Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منتظر ہے نگاہ

یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ کریم بندے کو ا س زمین سے اس وقت تک نہیں اٹھاتا جب تک اس کے باطن کو دنیا پر ظاہر نہ کردے
* * * *محمد مبشر انوار* * * *
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی ،سیاسی تاریخ کے کسی بھی طالبعلم سے پوشیدہ نہیں کہ میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں افق سیاست پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ تک جا پہنچے ۔ بے شک کسی بھی سیاستدان کی سیاست کا مقصد ہی اس اعلیٰ ترین عہدے کا حصول ہوتا ہے تا کہ وہ اور اس کی جماعت اپنے اصولوں اور معاشی پالیسی کا نفاذ پورے ملک میں کر کے ملک و قوم کی خدمت کرے،اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال سکے اور تاریخ کے اوراق میں اپنا نام لکھوا سکے۔ میاں نواز شریف اس حوالے سے خاصے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ ان کے حق حکمرانی کو بلاشبہ پچھلی ساڑھے 3 دہائیوں سے بلاشرکت غیرے نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ انہیں ہر وہ سہولت مہیا کی گئی جو کاروبار حکومت چلانے کے لئے درکار ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے یہ میاں نواز شریف ہی تھے جو ہر دور میں خود اپنی حکومت کے مخالف بنے، نہ صرف مخالفین بلکہ سرپرستوں سے بھی سینگ پھنسانے کی عادت نے ان کی حکومت کو دوام نہ بخشا۔
اسی پر بس نہیں بلکہ میاں نواز شریف کی شاہانہ طبیعت کو کسی بھی کسی قسم کی حدود و قیود پسند نہ تھی، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہوں مگر ان کے احکامات میں کوئی ’’اگر مگر،چونکہ چنانچہ‘‘ ہو؟اس قسم کی روک ٹوک انہیں کبھی بھی پسند نہ رہی اور نہ آج تک ہے، ہر کام اشارہ ابرو پر کروانے والے ، میاں نوازشریف نے اس مقصد کی خاطر اپنے اردگرد ایسے وفاداروں کا ٹولہ اکٹھا کیا جو کسی نہ کسی طرح ’’شاہ معظم‘‘ کی خواہشات کا احترام بجا لاتے رہے۔ نو رتنوں کے اس انتخاب میں میاں نواز شریف نے درحقیقت اداروں کی تباہی و بربادی کا جو سامان پیدا کیایہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ادارے اپنے بنیادی فرائض بھی کما حقہ انجام دینے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے افسران بلا جھجھک اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بنیادبنا کر کسی کو بھی ٹکا سا انکار کردینے کی ہمت و جرأت رکھتے ہیں کہ جانتے ہیں ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا ،ان کے سرپرست ان کو صاف بچا لینے کی سکت رکھتے ہیں۔ریاستی اداروں کے علاوہ دوسرے شعبہ جات بھی میاں نوازشریف کی اس چانکیائی سیاست سے محفوظ نہیں رہے اور ہر اس جگہ جہاں سے ریاست کے مفادات کی بات ہوتی، وہاں میاں نواز شریف کے دستر خوان پر پلنے والوں کا یہ اولین فرض منصبی ٹھہرا کہ معاملات میں ایسا الجھاؤ پیدا کیا جائے تا کہ عوام سچ جھوٹ کی تمیز نہ کر سکیں اور بالآخر میاں نواز شریف ہی کو اپنا رہبر و قائد تسلیم کریں۔
دائیں بازو کی سیاست کرتے کرتے کب کہاں میاں نوازشریف کے نظریات سرمایہ دارانہ ہوئے یا سرمایہ دارانہ نظریات کے دلدادہ نواز شریف نے کب اور کیوں دائیں بازو کی سیاست شروع کی،یہ ممکن ہے انہیں بھی علم نہ ہو مگر اب حالت یہ ہے کہ ’’اتفاق فونڈری‘‘کا یہ ’’ہونہار سپوت ‘‘آج اربوں ڈالرز کے اثاثوں کا مالک ہے مگر جب عدالتوں نے ان اثاثوں کا ثبوت طلب کیا تو ماسوائے قطری خطوط کے، زنبیلِ نواز شریف سے کچھ بھی نہ نکلا۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ زنبیلِ نواز شریف ان دستاویزی ثبوتوں سے خالی تھی بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ ایک ملک کے سربراہ اور اس کے حمایتیوں نے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا پاس نہیں رکھابلکہ فیصلہ سنانے والے معزز جج صاحبان کے خلاف طوفان بدتمیزی بپا کر دیا۔ گلی گلی یہ سوال پورے طمطراق سے پوچھا گیا کہ کیا 5 لوگوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ آپ (عوام) کے کروڑوں ووٹوں(جس کے متعلق حقائق بذات خود انتہائی شرمناک ہیں کہ کیسے ریاستی انتخابی عملہ ووٹوں سے متعلق مسلم لیگ ن کی پشتیبانی کرتا رہا) سے منتخب شدہ وزیر اعظم کو ’’پانامہ‘‘ کی بجائے ’’اقامہ‘‘ پر نکال دیں؟ نرگسیت کے مارے میاں نوازشریف کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ اس طرز عمل سے آپ عوام کو کیا سبق دے رہے ہیں کہ وہ بھی اپنے رہبر و قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مجاز اداروں کے معزز ممبران پر کیچڑ اچھالیں؟ علاوہ ازیں پیش بندی کے طور پرجو روش لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے خلاف اپنائی گئی اوراپنے ذاتی مفادات کی خاطر جس طرح وکلاء برادری(بشمول غیر وکلاء )کو استعمال کیا گیا تا کہ شوگر ملز کی غیر قانونی منتقلی کے فیصلے پر اثر انداز ہوا جا سکے،اپنے جانثاروں کو کیا تربیت دی جا رہی ہے؟ کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں بنتا کہ آپ کے نزدیک ریاست یا ریاستی اداروں کی اپنے ذاتی مفادات کے سامنے رتی برابر حیثیت نہیں؟اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کچھ بھی کر گزرو ، کسی کی بھی پگڑی اچھال دو مگر یاد رکھئے عزت اور ذلت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے اختیار میں ہے،وہی اللہ کریم ،جس نے آپ اور آپ کے خاندان کو چار دہائیوں سے عزت بخش رکھی ہے لیکن اللہ کریم کی طرف سے عنایت کردہ کسی بھی صفت سے نا انصافی صرف اس کے قہر کو ہی آواز دیتی ہے اور آپ نے جس طرح اس صفت اور عطا میں خیانت کی،اس کے بعد ڈھیل کا ختم ہو نا لازمی امر تھا،جو ہو چکا۔
یہ وہی عدالتیں ہیں،جہاں سے ہمیشہ شریف خاندان کو ریلیف ملا ،مرحوم چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے جو گھناؤنا کھیل کھیلا، وہ عدلیہ کی تاریخ کا شرمناک باب ہے مگر آپ اس میں سرخرو ٹھہرے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالتوں میں آپ نے مخالفین کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا،عدالتوں نے آپ کا ساتھ ہر معاملے اور ہر موقع پر دیا لیکن آج ایسا کیا ہوا کہ عدالتیں آپ کونا اہل قرار دینے کے باوجودیہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ابھی انہوں نے ایسا بہت کچھ تحریر نہیں کیاجو ان کے علم میں ہے مگر آپ اور آپ کے وکلاء ہنوز عدالتوں کو دباؤ میں لانے کی سعی لا حاصل میں مصروف عمل ہیں۔ کبھی ان کی کردار کشی کی جاتی ہے تو کہیں ان کو کھلے عام دھمکیاں دی جاتی ہیں،کبھی ان کے تحمل کا امتحان لیا جاتا ہے تو کہیں ان کی اہلیت کا۔ سابق وزیر اعظم کے وکلاء ہنوز ان معاملات کا ذکر چھیڑ رہے ہیں ،جن کے متعلق معززججز کا یہ کہنا ہے کہ ابھی انہوں نے ایسا بہت کچھ نہیں لکھا جو ان کے علم میں ہے۔ ممکن ہے کہ معزز جج صاحبان کسی مصلحت کے تحت یا قانونی مجبوریوں کی وجہ سے وہ سب کچھ اپنے فیصلے میں کھل کر نہیں لکھ سکے جن کا تذکرہ نوازشریف کے وکلاء تکرار کے ساتھ کر رہے ہیں۔
ان کلاء کی دانست میں ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے وہ کچھ نہ کچھ ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر دوسری صورت انتہائی خوفناک حالات کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر ایسی حقیقتوں کو آشکار کر دے ،جو سابق وزیراعظم کے حوالے سے رہی سہی کسر بھی پوری کردے۔ویسے بھی یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ کریم بندے کو ا س زمین سے اس وقت تک نہیں اٹھاتا جب تک اس کے باطن کو دنیا پر ظاہر نہ کردے،جس کی ایک واضح مثال ’’مہاجروں‘‘ کے قائد الطاف حسین کی ہے تو دوسری مثال ممکن ہے مسلم لیگ ن کے سربراہ کی بننے جا رہی ہو ، تیسری پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری اور چوتھی مثال تحریک انصاف کے عمران خان کی بھی ہو سکتی ہے،جو بھی ہے پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔۔۔۔۔

شیئر: