Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پا کستا نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، سحرمشتاق

 ڈاکٹر بننے کا خواب تھالیکن صحا فت سے دلچسپی بڑ ھ گئی ، ہوا کے دوش پر ملاقات 
 
 تسنیم امجد ۔ریا ض
21ویں صدی میں یہ دنیا ایک” گلوبل سوسائٹی“بن چکی ہے ۔آج کسی ملک کے گنجان آباد شہر کا شہری ہو یا کسی ویران جنگل کا جنگلی، کسی گاوں میں رہنے والا گاودی ہو یا صحرا میں رہنے والا صحرائی، بیرون ملک عیش و نشاط میںمگن دوست ہو یا وطن میں مہنگائی، ناانصافی اور استبداد کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور بھائی،برسوں کی جان پہچان رکھنے والی کوئی ہستی اپنی ہو یا چند دنوں کی شناسائی کی حامل پرائی،بالوا سطہ یا بلا واسطہ سماجی ویب سائٹس، واٹس ایپ اور ایسے ہی دیدو گفت و شنیدکی مفت بر سہولتوں کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں پل پل کی آگہی سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔یوں یہ کہنا بے جا نہیں کہ دنیا ایک دوسرے کے قریب آ چکی ہے، جغرافیائی فاصلے سمٹ کر ایک کلک کی دوری تک پہنچ گئے تاہم دلوں میں دوریاں زیادہ ہوگئیں۔
جدید ٹیکنالوجی نے اپنا کام کر دیا، انسان کو ایک دوسرے کے قریب لاکھڑا کیا تاہم اب یہ اس کا کام ہے کہ وہ اس قربت کے کون سے پہلو ﺅ ں سے متا ثر ہو تا ہے ۔اس ترقی کے باعث دیس اور پر دیس میں صرف اتنا فرق رہ گیا ہے کہ سر حد پار کرنے کے لئے ویزے کی ضرورت ہے ۔اگر پردیس میں قدم رکھنے کے لئے کسی اجازت نامے کی ضرورت نہ ہوتی، اگر دیس دیس پھرنا پابندیوں سے آزاد ہوتاتو اس سہولت سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والی ہستی ماںہوتی جو اپنی محبت کے ہاتھوں بے قرار رہتی ،ممتا کے احکامات سے مجبور ہو کرلخت جگر کے سر پر اپنے آنچل کا سایہ کرنے کے لئے آئے دن گھر سے فرار رہتی تاہم آج وہ مجبور ہے کیونکہ وہ بیٹے کو پردیس جانے سے روکے تو بیروزگاری اسے پھلنے نہیں دیتی اور اگر وہ بیٹے کو پردیس بھیج دے توبے قرار ممتا اسے سنبھلنے نہیں دیتی ۔
ممتا وہ جذبہ ہے جس کی دنیا میں مثال نہیں مل سکتی ۔پردیس میں مقیم بیٹے کو ممتا کی یاد بے قرار رکھتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ:
اے ما ں مجھے نیند نہیں آ تی 
مجھے اپنی آ غو ش شفقت دے دو
میرے ماتھے پہ لبِ محبت رکھ دو
مجھے میٹھی لو ری سنا کر 
میرے سا رے غم مٹا کر 
اپنے سینے کی ٹھنڈک میں چھپا لو
اے ما ں ۔۔۔ !
مدت ہو ئی میں رو یا نہیں ہو ں
کئی را تیں کٹ گئیں میں سو یا نہیں ہو ں
اردو نیوز میں”ہوا کے دوش پر “آج کی مہمان آ نسہ سحر مشتاق ہیں۔ ان سے ملکر ہمیں ا حساس ہوا کہ یہ سچ ہے کہ اس کا ئنات کی خوش رنگی ، ستا رو ں کی دلکشی ، بہا رو ں کی نزا کت و نکہت ، سب عو رت کے دم سے ہے ۔اس نے یہ ثا بت کر دیا کہ وہ مر دو ں سے کم نہیں۔ آنسہ سحرجز یرہ نما ئے عرب میں اپنی بسا ط سے بڑ ھ کر اپنی دنیا بنا نے کا عزم لئے ہو ئے ہیں۔ان کی ہمہ صفتی و ہمہ جہتی متا ثر کن ہے ۔ان سے ہوا کے دوش پر ہماری گفتگو طویل وقفو ں میں ہو ئی جس کی وجہ ان کی انتہا ئی مصرو فیت تھی ۔وہ مملکت کے الیکٹرانک میڈیا سے گز شتہ 11برس سے منسلک ہیں۔انہو ں نے اپنے کریئر کا آ غا ز نہا یت کم سنی میں کیا ۔تعلیم کا سلسلہ بھی ہم آ ہنگ رکھا ۔وہ ہنستے ہو ئے کہنے لگیں پرنٹ میڈ یا میں آنے کی خواہش تھی اس کی آپ کو کیسے خبر ہو ئی ؟ خیر سب سے پہلے تو اردو نیوز کی تمام انتظا میہ کو میرا سلا مِ پہنچا دیجئے۔ریڈیو اور ٹیلی و ژن پر گز شتہ سا لو ں سے میرے را بطے کی ز بان انگر یزی ہی رہی لیکن اب مجھے اردو نیوز برا ڈ کا سٹ کرنے کی ذمہ داری بھی سو نپی گئی ہے۔یہ تجر بہ بھی میرے لئے خو ش کن ہے۔ مر قوم تحر یر یں اپنی ہی چا شنی رکھتی ہیں۔اردو ادب تو ریختہ کا پر تو ہے ۔یہ ہماری قو می زبان بھی ہے ،حال ہی میں اس کی شان میں ایک قطعہ پڑ ھا ،یہا ں پیش کرنا چا ہو ں گی:
اردو تری تو قیر کے ہم لوگ امیں ہیں
لفظو ں کا سمندر ہے تو، ہم تیری زمیں ہیں
تہذیب ہے ،تد ریب ہے ، تر تیب ہے اردو
اردو جہا ں آ باد ہے ، ہم لوگ وہیں ہیں
آنسہ سحر مشتاق نے کہا کہ میرے والد ِ محترم مشتاق ا حمد گز شتہ 30 برس سے مملکت میں مقیم ہیں ۔میں ان کی سب سے بڑی بیٹی ہوںاس لئے ان کی تر بیت کی تمام ترتو جہ کا مر کز رہی ۔میری کا میا بیو ں کا سہرا والدین کے سر ہے ۔امی نے دین و دنیا کا شعور دیا ۔ وہ مجھے گھر کے چھو ٹے مو ٹے کا م ضرور سو نپتیں۔3سال کی عمر میں ہی انہوں نے مجھے سعو دی کیمبر ج اسکول میں ڈال دیا۔اس کے بعد ڈپلو میٹ اور مڈل ایسٹ انٹر نیشنل کے انگلش سیکشن میں پڑ ھی۔ہمیشہ اے ون رہی۔مباحثوں ،ڈرامو ں اوردیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ میں آگے آ گے رہتی ۔میں خو ش قسمت ہو ں کہ والدین کے ساتھ ساتھ اسا تذہ کی بھی آ نکھو ں کا تارا رہی ۔میری اسپو کن انگلش بہت اچھی تھی۔ بابا اس کی حو صلہ افزائی کرتے تھے۔مجھے وہ دن یاد ہے جب میں 12برس کی تھی توبابا نے مجھے ہینڈی ریڈیو تحفے میں دیا اور کہا کہ اس میں لندن ریڈیو سے خبریں سنا کرو۔شا ید وہ چاہتے تھے کہ اس طرح میری انگریزی مزید اچھی ہو جائے۔
میں سو چتی ہو ںکہ انسان کے کام اس کی اپنی مر ضی کے تا بع نہیں ہوتے ۔ قدرت ان کے را ستے بہت پہلے سے طے کر دیتی ہے۔بابا مجھ سے اکثر اخبار پڑ ھواتے۔مجھے میگز ین لا کر دیتے اور پھر ہم دونو ں اس کے مختلف مو ضو عات پر تبصر ہ کرتے۔اس طرح مجھ میں خود اعتمادی آتی گئی۔اب میںسو چتی ہو ںکہ بابا کا مقصد بھی یہی تھا ۔اے لیول کے بعد ریڈ یو میں کام کرنے کا مو قع ملا تو خود کو منوا لیا ۔میں محتر مہ صافی عبداللہ کی ممنون رہو ں گی جنہو ں نے ریڈ یو کے پرو گراموں میں میری رہنمائی کی ۔انہو ں نے 23 برس وہا ں اپنی ذمہ داریا ں نہایت خو ش اسلوبی سے نبھا ئیں۔وہ آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا نام نہایت ا حترام سے سب کے دلو ں میں زندہ رہے گا ۔
میں نے ریڈیو پر خبریں ،تبصرے ،لا ئیو پروگرام اور حج کی لا ئیو کمنٹری کی ۔صبح 8بجے پرو گرام شروع ہوتے ۔میرا پہلا پرو گرام ”کلچرل ایکٹیو یٹیز اِن کنگڈم آف سعو دی عر یبیہ“ تھا۔ان تمام پروگرا مو ںکو بعد میںفر نچ سیکشن کے سپرد کر دیتی ۔دو برس بعد ٹی وی پر لا ئیو شوز کرنے کا مو قع ملا ۔”تیس منٹ“ کے نام سے ایک لائیو شو 30 منٹ دورا نئے کاہی تھا جو ہفتے میں 3سے4 مرتبہ مختلف سوشل اور پو لیٹیکل مو ضو عات پرہوتا تھا اور نہا یت پسند کیا جا تاتھا ۔اس میںمختلف شخصیات سے بات چیت اور ملاقات کروائی جاتی تھی جوسب کو پسند آتی تھی۔
سحرمشتاق یہاں کچھ وقفے کے بع بو لیں کہ ان تمام مصرو فیات کے ساتھ میں نے تعلیم جاری رکھی ۔اب تک میں نے پنجاب یونیور سٹی سے گریجویشن کے بعد ما سٹرز کا پہلا سال جرنلز م میں مکمل کر لیا ہے ۔اللہ تعا لی کا شکر ہے جس نے مجھے ان کا میا بیو ں سے نوازا۔ والدین کے تعاون کے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔میری دو نو ںچھوٹی بہنیں اور دو نو ں بھا ئی ابھی پڑ ھ رہے ہیں۔میر ی یہ کو شش ہوتی ہے کہ میں ان کے لئے رول ما ڈل ثا بت ہو ں ۔وا لدین نے بھی یہی سمجھا یا کہ چھو ٹے بڑ و ں کی تقلید کر تے ہیں اس لئے میں نے ہمیشہ اپنا محا سبہ کیا ۔میں نے اپنے اس کا میا بی کے سفر میں بیشتر چیلنجز کا سا منا کیا ۔مسا بقتی دوڑ کو ئی آ سان نہیں ہو تی لیکن اسی میں زند گی کا مزہ ہے۔مجھے اپنے بابا کا کہنا یادہے کہ،محنت اتنی خا مو شی سے کرو کہ تمہا ری کا میا بی شور مچا دے ۔محنت اور کا میا بی کا چو لی دامن کا سا تھ ہے۔میرے سامنے ڈاکٹر بننے کا خواب تھا لیکن عملی زندگی میں ایسے موا قع سامنے آ تے گئے کہ میر ی صحا فت سے دلچسپی بڑ ھتی گئی اور اب یہ میرا نصب ا لعین ہے ۔ان شاءاللہ۔ما سٹرز کے بعد میڈ یا اسٹڈ یز میں پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے جس کے لئے کینیڈا کی یو نیو ر سٹی میں داخلہ لینے کا عزم کر رہی ہوں ۔
مجھے کام کے سلسلے میں بیشتر مما لک جانے کا اتفاق ہوا جن میں فرا نس ،ا ٹلی ،اسپین،یو کرین ،ما لٹا،پیرو ،ڈنما رک اور جا پان قا بلِ ذکر ہیں۔بابا نے ایڈ وا نس انگلش کے کو ر سز کر نے کے لئے لندن بھیجا ۔اس دوران میں نے بہت کچھ سیکھا ۔مختلف قو میتوں کے ساتھ میل جول سے آموزش کی دنیا وسیع ہو تی ہے ۔ایک و ز ٹ وا لدین کے ہمراہ تر کی ،لندن اور امر یکہ کا بھی بھر پور رہا ۔
مستقبل کے بارے میں ہمارے ایک سوال کے جواب میں آنسہ سحر مشتاق نے کہا کہ اس کا فیصلہ میںنے والدین پر چھو ڑ رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ سے بہترین کی دعا کرتی ہو ںکہ ایسے ساتھی سے واسطہ ہو جو قدر دان ہو ۔میرے ساتھ قدم ملا کر چلے ۔میں میڈیا میں کام ضرور کرتی ہو ں لیکن مشر قیت کی قا ئل ہو ں۔پا کستا نیت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔مملکت نے کبھی غیریت کا احساس نہیں ہو نے دیا۔میرے کو لیگ بھی بہت معاون ہیں۔خصو صی طور پر میں محتر مہ تبسم کی ممنون ہو ں۔میں نے یہی سیکھا کہ کی زندگی امید اور خوف کے درمیان پنپتی ہے ۔وسوسے قطار اندر قطار آ تے ہیں فیصلہ مگر ان پر نہیں کیا جاتا بلکہ عزم و ہمت کے ساتھ ،سو چی سمجھی حکمتِ عملی کے ساتھ یوں کیا جاتا ہے جیسے جو ہری ہیرا ترا شتا ہے ۔بابا کے لئے شعر کہنا چا ہو ں گی:
یہ کا میا بیا ں، عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
اردو نیوز کے پلیٹ فارم سے ما ما کو بھی تحسین کے بیشمار پھو ل پیش کرنا چا ہتی ہو ں۔ان نوا زشوں کا شکریہ کہو ں گی جن کی بدولت میں اعتماد سے بھر پور زندگی گزارنے کے قابل ہو ئی ۔شکریہ از حد شکریہ ،آپ نے مجھے دین و دنیا کی تعلیمات سے روشناس کرایا ۔آپ کا وجود محبت ،ما متا ،ایثار اور قربانی کے رنگوں سے سجا ہے ۔
جنت نظیر ہے میری ما ں
رحمت کی تصویر ہے میری ما ں
میں اک خواب ہو ں زندگی کا 
جس کی تعبیر ہے میری ما ں
چھپا لیتی ہے وہ ز خم کو مر ہم کی طر ح
مرے ہر درد کی تدبیرہے میری ما ں
میں آج کی ماﺅ ں سے در خواست کروں گی کہ وہ اپنی زندگیو ں کو بے جا اطراف میں پھیلنے سے محفو ظ رکھیںاور اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔محبت کی زبان سے سمجھا ئیں ،اس پر بے جا تنقید اور سختی نہ کریں۔اس طرح فا صلے بڑ ھتے ہیں اور بیٹی کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے ۔ما ں کی وفا اور ایثار میں کو ئی شک نہیںلیکن ما ضی اور حال کی ما ں کے رویے میں بہت فرق آ چکا ہے ۔صبح ا لکا فیہ گیدرنگ اور چاٹنگ ، آج کی ما ﺅ ں کے پاس وقت ہی نہیں چھو ڑ تیں کہ وہ اپنی ذمہ دار یا ںکما حقہ پو ری کر سکیں۔بیٹی کو ما ں کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ دو نو ں کے درمیان دوستی وقت کا تقا ضا ہے ۔
آنسہ سحر مشتاق اپنے مشا غل کے بارے میں بتا تے ہوئے کہنے لگیں کہ ٹر یو لنگ تو بہت ہی من کو بھا تی ہے اس کے علاوہ ز یادہ تر گھر میں ہی سہیلیو ں کے ساتھ گیم نا ئٹ ،ہا ئی ٹی اور کا فی ما رننگ کا اہتمام کر لیتی ہو ں۔اسطرح ما ما کو بھی کمپنی دے سکتی ہو ں ۔کھانا بنانے میں چا ئنیزاور کچھ اٹالین ڈ شیں شوق سے بنا لیتی ہو ں ۔ایشین کھا نو ں میں ما ما کے ہاتھ کی بنی بر یا نی، آ لو گو شت اور نہا ری پسند ہے کیونکہ وہ اس میں بہت ہی مہارت رکھتی ہیں ۔ہا ں مجھے پا سٹا بنا نا اور کھا نا بھی پسند ہے ۔اس کے علاوہ اسمو تھیز مع پی نٹ بٹر بھی خوب بنا سکتی ہو ں۔ کتا بیں پڑ ھنے کا شوق ہے لیکن مصرو فیت کی وجہ سے صرف شیکسپیئرکو ہی کچھ وقت دے سکتی ہو ں ۔پا کستا نی ڈرامہ سیریز بھی شوق سے دیکھتی ہو ں ۔
مجھے دبئی میں اپنی اسکائی ڈائیویاد ہے جب میں14ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے آ ئی تھی ۔اب سو چتی ہو ں تواپنے اس شوق پر تعجب ہو تا ہے ۔مجھے فخر ہے کہ میں نے آکسفر ڈ ہا ﺅ س کا لج ،برلٹز میں5برس بطور ٹیچر خد مات انجام دیں ۔اس پر مجھے جس انداز میں سرا ہا گیا وہ میری زندگی کا سرمایہ ہے ۔حالیہ پرو گرام جو جمعرات کی شب آتا ہے،ہو م اینڈ اَوے، یہ ٹیلی وژن کا پسند یدہ پروگرام بن چکا ہے ۔اس میں آج کے حا لات کے مطا بق وطن جا نے وا لے اپنے ا حسا سات بیان کرتے ہیں ۔میری کو شش ہو تی ہے کہ اپنے سوالات نہا یت دلچسپ انداز میں ان سے پو چھو ں۔حج کی لا ئیو کمنٹری بھی میں نے ممکنہ طور پر کا میا بی سے کر کے ستا ئش حا صل کی ۔یہاںہمیں گفتگو کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا کیو نکہ اردو نیوز آن ایئر کا وقت ہو چلا تھا ۔
اس میںکوئی شبہ نہیں کہ ہماری نسلِ نو بے حد با صلا حیت ہے ۔ہمیں ان کی صلا حیتوں سے کما حقہ مستفید ہو نے کے لئے خود کو رول ماڈل ثابت کرنا ہو گا۔انہیں ہماری رہنمائی کی اشد ضرورت ہے ۔ان کی تر بیت کے دوران ایسی تمام با تو ں سے اجتناب کر یںجن سے ان کی شخصیت متا ثر ہوتی ہو ۔
 
 
 
 
 

شیئر: