Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

1.2ٹن وزنی ’’مون فش‘‘ پانی سے باہر آنے پر مر گئی

ماسکو....  روسی ماہی گیروں نے بحر اوقیانوس میں جزیرہ کورل کے قریب انتہائی  بڑی مون فش کو ایک دن  قبل پکڑا تھا مگر1.2ٹن وزنی یہ مچھلی دوسرے دن ہی مر گئی۔تفصیلات کے مطابق ریکارڈ وزن کی حامل اس مچھلی کو پکڑنے والے ماہی گیروں نے پورا ایک دن اس بحث میں گزار دیا کہ آخر اتنی بڑی مچھلی کو  واپس سمندر میں بھیج دیا جائے یا اسے کاٹ کر تقسیم کردیا جائے۔ وہ تقریباً30گھنٹے تک اس فالتو بحث میں پڑے رہے  اور پانی کے باہر رہنے  والی مچھلی تڑپ کر مر گئی۔ بعد میں  مردہ مچھلی کے ٹکڑے کئے گئے اور ایک قریبی جزیرے پر پھینک دیئے گئے تاکہ وہاں پائے جانے والے بھورے ریچھ اس سے اپنا پیٹ بھر سکیں۔ ماہی گیروں کے اس  رویہ پر آبی حیاتیات کے ماہرین اور سائنسدانوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ان احمق ماہی گیروں کو چاہئے تھا کہ وہ رابطہ کرتے اور اتنی بڑی مچھلی کو تحقیقی کام کیلئے سائنسی اداروں کے حوالے کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں یا دنیا میں کہیں بھی اتنی بڑی مون فش کبھی نہیں پکڑی گئی۔ ریکارڈ ساز وزن کی حامل مچھلی  جاپان کے شمالی سمندر ی علاقے میں پکڑی گئی تھی او راسے پکڑنے کیلئے شکار کرنے والے موٹر بوٹ کے عملے کے ارکان اسے دیکھ کر حیران رہ گئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر اس مچھلی کا کیا کیا جائے۔ اخبار سائبیرین ٹائمز کا کہناہے کہ غور سے دیکھا جائے تو ان احمق ماہرین نے کوئی غلطی نہیں بلکہ بہت بڑا جرم کیا ہے جسکی انہیں  سزا ملنی چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ ماہی گیروںنے اس مچھلی کو پانی سے نکال کرخشکی پر رکھ دیا تھا  جہاں وہ نہ صرف مر گئی بلکہ گلنے سڑنے بھی لگی۔ جس کے بعد اسے بھورے ریچھوں کی خوراک کے طور پر ایک جزیرے پر پھینک دیا گیا۔ واضح ہو کہ مون فش کا خون دوسری مچھلیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ گرم ہوتا ہے اور اکثر لوگ اسے اپنی قوت میں اضافے کیلئے  اسکا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ جس علاقے میں اس کی باقیات پھینکی گئیں وہاں بھورے ریچھ بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا جہاں مچھلیوں کا بہت بڑا میوزیم بھی ہے۔ اگر ماہی گیر چاہتے تو اسے پکڑنے کے فوری بعد عجائب گھر کو عطیہ کرسکتے تھے۔

شیئر: