Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شفق کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ تھا

اسے خوابوں کے دولہاکی بے چینی سے تلاش تھی، اللہ نے اس کی دعا سن ہی لی.....
مصطفی حبیب صدیقی،کراچی 
* شفق کراچی کے مضافاتی قصبے میں پیدا ہوئی تھی ،بچپن سے ہی غربت کو گھر کی دہلیز کا مہمان پایا تھا ۔ایک دن پکنے والی سبزی دوسری دن تک کھائی جاتی۔چھوٹی بہن شہنیلا بھی انہی حالات میں پرورش پارہی تھی مگر شفق میں ہر لمحے نئے گھر،مہنگے کپڑے جوتے،زیورات اور بہت سارے پیسوں کی جو طلب تھی وہ شہنیلا میں چھوکر نہیں گزری تھی۔وہ اپنے باپ کی حق حلال کی کمائی پر خوش تھی۔قسمت کی دیوی بھی شفق پر مہربان تھی وہ تیزی سے تعلیم مکمل کرتے ہوئے گریجویٹ کرچکی تھی ۔شکل صورت کی بھی اچھی تھی ،رنگ گورا ،چٹا ،گھنے لمبے بال ،لمبا قد یعنی ہر لحاظ سے روپ نکھر کر سامنے آجاتا تھا دوسری جانب شہنیلا واجبی سے شکل رکھنے والی مگر اپنے حالات پر شکر کرنے والی لڑکی تھی۔دونوں بہنیں گریجویٹ کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں تھیں مگر شفق کو اپنے خوابوںکے دولہاکی زیادہ بے چینی سے تلاش تھی اور اسکے خوابوںمیں وہ دولہا دور کہیں پردیس سے اڑتا ہوا آتا تھا اور اسے اڑاکر لے جاتا ہے۔اور پھر اللہ نے اس کی دعا سن ہی لی مگر پھر۔۔۔۔۔۔۔
 ’’شفق ،شفق ،آج تیار ہوجا،لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں،لڑکا امریکہ میں ہوتا ہے ،چند دنوں کیلئے ہی پاکستان آیا ،اے اللہ بس خیر کرے‘‘ صفیہ آپا اپنی بیٹی کو آواز دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔
 ’’کیا لڑکا امریکہ میں ہوتا ہے ،اوہ امی بس پھر تو فوری ہاں کہہ دیں ،مجھے تو باہر جانا ہے ‘‘ شفق نے اپنی اماں سے لپٹتے ہوئے کہا۔
 صفیہ آپا کافی سمجھدار اور دور اندیش خاتون تھیں ،دھوپ چھائوں گزارچکی تھیں پیار سے سمجھانے لگیں۔۔
 ’’نہیں بیٹا!دعا کرو اچھا لڑکا ملے اور تیرے نصیب بھی اچھے ہوں ،جو ملے اس پر شکر کیاکرو،اپنا ملک کیا برا ہے ،یہاں بھی سب کچھ ہے‘‘۔
 شفق خاموش تو ہوگئی مگر دل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ جیسا بھی لڑکا ہو بس رشتہ پکا ہوجائے اور وہ امریکہ چلی جائے۔اس کی قسمت اچھی رہی کہ اسے اشفاق جیسا خوبصورت اور پڑھا لکھا شوہر مل گیا۔اب تو شفق کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔شادی کے فوری بعد بغیر کسی آنسو کے وہ اپنے شوہرکے ساتھ امریکہ چلی گئی ۔
  شفق کیلئے امریکہ کی سرزمین ایک ایسا خواب تھا جو حقیقت بن کر بھی اس کے لئے خواب ہی لگ رہا تھا۔وہ امریکہ پہنچ چکی تھی مگر اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ادھر اشفاق اور اہل خانہ بھی خوش تھے کہ انہیں گھریلو اور پڑھی لکھی لڑکی مل گئی ورنہ اس امریکی ماحول میں وہ ایسی لڑکی کہاں سے تلاش کرتے۔اشفاق پلا بڑھا ضرور امریکہ میں تھا مگر اس کے والد ین دیندار تھے ،گھر کا ماحول اسلامی تھی ،ان لوگوں نے مشرقی روایات بھی نہیں بھلائی تھیں اس لئے اب بھی وہ مشرقی دلہن لانے کیلئے پاکستان گئے تھے۔
دن یوں ہی گزرتے چلے گئے اور شادی کو 6ماہ گزر چکے تھے مگر شفق اپنی روایات کو بھلارہی تھی ،وہ اچانک مل جانے والی اس چمکتی دنیا میں خود کو سنبھال نہیں پارہی تھی ۔کراچی کے مضافاتی علاقے کے چھوٹے سے گھر میں پرورش پانے والی شفق کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ منٹوں کے اندر اپنی تمام مشرقی روایات کو پیروں تلے کچل کر امریکہ کی ہر روایت کو اپنا لے۔شفق شلوار قمیض کے بجائے پینٹ شرٹ پر آچکی تھی ۔نماز چھوڑ کر فلموں کی شوقین ہوچکی تھی ۔اس کے سسرال والے امریکہ میں رہنے کے باوجود اسلامی طرز زندگی اپنائے تھے مگر شفق کو ان کا یہ طرز کسی طرح نہ بھاتا تھا۔عجیب ہی کہانی تھی اور پھر ۔۔چلیں آگے سنیں۔
  ’’شفق کہاں جارہی ہو ؟اشفاق کی امی نے اپنی بہو سے آج پوچھ ہی لیا جو اکثر ایسے ہی بغیر بتائے گھر سے نکل جاتی تھی۔
 ’’دوستوں کے پاس جارہی ہوں ،ایسے ہی ایک پارٹی ہے‘‘ شفق نے جواب دیا۔
 ’’مگر بیٹا یہ دوست کیسے بن گئیں ابھی تو تمہیں یہاں آئے کچھ ماہ ہی ہوئے ہیں تم اکثر باہر جانے لگی ہو کون لوگ ہیں یہ کیا پہلے سے جانتی تھیں انہیں‘‘ صابرہ صاحبہ نے نہایت مشفقانہ انداز میں سوال کیا ۔
 شفق نے ٹرا کر جواب دیا’’نہیں ،پہلے نہیں جانتی تھی ،فیس بک پر دوستی ہوئی ہے،ہمارا گروپ بن گیا ہے،کیا اب میں اپنی مرضی سے باہر بھی نہیں جاسکتی‘‘۔
 ’’بالکل جاسکتی ہو بیٹا مگر یہ امریکہ ہے ،یہاں کا ماحول مغربی ہے،ہمارے معاشرے کی لڑکیاں اس طرح باہر نہیں جاتیں‘‘صابرہ صاحبہ نے پھر سمجھانے کی کوشش کی ۔مگر شفق کوئی جواب دیئے بغیر باہر چلی گئی۔
 ساس کو غصہ تو بہت تھا مگر برداشت کرگئیں او ربیٹے سے کچھ نہیں کہا ،صابرہ صاحبہ روایتی ساس نہیں تھیں ،بہت سمجھدار تھیں سوچا کہ بچی ہے آہستہ آہستہ سمجھ جائے گی۔
  شفق کا باہر جانا معمول بن چکاتھا ،ساس کے سمجھانے پر وہ لڑنے کو تیار ہوجاتی۔آخر کار ساس نے بیٹے کو بتاہی دیا ،اشفاق نے بھی نہایت محبت اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مغربی معاشرہ ہے ،یہاں عور ت کی عزت محفوظ نہیں ،خود کو سنبھالو ،جہاں جانا ہے میرے ساتھ جاؤ مگر شفق تو امریکہ کی چمکتی دنیا میں کھوچکی تھی ،اس کے سر پر چڑھا ہو خمار اب اترنے والا نہ تھا۔
آئے روز شفق پارٹیوں میں جانے لگی جبکہ اس دوران ہی وہ 4ماہ کی حاملہ بھی ہوچکی تھی۔آج بھی صابرہ صاحبہ نے سمجھایا کہ بیٹا اس حالت میں باہر جانا اور اچھل کود کرنا ٹھیک نہیں مگر شفق کی سمجھ میں کچھ نہ آنا تھا۔
اشفاق نے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک اخبار شفق کے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ’’دیکھو ،پڑھو ،یہ ہندوستانی لڑکی تھی رات کو آوارہ لڑکوں نے پکڑکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور گلاکاٹ کر پھینک گئے،ایسے مت نکلا کرو باہر‘‘۔
 شفق نے سنی ان سنی کرتے ہوئے بس سر ہلادیا کہ ’’ٹھیک ہے‘‘۔
 بات پاکستان تک پہنچ چکی تھی چھوٹی بہن اور شفق کی ماں نے بھی فون کرکے سمجھایا کہ اپنی روایات اور تربیت نہ بھولو مگر شفق کے سر پر جو چمکتی دنیا کا خمار تھا وہ اترنے والا نہ تھا۔اشفاق بہت محبت کرنے والا شوہر تھا ،ہر لمحے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر شفق پر کوئی اثر نہ ہوا اور پھر ایک رات۔۔
 ایک رات شفق اپنی دوستوں کی پارٹی میں تھی کہ ان میں سے ایک لڑکی نے شفق کو سوفٹ ڈرنک میں شراب ملاکر پلادیا ،نیم بے ہوشی کی حالت میں شفق کے ساتھ 3لڑکوں نے زیادتی کی اور سڑک پر پھینک گئے،صبح وہ ایک اسپتال میں پائی گئی جہاں اس کا حمل بھی ضائع ہوچکا تھا۔اشفاق اس کے سراہنے کھڑا تھا ساس نے دیکھتے ہی منہ پھیر لیاتھا۔
 ’’مجھے معاف کردو ،اشفاق ،میں غلط تھی ،سب کچھ تباہ ہوگیا ،میں اب کبھی باہر نہیں جاؤنگی‘‘شفق گڑ گڑارہی تھی مگر اشفاق فیصلہ کرچکاتھا۔
آج شفق کو پاکستان پہنچے کئی برس بیت چکے ہیں،اشفاق نے طلاق نامہ اگلے ہی ہفتے پوسٹ کردیا تھا۔شفق کی ہنستی بستی زندگی اس کی نادانی کی وجہ سے اجڑ چکی تھی۔اب وہ ایک مرتبہ پھر کراچی کے اسی مضافاتی علاقے میں پرانے کچے مکان میں ایک کونے میں گٹھڑی کی مانند پڑی رہتی ہے اور اب کوئی اشفاق،ساس یا ماں اور بہن اسے کسی کام سے روکنے والا نہیں تھا۔شفق کے پاس آج سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ بچا تھا۔

شیئر: