Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر چیز پکوان میں اچھی لگتی ہے، سائبان میں نہیں

 
 ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو چاق و چوبند ہوں، صحتمندہوں ، خواہ چند ہوں
شہزاد اعظم۔جدہ
ہمارے وطن عزیز پاکستان میں صاحبانِ ذوق و شوق یوں فرماتے چلے آئے ہیں کہ لزوجت کا حامل ایسا مائع جس میں خواہ مچھلی تلی جائے ، پکوڑے تلے جائیں ، پتوڑے تلے جائیں،گول آلوکاٹ کر انہیں چپس کہہ کر تلا جائے یا فرنچ فرائز کے نام پرلمبے آلو تلے جائیں، یا مرغی روسٹ کی جائے، اچھی لگتی ہے، اسے تیل کہا جاتا ہے پکوان کا۔ اسی لئے صاحبانِ ذوق اسکے بارے میں یوں کہا کرتے ہیںکہ ”ہر چیز پکوان میں اچھی لگتی ہے“ لگتا ہے کہ صاحبان کے اس فرمان کو ہم نے دل پر لے لیااور اسے ہر شعبے پر منطبق کر دیا۔اس فرمان سے متاثر ہونے والوں میں موٹرسائیکل سوار شامل تھے جنہوں نے سوچا کہ جب ہر چیز ”پکوان“ میں اچھی لگتی ہے تو اسی اصول، کلیے اور ضابطے کے تحت یہ بات بھی درست ہے کہ ”ہر چیز سائبان میں اچھی لگتی ہے“اسی لئے انہوں نے اپنی موٹر سائیکلیں اس سائبان کی چھاوں میں کھڑی کر دی ہیںلیکن اگر عقل و دانش کا معمولی سا بھی استعمال کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ”ہر چیز سائبان میں اچھی نہیں لگتی“۔ 
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے یعنی ایسا ملک جو ترقی کی جانب بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اس لئے ہمارے ملک کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو تعلیم یافتہ ہوں، محنت کرنے والے ہوں، قانون کے پاسدار ہوں، نظم و ضبط کے پابند ہوں، چاق و چوبند ہوں، ذہنی صحت مند ہوں، خواہ ملک میں چند ہوں مگر علم و عمل سے بہرہ مند ہوں ۔ 
یہاں ہمیں اپنے بچپن کے دوست کی نانی یادآگئیں۔ وہ اچھی خاصی تھیں،دوست کے نانا کی پسند تھیں، بظاہر تن ومندتھیں، کئی بھابیوں کی اکلوتی نند تھیںپھر بھی نجانے کیوں وہ ہرکام اُلٹا کرتی تھیں۔ اپنے اور بچوں کے تمام کپڑے ہوا دان میں رکھتیں اور کہتیں کہ اس میں لباس کو ہوا لگتی رہتی ہے، اس میں بُو پیدا نہیں ہوتی جبکہ کھانے پینے کی اشیاءاور مرچ مسالے اٹیچی اور دھاتی ٹرنک میں رکھتیں اور کہتیں کہ اس میں خراب نہیں ہوتے۔ وہ اپنی خواب گاہ میں انگیٹھی جلا کر اس پر کھانا وغیرہ پکاتیں اور باورچی خانے میں چارپائی بچھا کر سوتیں۔ اپنے نہانے کا انتظام ، غرفہ¿ طعام یعنی ڈائننگ روم میں کرتیں اور کھانا کھانا ہوتا تو بیڈروم میں جا گھستیں۔پرانے زمانے کی پتلی پتلی ٹائیاںجو ان کے شوہر اپنے لئے لاتے تھے کہ پینٹ کوٹ کے ساتھ گلے میں پہن لیں گے، وہ ان ٹائیوں کو پاجامے میں کمر بند کی جگہ ڈال دیتیں اور شوہر کو ٹائی کی جگہ گلے میں کمربند باندھنے کے لئے کہتیں۔سردیوں کے موسم میں جب ٹھنڈ لگتی تو وہ ہاتھوں میں جرابیں پہن لیتیں اور پیروں کو ٹھنڈ لگتی تو انہیں شنیل کی ٹوپی میں چھپا لیتیں۔فرش پر لیٹ کر سی پر پاوں رکھ لیتیں ۔ کھانا بیڈ پر رکھ کر کھاتیںاوردل چاہتا تو کھا پی کر کھانے کی میز پر جا کرسو جاتیں۔کبھی غسل خانے میں بیٹھ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کر دیتیں اور کبھی مہمان خانے میں مرغی کے چوزے لا کر چھوڑ دیتیں اور ان کے سامنے باجرہ ڈال دیتیں۔چائے کی پیالی کے ساتھ استعمال کی جانے والی پرچ میں چاول کھاتیں اور چائے کی پیالی کے نیچے پلاو کی پلیٹ رکھ کر مہمانوں کو پیش کرتیں۔ یہ سب ”کرتوت“اپنی جگہ مگر انہوں نے حد تو اس وقت کی جب گھر کے کام کاج کے لئے انہوں نے ”پینو“ نامی خاتون کو ملازم رکھا اور اسے ذمہ داریاں سونپنے کی بجائے خود اس کی خدمت شروع کر دی۔ وہ نوکرانی کو ”بوا، آیا، انا“ وعیرہ کہنے یا اس کا نام لینے کی بجائے اسے ”رانی“ کہہ کر پکارتیں۔ اسے وضع وضع کے پکوان پکا کر کھلاتیں، اس کے پاوں دباتیں، اس کو چائے بنا کر پلاتیں۔ دوپہر کواس کے سونے کا بھی انتظام کرتیں اور جیسے ہی مہینہ پورا ہوتا وہ اسے 500روپے بطور تنخواہ دیتیں اور 5000روپے بطور تحفہ پیش کرتیں۔ اگر وہ اتنی بھاری رقم لینے سے انکار کرنے کا دکھاوا کرتی تو نانی رونے دھونے لگتیں ۔ نانی کہتیں کہ رانی! پلیز! برائے مہربانی! یہ رقم لینے سے انکار نہ کرنا ورنہ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہے گا۔
نانی کے شوہر اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتے تھے ، نانی کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے، نانی انہیں پکا کر نہیں دیتی تھیں تو وہ بازار سے لے آتے تھے اور بیوی کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاتے تھے۔ اس کے باوجود نانی نے نانا سے طلاق لینے کے لئے درخواست دائر کر دی۔ نانا بہت روئے دھوئے، نانی کے سامنے ہاتھ جوڑے، ان کے پیر پکڑے، دہائیاں دیں کہ درخواست واپس لے لیں مگر نانی نے ایک نہ مانی اور ناناسے علیحدگی اختیار کر لی۔ علیحدہ ہوتے ہی نانی نے سابق نانا کا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ روزانے اپنے بیٹے کے ہاتھ ایک وقت کا ناشتہ اور دو وقت کا کھاناخوان میں سجا کر بھجواتیں،عید، بقرعیدپر اپنے ہاتھوں سے جوڑا سی کر انہیں بھجواتیں۔
محلے والے بھی نانی کی حرکتوں کے بارے میں سن کر اورمحلے کی خواتین ا نہیں دیکھ کر حیران، پریشان اور پشیمان تھیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ یہ نانی تو ہم عورتوں کے ماتھے کا کلنک ہے۔ انہیں جیسامحبت کرنے والا شوہر ملا ایسا تو شاذ و نادر ہی کسی عورت کو نصیب ہوتاہے اس کے باوجود انہوں نے بے چارے نانا کو ”نہ نہ“ بنا کے رکھ دیا۔تف ہے، اس عورت نے تو سبھی کچھ اُلٹا کر کے رکھ دیا،” خرد کا نام جنوں رکھ دیا اور جنوں کا خرد“، ہمیں چاہئے کہ اس کا نام بھی اُلٹ دیں، آج کے بعد سے ہر فرد انہیں نانی نہیں بلکہ ”نی نا“ کہہ کر پکارے۔
آج ”نی نا“ کے انتقال کو 45برس ہو چکے ہیں ۔ دھنک کے صفحے پر شائع شدہ تصویر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری موٹر سائیکلیں، اُسی ”نی نا“ کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی ہیںکیونکہ یہ سائبان تو لوگوں کے لئے انتظار گاہ کے طور پر نصب کیا گیا تھا مگر ”نی نا“ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان موٹر سائیکل مالکان نے موٹر سائیکلیں سائبان کے نیچے کھڑی کر دی ہیں اور خود شاید پارکنگ میں جا بیٹھے ہیں۔ ویسے ذرا غور کیاجائے تو احساس ہوگا ہمارے ملک کے اکثر شعبوں میں اسی ”نی نا“کی نسل کے صاحبان کی اجارہ داری ہے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: