Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونس خان اورڈیرن سامی بورڈز کی بے اعتنائی کا شکار

 
لاہور:پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان اور سب سے کامیاب ٹیسٹ بیٹسمین یونس خان اپنے کیرئیر کے دوران کرکٹ بورڈ کے ساتھ اختلافات سے دوچار رہے ادھر ویسٹ انڈین ٹیم کے سابق کپتان اور سپر لیگ ٹیم پشاور زلمی کے قائد ڈیرن سامی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ جہاں تک یونس خان کا تعلق ہے تو وہ بورڈ کے ساتھ بعض معاملات پر ناراضی کے باوجود خاموشی سے کرکٹ کھیلتے رہے اورسینڑل کنڑیکٹ کے تحت قواعد کی پابندی کی پوری کوشش کی جبکہ ڈیرن سامی نے اس حوالے سے تمام کشتیاں جلا دی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان دونوں کے تنازعات نے پھر شہ سرخیوں میں جگہ بنائی۔یونس خان نے دعوت ملنے کے باوجودلاہور میں اپنے اعزاز اورپی سی بی ایوارڈز تقریب میں شرکت نہیں اور ایک مرتبہ پھر بورڈ کو واضح پیغام دے ہی دیا ہے ، دوسری جانب ورلڈ الیون کے ہمراہ پاکستان آنے والے 33 سال کے ڈیرن سامی اور ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے درمیان اب واپسی کے تمام دروازے بند نظر آنے لگے ہیں۔سینٹ لوسیا کے آل راو¿نڈ ر ڈیرن سامی ، جن کی قیادت میں ویسٹ انڈیز دو بار آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 جیتا، ملک کے کرکٹ بورڈ کے صدر سے ہاتھ ملانے کے روادار بھی نہیں رہے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ورلڈ الیون اور پاکستان کے درمیان تیسرے اور فیصلہ کن ٹی ٹوئنٹی میچ کے بعد ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون کو اس وقت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب ڈیرن سامی نے ان سے میڈل وصول نہیں کیا۔ سامی نے جب یہ دیکھا کہ ڈیوڈ کیمرون ورلڈ الیون کے کرکڑز کو میڈلز پہنا رہے ہیں،تو وہ خاموشی سے کھلاڑیوں کی قطار سے نکل گئے اور جوگنگ کرتے ہوئے ڈریسنگ روم کی جانب چلے گئے۔جمیکا سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ کیمرون نے ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے اٹھارویں صدر کی حیثیت سے مارچ 2013ءمیں ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا وقتا ًفوقتا ًخبروں میں چرچا رہتا ہی تھا،البتہ 3اپریل 2016ء میں ایڈن گارڈن کول کتہ میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم آئی سی سی ورلڈ ٹی 20کی فاتح بنی ،تو بطور کپتان ڈیرن سامی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔انہوں نے ٹرافی اٹھاتے ہی بورڈ پر تنقید کے تیر برسا دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کرکٹ بورڈ نے ہمیںبے انتہا مایوس کیا، اس ٹورنامنٹ سے پہلے ٹیم بے یارو مددگار تھی،یہاں تک کھلاڑیوں کے پاس کٹ تک نہیں تھی، لیکن کوچنگ اسٹاف کے شکرگزار ہیںجنھوں نے کھلاڑیوں کو اس معیار کی کرکٹ کھیلنے کے لئے آمادہ کیا۔ اس لئے ویسٹ انڈین ٹیم کے چیمپئن بننے پر مبارکباد کے مستحق صرف کوچنگ اسٹاف کے اراکین اور ٹیم لگاو¿ رکھنے والے شائقین ہیں۔ڈیرن سامی کے اس بیان کے بعد بورڈ اور ان کے راستے جدا ہوگئے۔ اور اب ایک فاتح کپتان اپنے ملک کی قیادت کے بجائے،دنیا کی مختلف لیگز میں کپتانی کر رہا ہے۔سامی ابھی صرف 33سال کے ہی لیکن اپنے ملک کے لئے 38 ٹیسٹ 126 ون ڈے اور 66 ٹی 20 انٹرنیشنلز کے ساتھ ان کے کیرئیر کو بین الاقوامی سطح پر بریک لگ چکی ہے۔ڈیرن سامی نے چار سال میں ویسٹ انڈیز کو دو بار ورلڈ ٹی 20 کا چیمپیئن بنایا لیکن وہ اب اس ٹیم کا حصہ نہیں۔2009ءمیں یونس خان نے بھی پاکستانی ٹیم کو آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 کا فاتح بنایا،لیکن صرف پانچ ماہ بعد ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے کہ ایک چیمپیئن کپتان نے خود کو قیادت کے منصب ہی سے علیحدہ کر لیا۔ویسٹ انڈیزکے ڈیرن سامی ہو یا پاکستان کے یونس خان دونوں چیمپیئن کپتان ہیں،البتہ افسوس دونوں ہی کو ان کے بورڈ سے وہ عزت افزائی نہ مل سکی،جو بطور کپتان دونوں نے آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹرافی جیت کر اپنی عوام سے حاصل کی۔
 
 
 

شیئر: