا اپنا ہی مزا ہے۔ پاکستان بڑا ہی خوبصورت اور زرخیز ملک ہے۔
پنجاب میں جس طرف چلے جائیں آپ کو تا حد نگاہ ہریالی نظر آئے گی۔ کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب کے یہ اضلاع بڑے ہی خوبصورت ہیں۔ پانی متوفر ہے، نہری پانی بھی ملتا ہے، زمین میں بھی پانی زیادہ گہرا نہیں۔ تھوڑی سی کھدائی کرنے سے پانی نکل آتا ہے۔ کسانوں نے زمین سے پانی نکالنے کے پیٹر انجن لگا رکھے ہیں۔ اگر کبھی موقع مل جائے تو یہاں نہانے کا اپنا ہی مزا ہے۔بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں۔ یہ قدرت کا تحفہ ہے جو مفت میں حاصل ہوتا ہے۔ کوسٹر میں اتنے بڑے بڑے خطباء ،شعراء ،صحافی مصنفین اور مؤلفین بیٹھے ہوں تو وہ خاموش کیسے رہ سکتے ہیں!! چلئے ڈاکٹر حبیب الرحمن نے ایک شعر سنا کر بیت بازی کا آغاز کر دیا۔ مجھے زیادہ اشعار نہیں آتے، مگر بیت بازی میں چند اشعار تو سنا ہی سکتا ہوں۔سبھی نے حصہ لیا، بڑا مزا آیا۔ راقم نے اپنی کتابوں کے متعدد قصے‘ واقعات اور ذاتی تجربات سنا ئے۔ برادرم عبدالقوی نے 40 سال قبل کے بعض اشعار سنا کر ہماری پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ کے سفر کے بعد ہم علی پور چٹھہ پہنچے۔ یہاں پر ہمارے کافی رشتہ دار ہیں۔ ہمارا استقبال برادرم خلیل الرحمن اور ان کے بعض رفقاء نے کیا۔ خلیل الرحمن اعلیٰ پایہ کے خطاط ہیں۔ا سکول میں ٹیچر بھی رہے اور قرآن کریم کی کتابت کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ میرے بیٹوں عکاشہ اور طلحہ کی وہ پسندیدہ شخصیت ہیں۔ بعض مساجد کی پیشانیوں پر ان کی خطاطی کے شاہکار نظر آتے ہیں۔ علی پور میں بھی شرکاء پر پھول برسائے گئے۔
تمام شرکاء کی تواضع کے لئے ٹیبل سجی ہوئی تھی۔ جس کا جی چاہا اس نے کھایا، جس نے معذرت چاہی میزبانوں نے اس کی معذرت قبول کر لی۔ ’’قافلہ صلہ رحمی‘‘ کے پروگرام سے پہلے راقم نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ساری برادری خوبصورت کپڑے پہنیں۔ ایسا محسوس ہوکہ عید کا سماں ہے۔ واقعی اس روز ہماری برادری کے لئے عید کا سماں تھا۔ سبھی نے خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے ،چہروں پر رونقیں تھیں۔ ہمارا اگلا پڑاؤ سپراؤں کا ڈیرا تھا۔ کیلیانوالہ کے اڈے کے پار جنوب کی جانب ہمارے بزرگوں کی زمینیں تھیں۔ وقت کے ساتھ یہ بکتی چلی گئیں۔ جس کو پیسوں کی ضرورت پڑی، اس نے فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لی۔ مجھے یاد ہے کہ 1964ء میں جب میرے والد گرامی کیلیانوالہ سے حافظ آباد منتقل ہوئے تو انہوں نے اپنے حصے کی زمین فروخت کر دی تھی۔ یہ زمین بہت زیادہ تو نہ تھی، مگر بزرگوں کی یادگار تھی کہ وہ کبھی ان زمینوں کے مالک تھے۔ والد صاحب کی زمین زیادہ نہ تھی، مگر اس وقت جو پیسہ ملا وہ بہت کام آیا۔
ہمارے ایک چچا چوہدری عنایت اللہ سپرا نے اپنے بیٹوں برادرم اسماعیل وغیرہ کے تعاون سے یہاں ڈیرہ بنالیا ہے ۔ پچھلے سفر میں آیا تو عزیزوں سمیت اس ڈیرہ میں بیٹھ کر دودھ برفی کے مزے لیتے رہے۔ چوہدری صاحب نے بھینسیں پال رکھی ہیں۔ کھیتوں میں چارہ بھی اگایا ہوا ہے۔اُن کا ایک بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ یہاں ڈیرہ پر ہی رہتا ہے۔ اس وقت دھوپ کی شدت تھی۔ وقت کم تھا۔ ہم نے زمین پر اگی ہوئی فصل اور ڈیرے پر اچٹتی نظر دوڑائی اور ڈرائیور سے واپس جانے کی استدعا کی۔ اللہ تعالیٰ ان زمینوں کو آباد رکھے، اس کے اناج میں برکتیں نازل فرمائے،آمین۔ ہمارے قافلہ صلہ رحمی کا رخ اب بھائی عبدالسمیع کے گاؤں چاہڑکے کی طرف تھا۔ یہ ہمارے چچا عنایت اللہ سپرا کے بیٹے ہیں۔ ان کی والدہ آپا ذکیہ ہماری چچا زاد بہن ہیں۔ خلوص، محبت ،پیار اپنوں سے بطور خاص ملتا ہے۔ آپا جی کو قافلے کی اطلاع ملی تو فوری طور پر چاہڑکے آ گئیں، یہاں بھی خوب استقبال ہوا۔ دودھ اور پھلوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ ہم نے تھوڑا سا وقت اپنے بھائی کے گھر میں گزارا اور اجازت چاہی۔ میزبانوں کا شکوہ رہا کہ آپ اتنی جلدی واپس جا رہے ہیں، مگر آصف سپرا ہمیں تاخیر کی خبر دے رہے تھے۔ دن کے 2بج رہے تھے۔ اب کوسٹر کا رخ ہمارے آبائی گھر کیلیانوالہ کی طرف تھا۔ اس کوسٹر میں بیٹھے ہوئے حضرات میں سے بیشتر اسی گاؤں میں پیدا ہوئے یا ان کے والدین یہاں پیدا ہوئے۔ عرف عام میں اسے جنم بھومی کہتے ہیں۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ اس گاؤں کے درو دیوار سے مجھے گہری محبت ہے۔ میرا بچپن یہاں گزرا ہے۔ مجھے اپنا وہ کچا گھر آج بھی یاد ہے۔
اس کے صحن میں دھریک کا درخت تھا۔ ہم کبھی کبھار اس پر جھولے جھولتے تھے۔ اس کی گلیاں مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ یہ درست ہے کہ والد صاحب 1964ء میں اس گاؤں سے نقل مکانی کر کے حافظ آباد چلے گئے تھے۔ میں اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، مگر سبحان اللہ! آج بھی گاؤں کے لوگوں کے نام اور ان کی ذاتیں تک مجھے یاد ہیں۔ اگر کوئی مجھے آ کرکہے کہ میں کیلیانوالہ سے آیا ہوں تو میں اس سے پوچھتا ہوں کہ اچھا بتاؤ تمہارا گھر کس طرف ہے۔ پورے گاؤں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے یہاں مسجد کی تعمیر شروع کروا رکھی ہے ۔ گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے نالہ و گھ آتا ہے۔ بچپن میں ہم والدین سے چوری چھُپے یہاں نہایا کرتے تھے۔ گرمی کے دنوں میں جب گاؤں والے قیلولہ کر رہے ہوتے تھے تو ہمارا پسندیدہ مشغلہ نالے میں نہانا ہوتا تھا۔ہر چند کہ گھر والوں سے ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ میں نے تیرنا یہیں سے سیکھا تھا۔ اب اسی نالے کے قریب برلب ِ سڑک ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر جاری ہے جس کا نام مسجد عبدالمالک مجاہد ہے۔ میرے چچا زاد بھائی محمد یعقوب کیلانی تعمیر کی نگرانی کر رہے ہیں۔ کوسٹر پہلے اس مسجد کے پاس کھڑی ہوئی۔ میرے نزدیک مسجد کی آباد کاری کے لئے مسجد سے ملحق مؤذن اور امام کا گھر ہونا بڑا ضروری ہے،چنانچہ میں نے ان کے لئے الحمدللہ 2گھر بھی تعمیر کروائے ہیں۔ مسجد کو دیکھا، ضروری مشورے دیے اور اب ہمارا رخ دارالسلام فری ہسپتال کی طرف تھا،جہاں ہماری برادری کے لوگ ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ دورِ حاضر میں موبائل کی بدولت لمحہ لمحہ کی اطلاع مل جاتی ہے۔ہسپتال کے صدر دروازے پر پیاروں نے استقبال کیا۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
بڑی محبت کے ساتھ اندر لے جایا گیا۔ 2005ء کی بات ہے۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی محمد طارق شاہد سے کہا: طارق! اللہ نے ہمیں بہت کچھ دیا مگر ہم نے اپنے گاؤں کو کیا دیا ہے؟ جب ہمیں معلوم ہے کہ یہ ہمارا گاؤں ہے،ہم اس میں پیدا ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں اچھے مقام پر پہنچایا ہے تو ہمیں بھی اپنے گاؤں والوں کو کوئی چیز گفٹ کرنا چاہیے۔ ہم نے سوچنا شروع کر دیا۔ مسجد واسکول تو موجود ہیں، ہاں گاؤں کے اس محلے میں جہاں ہمارے رشتہ داروں کے گھر ہیں، اگر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بنا دی جائے تو لوگوں کا بھلا ہو گا۔ برادرم یعقوب صاحب کی بیٹھک خالی تھی۔ اس کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ لو جی اپنے ایک بھتیجے ڈاکٹر محمد عثمان کو اس کا انچارج بنا دیا۔ علی پور چٹھہ میں میرے ایک بچپن کے دوست اور کلاس فیلو عارف مہر صاحب کا میڈیکل ا سٹور ہے۔ ان سے بات کی ۔ سستی دوائیں مل گئیں۔ ہم نے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کھول لی۔ مریض آنے شروع ہو گئے۔ کوئی سال ، 2سال گزرے، میں نے طارق کی ڈیوٹی لگائی کہ کام بڑھ گیا ہے اس لئے کوئی نسبتاًبڑی جگہ تلاش کرو ۔ گاؤں کے شروع میں کوئی ڈھائی کنال جگہ خرید لی گئی۔ پھر ہم نے اس کے سنگ بنیاد کے لئے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر سے گزارش کی کہ وہ تشریف لائیں اور اس ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھیں۔بلاشبہ یہ ایک بڑی خوبصورت تقریب تھی۔ علاقے کے معززین آئے اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی اس کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ 4کمرے اور ایک بڑا ہال بنایا گیا۔ اسی ہال یا لابی میں ہمارے لئے استقبالیہ کا پروگرام رکھا گیا۔ آج کے کھانے کیلئے ڈاکٹر عثمان نے بکرا ذبح کیا ہوا تھا۔ عربوں میں یہ عادت ہے کہ جس کی تکریم کرنا ہواس کیلئے بکرا ذبح کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

شیئر: