Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کو قریب کیجئے

عربی کے چند کلمات ایک جگہ پڑھے تو ان کی جامعیت نے حیران کر دیا۔4 کلمات پر مشتمل یہ نہایت قیمتی نصیحتیں گویا والدین کے بچوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی کلید ہیں،ذرا ملاحظہ فرمائیں:
اقتربوا من ابناکم وشاوروھم وحاوروھم واکسبوھم قبل ان تخسروھم
 تم اپنے بچوں کے قریب رہا کرو ،ان سے مشورے کیا کرو، تبادلہ خیال کیا کرو، ان کے دل جیت لو، قبل اس کے کہ تم انہیں ہمیشہ کے لئے کھو دو۔
 
والدین کی سب سے اول اور بڑی ذمہ داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا دور ہوتا ہے۔ اس وقت بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں۔ بچے انہی کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انہیں اپنے قریب رکھتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں۔ بہترین تربیت جو قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور مار دھاڑ سے ہرگز ویسی ممکن ہی نہیں۔
 
سیرت نبی میں بچوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی اور بچوں پر رحم کرنے والے نظر آئیں گے۔ آپ نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت اور ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات کے ذریعہ دیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا۔
 
آپ نے بچوں کے بچپنے کا ہر لحاظ سے خیال رکھا۔ اپنی تمام تر رفعت شان کے باوجود ان کے ساتھ کھیلے بھی اور کبھی ان پر سختی نہیں فرمائی۔ اپنے پیارے نواسوں سے آپ کی محبت و شفقت کے کئی واقعات ہم سنتے پڑھتے رہتے ہیں کہ کیسے وہ عین نماز کی حالت میں بھی لاڈ سے آپ پر سوار ہوجاتے تھے اور آپ ناراض تو کیا ہوتے، ان کے لئے سجدے کو طویل فرما لیتے۔
ایک بار آپ حضرت حسن کو چوم رہے تھے۔ ایک دیہاتی نے اعتراض کرتے ہوئے گویا حیرت کا اظہار کیا توآپ نے فرمایا:
اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔
ایک اور موقع پر جب ایک صحابی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ جو شخص رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
 
مسلمان تو مسلمان ،حضور نے تو کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔ ایک یہودی کا لڑکا آپ کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا۔ آپ نے از خود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی۔ اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو۔
 اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی۔ والد نے بھی کہا:ابوالقاسم ()کی اطاعت کرو، لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا۔ آپ یہ کہتے ہوئے نکلے:تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا۔
 
آج اس اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہم اپنے سلوک کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کفار اور غیر کے بچے تو الگ، ہم اپنے بچوں، اپنے خون کے ساتھ کیسا بیگانے کا سا سلوک کرتے ہیں؟
باپ کی درشت مزاجی کی وجہ سے بچہ پڑوسی کے زیادہ قریب اورباپ سے دور ہوتا ہے۔بات بات پہ مارنا، چلانا، برا بھلا کہنا بچوں کو نہ صرف ڈھیٹ بنا دیتا ہے بلکہ ان کو ماں باپ سے دور بھی کر دیتا ہے۔پھرہوتا یہ ہے کہ بچے اس جذباتی خلا کو باہر والوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔باہر پھرتے سفاک درندے ایسے ہی معصوموں کا شکار کرنے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، سو وہ انہیں جھوٹی محبت کے جال میں پھانس کر ان کا استحصال تک کر بیٹھتے ہیں۔
 
گھر میں بچے سے متعلق امور میں بھی اس سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا، نہ اس سے رائے لی جاتی ہے اور نہ اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر وقت، ہر بات میں بس اپنی مرضی چلائی بلکہ باقاعدہ ٹھونسی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ والدین اور بچوں کے درمیان ایک ایسی اجنبیت کی دیوار کھڑی ہونے لگتی ہے کہ پھر بچہ کسی جذباتی کشمکش کا شکار ہو جائے، اس کے ساتھ کچھ غلط ہونے لگے تو وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بات والدین سے شیئر نہیں کر پاتا۔ اور یوں یہ صورت حال کبھی خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔
 
یاد رکھیے،انگلی پکڑ کر چلانے والے ہاتھ جب ہاتھ چھوڑ دیں تو پھر جانے کون کون انگلیاں پکڑواتا ہے اور کس کس سمت لے جاتا ہے۔ اپنے احساسات کو جھنجھوڑیئے، اپنی غفلت کو دور کیجیے۔ مستقبل کے ان ہونہار نونہالوں کو اپنے سے قریب کیجیے، ان سے مشورے کیجیے، انہیں اہمیت کا احساس دلائیے، گاہے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا کیجیے اور ان کے دل جیت لیجیے، قبل اس کے کہ انہیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا جائے۔
 
 

شیئر: