Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ کے رسولﷺ بحیثیت داماد

اللہ تعالیٰ نے حق وصول کرنے کے بجائے حق اداکرنے کی تاکید کی ہے ،حقوق کو وصول کرنے بجائے حق کو اداکرنے کا حکم دیا ہے
* * * *محمد عباس انصاری ۔نئی دہلی * * *
بخا ری:باب الطیب للجمع، صحیح ابن حبان میں ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غار ثور میں جب نظر اٹھا کر دیکھا تو آپؓ کو پتہ چلا کہ قدموں کے نشانات کی تتبع کرتے ہوئے مشرکین مکہ یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔گھبرا کرحضرت ابوبکرؓ نے کہا:اے اللہ کے سول !ہم لوگ غار میں ہیں، اگر اُن میں سے کسی نے اپنے قدم کے نیچے کی طرف دیکھ لیا تو ہم پکڑے جائینگے،اللہ کے رسول نے بڑے ہی اطمینان کے ساتھ فرمایا: ’’اے ابوبکر! تمہارا کیا خیا ل ہے اُن 2 آدمیوں کے بارے میں جسکا تیسرا اللہ رب العالمین ہے۔‘‘ اور قرآنِ مقدس نے خود کہا:لا تحزن ان اللہ معنا ’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘( التوبہ40)۔
نبی کریم کا قول حضرت ابوبکر ؓکے تسلّی و تشفّی کے لئے تھااور جب آپ نے ہجر ت کا سفر شروع کیا تو آپکی سالیٔ محترمہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓکے سلسلہ میں ابن سعد نے ذکر کیا ہے: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کھانہ تیار کرکے لے جایا کرتی تھیں،اور جب توشہ دان کا منھ باندھنا ہوا تو اپنی کمر کا پٹہ(کپڑا) پھاڑ کرکے 2حصہ کردیے اور اس سے توشہ دان باندھ دیا،اور اس وجہ سے سیدہ اسماء کو ذات النطاقین کا لقب بھی ملا(الطبقات ابن سعد:ذکر الغار ولہجرہ الی المدینہ )۔
جلال الدین قاسمی فرماتے ہیںکہ عمرہ پر گیا تھاتوجبل ثوربھی گیا ۔جب میں نے نگاہ اوپر اٹھائی تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے یہ سوچکر کہ ایک صنف نازک آپ کی سالی سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کس طرح چھپ چھپا کر کے مکہ سے چل کر ،وہ بھی پیدل ودشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوئے،اس پہاڑ کے اوپر کیسے چڑھی تھیں اور ٹفن کیسے پہچائی تھیں...تو ہجرت کی راہ میں قربانیاں آپ کے سسرال والوں نے دیں۔ایک طرف سسر ہے تو دوسری طرف سالی ہے۔ اور ایسا ہی حال حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا بھی تھا کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور نبی کی زندگی بہت حد تک ایک دوسرے کے امتیوں سے مشابہ ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بے یار ومددگار مصر سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ہمارے نبی بھی جب مکہ سے نکلے تو چاروں طرف خطرہ ہی خطرہ تھا۔پکڑے جانے کا خطرہ ہے۔تلواروں کے سایہ میں آپ نے راستہ نکالا۔اسی طریقہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی حال تھا۔
جیساکہ اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ’’اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے: مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا۔‘‘(القصص 22 )۔ یہی حال نبی کریم کا بھی تھا۔خوف کے عالم میں آپ نے ہجرت کا سفر شروع کیا۔موسیٰ علیہ السلام نے بھی خوف کی حالت میں مصر سے روانگی کی اور بے یار ومددگار جب شہر مدین میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر پہنچادیا۔حضرت شعیب ؑ نے اپنی بیٹی سے انکا نکاح فرمایا۔وہاں انکولڑکی بھی مل گئی ،یعنی بیوی مل گئی اور دوسرے پیٹ بھرنے کا ذریعہ بھی اللہ رب العالمین نے دے دیا،تو جب حضرت موسیٰ ؑ بے یارومددگار تھے تو اس وقت ان کے سسرال کے لوگوں نے انکا ساتھ دیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے داماد ہیں۔انہوں نے اللہ کے راستے میں کتنا مال خرچ کیا وہ ہم سے مخفی ہے۔
اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مقدس میں جہاں بھی حقوق وفرائض کی آیت ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے حق کو وصول کرنے کے بجائے حق کو اداکرنے کی زیادہ تاکید کی ہے تاکہ کسی کے اوپر تمہارا حق ہو تو اس کو وصول کرلو، طریقہ کچھ بھی ہو،بلکہ حقوق کو وصول کرنے بجائے حق کو اداکرنے کا حکم دیا ہے۔اللہ رب العالمین کا ارشاد مبارک ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکید ی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہچادو،اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو۔‘‘(النساء58)۔ اللہ رب العالمین نے یہ نہیں کہا کہ اگر تمہارا حق کسی پر ہوتو جبراً وہ حق تم وصول کرلو۔طریقہ کچھ بھی ہوبلکہ حقوق کو اصول کرنے کے بجائے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیاہے۔فرمایا : ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو انکی امانتیں ادا کردو،قرابت داروں کو ان کا حق دیدو ۔‘‘ کہیں یہ نہیںکہا کہ اگر تمہارا حق کسی کے اوپر ہو تو جبرا ًوہ حق تم وصول کرلو،تو جب حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم نسبی رشتوں کی بھی حفاظت کریں اور جو لوگ نسبی رشتوں سے ہم سے جڑے ہوئے ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ان کے بھی حقوق کا ہم پاس ولحاظ کریں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سلسلہ میں آپ کو معلوم ہوگا کہ رسول کی یکے بعد دیگرے 2بیٹیاں انکے عقد میں تھیں،یعنی سیدہ ام کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہما۔ آپ نے ارشادفرمایا: ’’اگر میرے پاس 10بیٹیا ں ہوتیں تو یکے بعد دیگرے( حضرت) عثمان کی نکاح میں دیدیتا۔‘‘
آپ کی اس بات سے کیا پتہ چلا ؟پتہ یہ چلا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی بیویوں کے تعلق سے بہت ہی عظیم ہستی تھے۔ آپ سیرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہی وہ داماد ہیں کہ رسول اللہ کی دونوں بیٹیوں کے سلسلہ میں کبھی کوئی شکایت محمد کے یہاں لے کر نہیں آئے۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ داماد کو سسر کی بیٹی یعنی اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنا چاہئے۔حتی الامکان وہ یہ کوسش کرے کہ اسکی ذات سے بیوی کے واسطہ سے سسر یا ساس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ایک داما د کو اسی طرح سے ہونا چاہئے۔ ایک بارسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا جو ایک یہودی حیی بنت اخطب کی بیٹی ہیںاور آپ کی بیوی بھی ہیں،جنگ خیبر کے موقعہ پر آپ نے ان سے شادی فرمائی۔انکے کمرے میں آپ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ زار وقطار رورہی ہیں ۔آپ نے ان سے پوچھا کہ صفیہ کیوں رورہی ہو؟کہا کہ زینب جو آپکی بیوی ہیں وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمار اتعلق نبی کریم سے نسبی ہے،لہذا فضیلت میں ہم تم سے بڑھ کر ہیں۔تم فضیلت میں ہمارے برابر نہیں ہوسکتیںاور ہم سے بڑھ نہیں سکتیں۔فورا ًنبی کریم نے ان سے یہ کہا کہ: ارے !تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے فضیلت میں کیسے بڑھ کر ہوسکتی ہوجبکہ میرا باپ ہارون اور میرے چچا موسیٰ اور میرے شوہر حضرت محمد ہیں۔ اس واقعہ پر ذرا غور فرمائیے! تو ہم کو ایک معاشرتی زندگی کا عجیب وغریب نکتہ اور سبق ملتا ہے۔وہ نکتہ اور سبق یہ ہے کہ ایک طرف تو رسول اللہ اپنی بیوی کے جذبات کا احترام کر رہے ہیں،تو دوسری طرف ان کے خاندان کے لوگوں کی تکریم فرما رہے ہیں تاکہ بیوی کو یہ احساس ہو کہ اس گھر میں شوہر کی نظر میں میری بڑی عزت ہے،بڑی تکریم ہے اور اس گھر کے اندر میرے والدین اور میرے گھر والوں کی بھی بڑی عزت ہے۔یہ اسلئے کہ انتہائی قلبی مسرت اور انتہائی قلبی راحت کا باعث ہے۔آپ نے خود سیدہ صفیہ کی تکریم فرمائی کہ تم فضیلت میں ان سے بڑھ کر کیسے ہو سکتی ہو،اور دوسرے آپکے خاندان والوں کی آپ نے اس طرح تکریم فرمائی کہ تمہارا باپ ہارون ؑ اور تمہارے چچا موسیٰ علیہ السلام ہیں۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم میں سسرالی رشتے سے جو منسلک ہیں ان کا ادب واحترام کریں۔ حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا جو نبی کریم کی ایک زوجۂ محترمہ ہیں،ایک بار انہوں نے ایک لونڈی آزاد کی۔
مسلم شریف کی روایت ہے:نبی کریم نے فرمایا کہ تم نے لونڈی آزاد کردی ،تم نے اپنے ماموں کو دے دیا ہوتا،لیکن بخاری شریف کی روایت میں" اختک" کا لفظ ہے،کہ اگر تم نے اس لونڈی کو آزاد کرنے کہ بجائے اپنی بہن کو دیدیتیںاور تمہاری بہن اس سے فائد ہ اٹھاتیں تو تمہار ااجر بڑھ جا تا۔قارئین کرام آپ دیکھ رہے ہیں !اپنی سالی کو وہ لونڈی دینے کی بات محمد کر رہے ہیں۔ اگر اس لونڈی کو آزاد کرنے کی بجائے میری سالی یعنی تم اپنی بہن کو دیدیتیں تو تمہارا اجر بڑھ جاتا۔اس سے یہ پتہ چلاکہ نبی کریم سسرالی رشتہ کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔ حضرت جویریہ بنت حارث ،یہ نبی کریم کی زوجہ محترمہ ہیں۔ غزوہ بنی مصطلق میںجب بنو مصطلق والو ں کو شکست ہوئی تو خود وہ کتابت لے کر آئیں، نبی نے ان سے شادی فرمائی،او ر جیسے ہی آپ نے ان سے شادی فرمائی آپ نے اعلان کردیاکہ غزوہ بنی مصطلق کے جتنے لوگ جویریہ کے خاندان و قبیلہ کے ہیں،تمام قیدی آزاد کردیئے جائیں۔آپ نے انکے قبیلہ کے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے جویریہ سے بہتر اپنی قوم کے لئے اس سے زیادہ بابرکت ہستی نہیں دیکھی کہ انکی وجہ سے انکے قبیلے کے لوگوں کو اللہ کے رسول نے آزاد ی دیدی ۔
یہ تو تھا شوہر کا معاملہ ۔داماد کا معاملہ کہ داماد اپنے سسرال والوں کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ سسرال والوں کا کیا فریضہ بنتاہے کہ داماد کے تعلق سے اس سلسلہ میں بھی نبی کریم کی سیرت اٹھا کر دیکھئے۔ اسلام میں اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے۔ اس کے لئے مرد وعورت دونوں پرذمہ داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے جائز حقوق متعین کئے گئے ہیں جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور معاشرہ میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ گھر میں بیوی اور اولادایک امانت ہے ۔اسلامی خطوط پر ان کی تربیت کرناآپ کی ذمہ داری ہے ۔کل قیامت کے دن آپ کواپنے ماتحتوں کے متعلق جواب دیناہے اس لئے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اوردیندارشوہربنائیں،اپنی بیوی کوپاکباز اورتقویٰ شعار بیوی بنائیں ،اپنے بچوں کوایک نیک اورفرمانبردار اولاد بنائیں اوراپنے گھرکوایک مثالی گھربنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے ۔آمین یارب العالمین۔

شیئر: