Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”اپنے سائے میں رہو، غیر سے کیا مانگتے ہو“

 درجنوں کتابوں اور شعری مجموعوںکے نامورادیب و شاعر ،شہزاد احمدکی یادیں
شہزاد اعظم۔جدہ
یہ دنیا ایسی جائے قرار ہے جہاں کسی کو قرار نہیں۔یہ ایک ایسی سرائے ہے جہاں ایک آتا ہے اور دوسرا چلا جاتا ہے۔ہر آنے والے کو جانا ضرور ہے کیونکہ یہی سنتِ حیات ہے۔ وہ کسی نے کہا ہے ناں کہ:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ ، کل ہماری باری ہے
اس ”سرائے عالم“کے ایک مسافر شہزاد احمد  بھی تھے جو80برس قیام کرنے کے بعد ملکِ عدم روانہ ہوگئے تھے۔ وہ پاکستان کے معروف شاعر، مصنف اور سائنسی تخیلات کو شعری قالب میں ڈھالنے والے سخن گستر تھے۔ایک مرتبہ شہزاد احمدعالمی اردومرکز، جدہ کے عالمی مشاعرے میں شرکت کے لئے تشریف لائے تو ان سے بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی جس کا احوال اردو نیوز میںشائع بھی کیا گیاتھا۔اس موقع پر اُن سے ”مجلس ترقی¿ ادب“ کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ یہ مجلس1950ءمیں قائم کی گئی تھی۔اُس وقت اس کا نام ”مجلسِ ترجمہ“ تھا۔یہ مجلس معروف بین الاقوامی کتب کا ترجمہ کر کے ا نہیں شائع کرتی تھی تاہم 1958ءمیں اس کا نام ”مجلسِ ترقی¿ ادب“ رکھ دیا گیا۔ اس کا سربراہ صوبے کا وزیرِ تعلیم ہوا کرتا تھا۔ اس ادارے نے مذہب، ادب، تاریخ، شاعری اور خودنوشت پر مبنی سیکڑوں کتب کے تراجم کے علاوہ ”کتابِ غالب، چراغِ سخن، تاریخِ پنجاب، امرا وجان ادا،فردوسِ بریں،کلیاتِ سودا، کلیاتِ انشا، کلیاتِ شاہ نصیر، کلیاتِ مصحفی اور دیوانِ صبا “ سمیت متعدد کتابیں شائع کیں۔“ بلا شبہ اس گراں قدر خدمت میں شہزاد احمد کا حصہ اور کردار دونوں ہی اہمیت کے حامل رہے۔بقولِ شاعر:
”خدا بخشے بہت ہی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“
شہزاد احمد 16اپریل 1932ءکوغیر منقسم ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پاکستان بنا تو ہجرت کی اور اس مملکتِ خداداد میں اپنی ادبی فطانت سے لوگوں کو ششدر کیا۔ تصنیف میں اعلیٰ مقام حاصل کیا اورشاعری میں اپنی انفرادیت منوائی ۔نظم و نثر کی 36سے زائد کتابیں لکھیں۔1997ءمیں حکومتِ پاکستان نے انہیں ”پرائڈ آف پرفارمنس“ سے نوازا۔ وہ مجلسِ ترقی¿ ادب کے ڈائریکٹر تھے۔ شہزاد احمد نے میٹرک کا امتحان امرتسر سے ہی پاس کیا تھا اس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔انہوں نے1956ءمیں گورنمنٹ کالج، لاہور سے سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیااور1958ءمیں اسی کالج سے فلسفے میں ایم اے کیا۔کالج کے دور میںہی ان پر انکشاف ہوا کہ وہ شاعر ہیں چنانچہ انہوں نے شعر کہنے شروع کر دیئے اور ساتھ ہی ادبی محافل میں شرکت کا آغاز بھی کر دیا کیونکہ ہیرے کی قدر جاننے والے جوہری انہی محافل میں دستیاب ہوسکتے ہیں۔
شہزاد احمد نے 30منظوم کتب تحریر کیں۔ان کے علاوہ نفسیات پر انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں۔انہوں نے شعری مجموعوں اور دیگر کتب کے تراجم بھی کئے۔ان ادبی خدمات کے اعتراف میں ہی انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ”پرائڈ آف پرفارمنس“ دیا گیا۔ ان کے معروف شعری مجموعوں میں”صدف، جلتی بجھتی آنکھیں،ٹوٹا ہوا پُل،اُترے مری خاک پر ستارے اوربچھڑ جانے کی رُت“ شامل ہیں۔ 
شہزاد احمد پاکستان میں حکومت کی جانب سے قومی زبان اردو کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر خوش نہیں تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اردو کے فروغ اور ترقی کے حوالے سے حکومت نے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔اسے ان اداروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جو قومی زبان کی ترویج کے لئے کام کر رہے ہیں۔
مجلسِ ترقی¿ ادب کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے انہوں نے کئی مرتبہ اس امر کا احساس دلانے کی کوشش کی کہ کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے ہم مشاعرے میں پائی جانے والی انتہا پسندی سے نبردآزما ہو سکتے ہیں۔انہوں نے چند روز قبل دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہوشربا گرانی کے موجودہ دور میں لوگ کتابیں خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارا تعلیمی نظام محقق اور دانشور پیدا کرنے کی بجائے ”مستری“ پیدا کر رہا ہے۔آج ہمارے تعلیمی سسٹم میں جو کارپوریٹ کلچر در آیا ہے ، اس سے حصول علم کے تجسس اور لگن کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ دنیائے فن میں تجارتی رجحان کے غلبے نے ہماری ثقافت سے بعض کلاسیکی فنون کو نیست ونابود کردیاہے۔ یہ جو شاعری اور مصوری باقی نظر آ رہی ہے وہ ہمارے صاحبانِ فن کی ذاتی دلچسپیوں کے باعث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحرانی دورمیں لوگوں کو علم و آگہی فراہم کرنے اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے لئے ترقی پسند ادب کی ازحد ضرورت ہے۔ آج کی تیز رفتار زندگی کے باعث شہری علاقوں میں حقیقی ادب تخلیق نہیں ہو رہامگر دیہی علاقوں کے لوگ فن و ثقافت کے میدانوںمیں اپنا حصہ خوب ڈال رہے ہیں۔
پاکستان کے عظیم شاعر و نثّار امجد اسلام امجد نے شہزاد احمد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ قیام پاکستان کے بعد اس نومولود مملکت کے شعراءکی پہلی نسل کے نمائندہ شاعر تھے۔ان کا شمار احمد فراز، حبیب جالب اور جون ایلیا جیسے افسانوی شہرت یافتہ شاعروں میں ہوتا ہے۔
شاعر و مصنف خالد احمد نے کہا کہ شہزاد احمدبہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ انہوں نے بڑے پراعتماد انداز میں نفسیات اور فلسفے جیسے موضوعات کی منظوم تشریح و توضیح کی ہے۔ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ شہزاد احمد نے احمد فراز اور فیض احمد فیض کی جلائی ہوئی شمع کو روشن کئے رکھا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ہی میں ان کے ساتھ نیرنگ آرٹ گیلری میں موجود تھا۔یہ وہی آرٹ گیلری ہے جہاں مہینے کے ہر آخری جمعہ کو گیلری کے مالک نیر علی داداایک ادبی نشست منعقد کیا کرتے ہیں۔ اس نشست میں شہزاد احمد نے اپنی تین غزلیں بھی سامعین کی نذر کی تھیں۔
معروف شاعر ظفر اقبال نے کہا کہ میں اور شہزاد احمد گورنمنٹ کالج میںایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ان کے ہماری فیملی سے اتنے قریبی روابط تھے کہ میں نے اپنی ایک بیٹی کا نام شہزاد احمد کی اہلیہ کے نام پر رکھ دیا۔
شہزاد احمد زندگی کی تلخیوں سے آشنا تھے ۔ ان کا یہ وصف ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتاہے۔انسان جب تک زندہ رہتاہے، اپنے آپ کو منوانے اور لوگوں کے دلوں پر اپنی دھاک بٹھانے کی تگ و دو میں مگن رہتا ہے مگر جب زندگی اس سے منہ موڑ لیتی ہے تو وہ اپنا نام اور مقام اسی دنیا میں چھوڑ کر شہر خموشاں میں سکونت پذیرہوجاتا ہے۔شہزاد احمد نے زندگی کے ہنگاموں اور چلتی سانسوں کے ربطِ باہم کو نہایت خوبصورت شعری قالب میں ڈھال کر یوں بیان کیا کہ:
رقصاں ہیں اسی لے پہ ستارے ہوں یا شبنم
کیا سحر ہے اس دل کے دھڑکنے کی صدا میں
کس آگ نے رکھا ہے قدم دل کی زمیں پر
سورج سے دمکتے ہیں نشانِ کفِ پا میں
جاگ اٹھا ہے دل میں کوئی سویا ہوا وحشی
ہم گھر میں ہیں شہزاد کہ جنگل کی فضا میں
سانسوں کی گنتی مکمل کر لینے کے بعدکوئی منہ زور ہویا شہ زور ،اُسی دوگز زمین کا پیوند ہوجاتا ہے جو کسی کی جاگیر نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کا منظوم اندازشہزاد احمد کے اوجِ فن کی داد یوںدیتا نظر آتا ہے:
اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اُڑانے والے
یہ الگ بات میسر لبِ گویا نہ ہوا
دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے
دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو
ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے
تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحے ہیں
دل کو تنہائی کا احساس دلانے والے
دنیا کی بے ثباتی کا احساس انسان کو اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی تمام کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود خود کوناکام تصور کرتا ہے۔پھر اسے خیال آتا ہے کہ اس نے اپنی دنیا کو حسین بنانے میں اک عمر صرف کی مگرپھر بھی یہ اس کی مرضی کے مطابق نہ بن سکی اور آج جب دنیا سے واپسی کی صدائیں پردہ¿ سماعت پر کسی وہم کی طرح دستک دینے لگی ہیں تو یہ عالمِ رنگ و بو،بے رنگ، بے بو اور بے وفا سالگنے لگا ہے۔ ان احساسات سے معمور یہ اشعار بھی دیکھئے:
حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے، ترا کیا لگتا ہے
یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتاہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے
آج اک خواب کی تصویر بنائی میں نے
نقش ایسا ہے کہ نقشِ کفِ پا لگتا ہے
یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
اک تعلق ہے کہ جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے
مدتیں بیت گئیں ،طے نہ ہوئی منزلِ عشق
ایک عالم مرے رستے میں پڑا لگتا ہے
اے مرے جذبِ دورں مجھ میںکشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے
جانے میں کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد
اسقدر دور ہے سورج کہ دیا لگتا ہے
اپنی زندگی میں تمام سرد و گرم سہنے اور نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد وہ اپنے بعدآنے والوں کو چلا چلا کر حقائق سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اصلیت جان لیں اور دنیا کی حقیقت پہچان لیں۔ اسی لئے وہ یوں رقمطرازہیں کہ:
طے ہم سے کسی طور مسافت نہیں ہوتی
ناکام پلٹنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی
چوری کی طرح جرم ہے دولت کی ہوس بھی
وہ ہاتھ کٹیں جن سے سخاوت نہیں ہوتی
زندانیو کیوں اپنا گلا کاٹ رہے ہو
مرنا تو رہائی کی ضمانت نہیں ہوتی
جو تو نے دیا ہے وہی لوٹائیں گے تجھ کو
ہم سے تو امانت میں خیانت نہیں ہوتی
ہر لحظہ اسے ساتھ لئے پھرتا ہوں شہزاد
وہ درد کبھی جس کی ضرورت نہیں ہوتی
اک عام انسان کی فطرت یہی ہے کہ وہ جب تک خود نہ پرکھ لے ، یقین کے مقام تک نہیں پہنچتااور جب اس پرکھنے کے شوق میں ڈسا جاتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ وہ جو ہمیں ان راہوں پر چلنے سے روک رہا تھا، واقعی مخلص تھا۔اس منزل پر شاعراپنے ہم نفسوں کویوں مخاطب کرتا ہے:
دھوپ نکلی ہے تو بادل کی ردا مانگتے ہو
اپنے سائے میں رہو، غیر سے کیا مانگتے ہو
اس کو معلوم ہے شہزاد وہ سب جانتا ہے
کس لئے ہاتھ اٹھاتے ہو، دعا مانگتے ہو
انسیت، مودت، اپنائیت، خلوص اور وفا جیسے اوصافِ گراں مایہ ہر انسان کی جبلی طلب ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں کہ یہ ہر ذی حیات کے لئے ناگزیر ہیں۔ انسان انہی کے حصول کے لئے زندگی بھر تگ و دو کرتا ہے مگر یہ دنیا عالمِ نیم تشفی ہے اس لئے مکمل جہاں کبھی کسی کو نہیں مل پاتا اور آج تو نفسا نفسی کا وہ دور ہے جس میں محبت اور وفا جیسے جذبے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ شہزاد احمد بھی جفاکار کو جھنجھوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
شاعر بلا شبہ بہت حساس ہوتا ہے۔جو اس وصف سے تہی ہو وہ شاعر نہیں ہو سکتا۔شہزاد اپنے دلی جذبات کو لفظوں میں یوں نظم کرتے ہیں:
وہ مرے پاس ہے کیا پاس بلاوں اس کو
دل میں رہتا ہے کہاں ڈھونڈنے جاوں اس کو
آج پھر پہلی ملاقات سے آغاز کروں
آج پھر دور سے ہی دیکھ کے آوں اس کو
قید کر لوں اسے آنکھوں کے نہاں خانوں میں
چاہتا ہوں کہ کسی سے نہ ملاوں اس کو
اسے دنیا کی نگاہوں سے کروں میں محسوس
وہ وہاں ہو کہ جہاں دیکھ نہ پاوں اس کو
چلنا چاہے تو رکھے پاوں مرے سینے پر
بیٹھنا چاہے تو آنکھوں پہ بٹھاوں اس کو
وہ مجھے اتنا سبک اتنا سبک لگتا ہے
کبھی گرجائے تو پلکوں سے اٹھاوں اس کو
مجھے معلوم ہے آخر کو جدا ہونا ہے
لیکن اک بار تو سینے سے لگاوں اس کو
یاد سے اُس کی نہیںخالی کوئی بھی لمحہ
پھر بھی ڈرتا ہوں کہیں بھول نہ جاوں اس کو
آج تو دھوپ میں تیزی ہی بہت ہے ورنہ
اپنے سائے سے بھی شہزاد بچاوں اس کو
آج دنیائے اردو ادب کا یہ درخشندہ ستارہ اپنے تمام احساسات، جذبات اور خیالات کے ساتھ غروب ہو چکا مگر وہ اپنی تحریروں اور اشعار کی صورت میں لوگوں کے احساس کو بیدار کرتے رہےں گے۔اللہ کریم انہیں غریقِ رحمت فرمائے،آمین۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: