Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”فٹے منہ تہاڈا، مینوں مار چھڈیا جے“

 
ان الفاظ کے صوتی تاثرات ”خراش آور“ ہوتے ہیں ، سن کر غصہ آتا ہے
شہزاد اعظم۔جدہ
خالصتاً دنیاوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو،ٹھنڈے ممالک ہم سے کہیں مختلف اور کہیں زیادہ ارفع مقام پر فائز ہیں۔ہم لوگوں کو زندگی کے دن پورے کرنے کے لئے گھسٹنا پڑتا ہے۔ رو رو کر ایک ایک دن گزارتے ہیں۔ ہم زندگی سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں مگر وہ ہمیں چمٹی رہتی ہے۔ ٹھنڈے ملکوں میں لوگ زندگی کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔زندگی ان سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے مگر وہ اس سے بری طرح چمٹے رہتے ہیں۔اسی لئے وہاں 20منزلہ عمارت گر جائے تو مرتا کوئی نہیں بلکہ صرف 4یا5آدمی زخمی ہو جاتے ہیں۔ ان کے زخم بھی اتنے حسین ہوتے ہیں جیسے کسی نے ”سنگھار“ کر دیا ہو۔تکلیف کے مارے جب ٹھنڈے ملک کی کوئی شخصیت چلاتی ہے تو اس میں عجیب قسم کی دلسوزی پائی جاتی ہے۔کرب کے باعث اس کے منہ سے نکلنے والے ”آوچ! او مائی گاڈ“جیسے الفاظ کا ”تلفظ“ اور صوتی اثرات اتنے ”جان لیوا“ قسم کے ہوتے ہیں کہ سننے والا اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ کاش اس کی جگہ میں زخمی ہوجاتااور اس کا بال بھی بیکا نہ ہوتا۔
ہمارے ہاںحالت یہ ہے کہ کسی ایک منزلہ جھونپڑی کا شہتیربھی بیٹھ جائے تو70افراد جاں بحق اور150زخمی ہو جاتے ہیں۔ زخمیوں کو ایسے زخم لگتے ہیں کہ جب انہیں مرہم پٹی کے لئے اسپتال لے جایا جاتاہے تو وہاں موجود لیڈی ڈاکٹر ان کی حالت دیکھ کر ”دہشت“ کے مارے بیہوش ہونے لگتی ہے۔وہ جب درد کے باعث چلاتے ہیں تو ان کے منہ سے ”بے سُرے “ اور”بگڑے ہوئے تلفظ “ کے حامل الفاظ کچھ یو ںابلتے ہیں کہ ”فٹے منہ تہاڈا، مینوں مار چھڈیا جے، تہاڈا ککھ نہ رھوے۔“ان الفاظ کے صوتی تاثرات اس قدر”خراش آور“ ہوتے ہیں کہ سننے والے کو غصہ آتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ اس سے کہیں کہ تجھے کسی نے تمیز نہیں سکھائی کہ درد میں کس طرح رویا اور چیخا چلایاجاتا ہے؟
ماضی میں ایک مرتبہ ہم کسی سرد ملک کے حسین شہر کی ایک خوبصورت گلی سے گزر رہے تھے۔ ہم نے نہایت دلدوز منظر دیکھا کہ گلی میں دیوار کے ساتھ قالین کا ٹکڑا زمین پر بچھائے ایک شخصیت ہاتھ میں گٹار لئے انتہائی حزنیہ دھن بجا رہی تھی اور اس دھن پر اپنی زبان میں کچھ اشعار پڑھ رہی تھی۔ اس کی حزنیہ کیفیت نے ہمیں اتنا متاثر کیا کہ ہم نے ”8،8آنسو“رونا شروع کر دیا۔ہمیں اس وقت اپنی لاچاری کا ”انتہاءپسندانہ“ احساس ہوا کہ ہمیں اس شخصیت کی زبان نہیں آتی تھی۔ اگر اس کی زبان ہمیں یا ہماری زبان اسے آتی ہوتی تو آج ہماری ”نسلوں کا نقشہ“ ہی کچھ اور ہوتا۔ہمارا دل چاہ رہا تھا کہ ہم ساری دنیا چھوڑ کر فقط اسی کی خدمت میں جُت جائیں کہ اسے زندگی میں کبھی گرم ہوا نہ لگے۔ وہاں سے جو مرد، عورت، بچہ، بوڑھا گزرتا اس کے سامنے ڈالر پھینک کر آگے بڑھ جاتا۔اس شخصیت کو بھکارن کہہ کر مخاطب کرنا ایسا لگتا تھا کہ اس کی توہین کے مترادف ہے۔ایسا کہنے والا بے ادب اور فقیرنی سمجھنے والا پاگل یا جاہل ہی شمار ہوتا۔ہم سے بھی رہا نہ گیا اور ہم نے اپنی جیبیں اس کے قدموں میں جھاڑ دیں۔نتیجتاً بس کا کرایہ بھی نہ رہا اور ہم 90منٹ کی مسافت پیدل طے کر کے گھر پہنچ گئے۔ کچھدنوں کے بعد ہم پھر اسی گلی سے گزرے مگر وہ” متاثر کن فقیرنی“ وہاںموجود ہی نہیں تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے کاروبار شروع کرنے کے لئے رقم جمع کرنا شروع کی تھی، جب مطلوبہ رقم اکٹھی ہوگئی تو اس نے دست سوال دراز کرنا چھوڑ دیا۔ ہمیں خیال آیا کہ واقعی یہ ہوئی نا بات۔
ماضی قریب میں ہم وطن عزیز میں تھے۔ موٹر سائیکل پر بیگم اور بچوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ ٹریفک اشارے پر رُکے تو ایک صحتمند، تندرست و توانافقیرنی آدھمکی ۔اسے دیکھ کر ہمارے دل نے کلبلا کر خواہش ظاہر کی کہ کاش ہم اس سے اتنی دور چلے جائیں کہ زندگی بھر اسکی شکل ہمیں اور ہماری شکل اسے نظر نہ آئے۔ ابھی ہم اس خیال کے غلبے سے باہر نکلنے کی کوشش میں تھے کہ اس نے عجب بھونڈے انداز میں کہنا شروع کیا ”ویہہ روپئے دے کے جائیں، گھٹ میں نئیں لینے‘ ‘یوں اس نے ہمارے بیدار ضمیر کوگویاطمانچہ رسید کر دیا کہ یہ کیا بات ہوئی ایک تو بھیک مانگنا اور وہ بھی اپنی مرضی کی۔ہم نے کہا ”معاف کرو۔“ اس پر وہ برہم ہوئی اور بولی ”میں پیسے منگے نیں، تینوں گال تے نئیں دتی، جا دفع ہو۔“ یہ سن کر ہمارے ”پا“ تو ”سیخ“ ہوگئے اور آنکھوں میں ”8،8آنسو“ کی بجائے خون اترتا محسوس ہوا۔ شکر ہے اسی اثناءمیں اشارے کی بتی سبز ہوگئی۔
ہمیں خیال آیا کہ ایک وہ تھی ٹھنڈے ملک کی ”مجبور شخصیت“ جسے دیکھ کر تمام جیبیں خالی کر دیںاور ایک یہ تھی ہماری ہموطن بھکارن جسے دیکھ کرتمام جیبیں بھری ہونے کے باوجود ہم نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔دراصل دوسروں کے آگے کشکول پھیلانے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے کہ جب ضرورت پوری ہوجائے تو کشکول تج دیا جائے مگر ہمارے اندر وہ ”گُن“ ہی نہیں ہم کاروبار شروع کرنے کے لئے کشکول نہیں تھامتے بلکہ کشکول تھامنے کو ”کاروبار “بنالیتے ہیں،ہے ناں؟
 
 
 
 
 
 

شیئر: